0
Saturday 12 Apr 2014 00:29
آئینی حقوق سے محروم یہ خطہ محب وطن اور پاکستان دوست خطہ ہے

مظلوم عوام کو نام نہاد سیاسی جماعتوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، علامہ ناصر عباس جعفری

پاکستان سے الحاق جی بی کے لوگوں کا جرم بن گیا، 65 برس گرز جانے کے باوجود اس سرزمین کو بےآئین رکھا گیا
مظلوم عوام کو نام نہاد سیاسی جماعتوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، علامہ ناصر عباس جعفری
حجۃ الاسلام علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 1960ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی سے ہی حاصل کی اور دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز جامع اہلبیت اسلام آباد سے کیا۔ بعد ازان اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران کے شہر قم چلے گئے جہاں وہ دوران تعلیم دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے قریبی رابطے میں رہے۔ انہوں نے دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2002ء میں پاکستان آکر اتحاد بین المسلین کے لیے کام کا آغاز کیا اور 2008ء میں ملک کو درپیش مسائل خصوصا دہشت گردی کے خاتمے اور مسلکی اختلافات کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہی مجلس وحدت مسلمین کی بیناد رکھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے باقاعدہ طور پر سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور تاحال اس عہدے کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کرنے میں مصروف ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے قومی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اسی سلسلے میں وہ گذشتہ دنوں بلتستان پہنچے اور ایک ہفتے تک بلتستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ اس موقع اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)


اسلام ٹائمز: قومی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد آپ نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے کیا آپکو امید ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی آپکی جماعت جیت جائے گی۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: سیاسی عمل میں شرکت کچھ اہداف اور مقاصد کے تحت ہوتی ہے جب وطن عزیر کے اندر کرپشن اور لوٹ مار حد سے بڑھ جائے اور حکمران اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا بھول جائیں، عوامی مفادات کو اپنی مفادات پر قربان کریں تو ضروری ہے کہ عوام کے سامنے انقلاب یا الیکشن کا آپشن رکھا جائے اور لوگوں کو بیدار کیا جائے اور مظلوموں کی حمایت اور ظالم حکمرانوں کی مخالفت کی جائے، لہٰذا ہم انتخابات میں شرکت کو ظالموں کے خلاف قیام سمجھتے ہیں اور مظلوم عوام کو نام نہاد سیاسی جماعتوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور ایک دوسرے کی باری کا انتظار کرنے والے حکمران عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں۔ تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے، اسپتالوں میں ادویات نہیں، لوگوں کے پاس روزگار نہیں، معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے ان حالات میں مجلس وحدت مسلمین سمجھتی ہے کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوا جائے، انکی حمایت کی جائے اور مظلوموں کو اکھٹا کر کے ظالموں کے مقابلے میں میدان میں لا کر عوام کو صاحب اختیار بنایا جائے۔ حقیقت میں اگر عوام صاحب اختیار بن جائیں، اصل میں عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا نام ہی جمہوریت ہے، تاہم یہاں جمہوریت نہیں اریسٹوکرافی ہے، ایک اشرفیہ ہے جو عوام پر مسلط ہے اور دوسری طرف عوام ہیں۔ اصل میں عوام کی حکومت کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی اگر عوامی حکومت ہوتی تو ان کے حقوق پامال نہیں ہوتے، ان کا استحصال نہیں ہوتا، ان کے حقوق پامال نہیں ہوتے، ان کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جاتا اور انہیں آئینی حقوق دیئے جاتے۔ تاہم عوامی حکومت نہ ہونے کے باعث عوام کے تمام تر حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ان کی بحالی کے لئے ہم نے الیکشن مین حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلکی نقطہ نظر سے ماوراء امیدواروں کا چناو کیسے اور کن بنیادوں پر کریں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہم مسلکی بنیادوں پر الیکشن نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کو بنیاد بنا کر نئی روایات قائم کریں گے اور اہلیت کو مسلک پر
ترجیح دینے کا رواج قائم کریں گے، مظلوموں کا بھرپور خیال رکھا جائے گا کیونکہ مجلس وحدت المسلمین مسلک کے نام پر الیکشن لڑنا درست نہیں سمجھتی۔ یہاں بسنے والے تمام طبقات مظلوم ہیں اس لئے ان مظلوموں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کی خاطر ہم نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ مسلکوں کو تقسیم میں ڈال کر ان کو مزید کمزور نہیں کرنا چاہتا اگر ہم مسلکی لسانی اور علاقائی تقسیم کی طرف چلے گئے تو اس سے بھی ظالموں کا فائدہ ہوگا جنہوں نے غریب عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس لئے ہم مسلک کے نام پر انتخابات میں حصہ لینا درست نہیں سمجھتے اور ہم اس خطے کے تمام مظلوموں کو اکھٹا کریں گے اور یہ نہیں دیکھیں کے کہ ان کا تعلق کس مسلک سے ہے۔ اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر امیدوارں کو ٹکٹ دیئے جائیں گے تاکہ عوام بھی اطمینان کا اظہار کریں کہ واقعی ان نمائندوں کے اندر سسٹم کو چلانے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ عوامی مسائل حل کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: علامہ ساجد نقوی نے قومی انتخابات کی طرح گلگت بلتستان میں بھی پی پی پی سے انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے، آپ کس جماعت کے ساتھ اتحاد کے حق میں ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہماری ابھی تک کسی سے کسی قسم کے انتخابی اتحاد کی بات نہیں ہوئی ہے۔ ہمارا ٹارگٹ عوام ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عوام میں اتحاد ہو، استحصالی طبقے سے اتحاد کسی صورت درست نہیں۔ جنہوں نے ان پانچ برسوں میں نالائق ترین حکمران ہونے کا ثبوت دیا، جنہوں نے تعلیمی اداروں ہسپتالوں سمیت تمام اداروں کو تباہ کیا، عوام کو سہولیات دینے کی بجائے ان سے ان کا جینے کا حق چھین لیا اور مشکلات میں ڈال کر خود حکومت کے مزے اڑاتے رہے ہم کھبی بھی ایسے طبقے کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے جو کرپشن میں شریک رہے ہیں۔ ہم ایسی جماعتوں سے اتحاد کر کے عوام کو مایوس نہیں کریں گے اس لئے ہمارا اتحاد ان لوگوں سے ہوگا جن کا ماضی اور مستقبل دونوں صاف ہوں ہماری پہلی کوشش یہی ہوگی کہ مظلوموں کا اتحاد ہو یعنی کرپٹ ظالم اور فاسد حکمرانوں کے خلاف عوام کا اتحاد ہو۔ یہی ہماری کوشش ہے اور انشاءاللہ ہم الیکشن میں ایسا اتحاد کر کے دکھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: یہاں کے ایک اخبار نے خبر دی کہ آپکی جماعت نے مسلم لیگ نون سے انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے اس میں کہاں تک حقیقت ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہماری ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت سے کسی قسم کے اتحاد کی بات نہیں ہوئی ہے اور ہمارا اتحاد غریب عوام سے ہوگا اور سب کو لیکر چلیں گے، اس لئے میں نے اپنے دورے کے دوران تمام مسالک کے رہنماوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور اسی اتحاد کے ذریعے سے ہی ان حکمرانوں سے چھٹکارہ حاصل کریں گے اور سیاسی لائحہ عمل کا اعلان 18 مئی کے اسکردو میں ہونے والے جلسے میں کریں گے جس میں تمام مسالک کی چیدہ چیدہ شخصیات کو مدعو کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے نواز شریف کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا اس کی کیا وجہ ہے، کیا واقعی نواز شریف ابتک حکومت چلانے میں ناکام ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں! ایک منتخب حکومت کو عوام کی ترجمانی کرنی چاہیئے، وطن کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اصل میں پاکستان کی خارجہ پالیسی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی تک پاکستان کے پاس وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ کے پاس ایک بندہ بھی نہیں ہے جو وزارت خارجہ چلا سکے۔ دوسری
بات یہ کہ دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، یورپ اور امریکہ میں وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ پاور سنٹر ایشاء کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مستقبل ایشیاء کا ہے، اس لئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط کرنا ہوگا۔ جب سے پاکستان امریکن بلاک میں گیا ہے ملک کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت بھی بہت ناقص ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ نواز شریف صاحب ملک کو 80 کی دہائی کی طرف لے جانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہیئے جو پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے اس لئے پاکستان کو چاہیئے کہ بدلتے ہوئے حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی اپنائیں تاکہ ملک ترقی کر سکے۔ مملکت خداداد پاکستان کی خارجہ پالیسی ناعاقبت اندیش، شدت پسند اور مخصوص ذہنیت کی حامل قوتوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کابل، تہران، دہلی، بیجنگ سمیت خطے کے پڑوسی ممالک پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان پر پڑوسی ممالک کا عدم اعتماد سعودی ریالوں اور امریکی ڈالروں ک تحت ہونے والی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک اففانستان سمیت ایران، چین، بھارت اور دیگر ممالک پاکستان کی سعودی اور امریکی ایما پر بننے والی ناعاقبنت اندیش خارجہ پالیسی سے نالاں ہیں۔ امریکی جارحانہ پالیسی اور سعودی بادشاہت کے دفاع کی خاطر پاکستان کے نااہل حکمرانوں نے وطن میں بسنے والی حب وطن نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے اور پاکستان کی شناخت کو دنیا بھر میں رسوا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر بطور تحفہ دیا گیا ہے مجلس وحدت مسلمین کا اس حوالے سے کیا موقف ہے کہ کیا پاکستان کو یہ رقم قبول کرلینا چاہیئے تھی اور اگر لی ہے تو کس مد میں لی ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: یہ مشکوک قسم کی امداد ہے اور پاکستان کے عوام بھی اسے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اصل میں ابھی تک کسی حکمران نے سچ نہیں بولا کہ یہ امداد کس مد میں لی گئی ہے اور کہاں خرچ کی جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور شریف برادران کی حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ شریف برادران سعودی حکومت سے ڈیڑھ ارب ڈالر لے کر ملک میں گھناونا کھیل نہ کھیلیں کیونکہ اس سے پاکستان کی جڑیں مزید کمزور ہوں گی۔ شریف برادران جان لیں کہ پاکستان کی محب وطن قوتیں متحد ہو چکی ہیں اور اب وہ حکمرانوں کو اپنے اقتدار بچانے اور تجوریاں بھرنے کے لئے وطن اور قوم کا سودا نہیں کرنے دیں گی۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے قیام امن کی خاطر طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اور مجلس امن کے ہر فیصلے کی حمایت کرتی آ رہی ہے تو طالبان سے مذاکرات کی بھی حمایت کر سکتی ہے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: جناب! ایک تو طالبان کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرنا ہی حکومت کی اولین غلطی ہے کیونکہ طالبان بےگناہ انسانوں کا قتل عام کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر طالبان مذاکرات کو واقعی کامیاب بنانے میں سنجیدہ ہیں تو مذاکرات سے قبل ہی طالبان کو اسلحہ پھینکنا چاہیئے تھا تاہم ایسا ممکن نہیں۔ اگر طالبان واقعی اسلحہ پھینک کر امن کی بات کرتے ہیں تو ان مذاکرات کی حمایت کی جا سکتی ہے، مگر نواز شریف کی حکومت کو سہارا دینے کے لئے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے اس لئے ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کی اصل وجہ کیا ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کو محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی سوچ
پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بجائے ہمارے ملک کے موجودہ حکمرانوں نے ایک ناکام ریاست بنا دیا ہے۔ امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کے عوض پاکستان کو مشرق وسطی کی جنگ میں منفی کردار ادا کرنے کے لئے پیش پیش ہے، جس کی وجہ سے ملت پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے مشکلات اور مصائب کا شکار ہے۔ حکومت کو افغانستان کے عوام اور حکومت سے سبق حاصل کرنا چاہیئے کہ جنہوں نے طالبان دہشت گردوں کی دھمکیوں اور لالچ کے باوجود صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور بڑے پیمانے پر عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر کے طالبان دہشت گرد قوتوں اور سعودی ایجنڈے کو افغانستان میں ناکام بنا دیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر پاکستان میں طالبان دہشت گرد معصوم انسانوں کو ذبح کر رہے ہیں اور سعودی ایما پر چلنے والی شریف برادران کی حکومت طالبان دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ پاکستان کے غیور عوام حکمرانوں کی ناکام اور غلط خارجہ پالیسیوں کی گذشتہ تین دہائیوں سے نشاندہی کر رہے ہیں۔ طالبان پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل ہیں جبکہ پاکستان کی شیعہ اور سنی عوام مل جل کر باہم ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر وحدت کا نعرہ بلند کر رہی ہے۔ عین اسی وقت شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہونے پر بھی ملک دشمن اور اسلام دشمن دہشت گرد قوتوں کو تکلیف محسوس ہو رہی ہے اور طالبان کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرانے کے لئے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہیں، لیکن اس کا کچھ حاصل نہیں اس لئے ہم اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ایک ٹائم گیم ہے اور آپریشن ہو گا آپ کا کیا خیال ہے کہ واقعی آپریشن ہوگا ؟
علامہ ناصر عباس جعفری: اگر یہ ٹائم گیم ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوگا طالبان دہشت گرد ہیں کیونکہ وہ خود اعتراف کرتے رہے ہیں کہ لوگوں کو ہم نے مارا ہے بم دھماکے ہم نے کرائے ہیں اور ان کے مذاکرات کرنا آئین سے غداری نہیں ہے اس لئے ان مذاکرات کی کوئی آئینی حثیت ہے اور نہ دینی و شرعی۔ طالبان کے ساتھ شریعت کے تحت ہی سلوک ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے ہمیشہ کرپشن کی مخالفت کی ہے اور الیکشن میں اتریں گے تو کرپشن کے کس لیبل کے لئے اقدامات کریں گے اور قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ کس طرح پیش آئنگے۔؟

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: ہم محاسبہ کریں گے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو کھبی معاف نہیں کریں گے ان کا ہر صورت میں احتساب ہوگا اور کوشش کریں گے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس کی جائے اور اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے کہ حکمرانوں نے دولت کس طرح حاصل کی۔ جب یہ وزیر و مشیر اور وزیراعلٰی بنے تھے تو ان کی مالی حثیت کیا تھی اور پانچ سال بعد ان کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے یہ دولت کہاں سے حاصل کی۔ لاقانونیت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اگر ووٹ دیا تو قومی دولت لوٹنے والوں کا باقاعدہ احتساب کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب یہ بتائیں کہ گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دلوانے کے لئے مجلس وحدت مسلمین کہاں تک جا سکتی ہے، کیا آئینی ترمیم کے ذریعے سے گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں مجلس وحدت مسلمین پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور ہم گلگت بلتستان کے عوام کی آواز کو یہاں کے پہاڑوں میں
بند نہیں ہونے دیں گے۔ مجلس گلگت بلتستان کی عوام کے حقوق کے لیے خلوص کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ صدر زداری صاحب سے اس وقت مطالبہ کیا کہ کم از کم فاٹا کی طرز پر ان علاقوں کو بھی نمائندگی دی جائے اور آئینی اور قانونی ماہرین کو بلا کر ان علاقوں کو آئینی سیٹ اپ دینے کے لئے اقدامات کریں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کا بٹوارا چاہتے ہیں ان پر انعامات کی بارش کی جا رہی ہے، ان کا ناز اٹھا رہے ہیں تاہم گلگت بلتستان کے عوام خود کو مکمل پاکستانی بنانے کی استدعا کر رہے ہیں تاہم ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ محسن پاکستان ہیں اس لئے یہاں کے لوگوں کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہیئے تھا۔ اسلام اور پاکستان سے محبت کی بناء پر بغیر کسی شرط کے پاکستان سے الحاق ان علاقوں کے لوگوں کا جرم بن گیا اور اسے 65 برس گرز جانے کے باوجود سرزمین بے آئین رکھا گیا ہے، تاہم الیکشن میں کامیابی کی صورت میں ہمارا پہلا کام یہی ہوگا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کے لئے جدوجہد کی جائے گی جب فاٹا کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی مل سکتی ہے تو گلگت بلتستان کو کیوں نہیں۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے اور آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا شیعہ علماء کونسل سے ایم ڈبلیو ایم کا انتخابی اتحاد ممکن ہے۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: ہمارا مقصد الیکشن جیتنا نہیں ہے بلکہ قوم کو متحد کرنا ہمارا مقصد ہے کیونکہ الیکشن ایک میراتھن ریس ہے اس میں دوڑ لگاتے رہنا ہے تاکہ کھبی نہ کھبی کامیاب ہو سکیں۔ ہمارا اتحاد سب سے پہلے غریب عوام سے ہوگا غریب اور پڑھے لکھے افراد کو آگے لایا جائے گا اچھے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوںگے اگر پارٹی کے باہر بھی کوئی اچھے دیانتدار امیدوار مل جاتے ہیں تو انہیں ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: 15 اپریل کے دھرنوں کے باوجود اگر مطالبات منظور نہیں ہوتے تو اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہاں کی عوامی ایکشن کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس کا ساتھ دیں گے کیونکہ فیصلہ ایکشن کمیٹی نے کرنا ہے اور ہم اس کے ممبر ہیں اور ہم ان کے فیصلے پر عمل کریں گے۔ گلگت بلتستان کے باشعور عوام جس میں تمام مکاتب فکر شامل ہیں نے متحد ہو کر آواز بلند کی ہے اور ہم اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ 15 اپریل کو گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر عمل درآمد نہ ہوا تو مجلس وحدت مسلمین عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہروں کو گلگت بلتستان تک محدود نہیں رہنے دے گی بلکہ پورے پاکستان میں گلگت بلتستان کے عوام کے حق میں مظاہرے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: عوامی ایکشن کمیٹی "جیل بھرو" تحریک کا اعلان کرتی ہیں تو مجلس کا کیا رد عمل ہوگا۔؟
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری: ایکشن کمیٹی کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے ہم ان کے فیصلے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔  گلگت بلتستان کی عوام کو گندم پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کو ہم غریب کش اقدام سمجھتے ہیں۔ آئینی حقوق سے محروم یہ خطہ محب وطن اور پاکستان دوست خطہ ہے۔ یہاں کے جفاکش عوام کے دلوں میں پاکستان سے محبت اور ملک دشمنوں کیخلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے، استحصالی حکمرانوں نے اس خطہ میں کرپشن، اقرباء پروری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ موجودہ حکمرانوں نے گندم پر دی جانے والی رعایت کو چھین کر اس محروم طبقے پر ایک اور ظلم کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 371748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش