0
Tuesday 29 Sep 2009 13:38

پاک امریکہ تعلقات

پاک امریکہ تعلقات
نذیر ناجی
جب کہنہ مشق اور قدیم سامراجی طاقتوں نے حالات کی تبدیلی کو جانچ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ بیرونی ملکوں کو روایتی شکنجوں میں کس کر نو آبادیوں اور ریاستوں کو اطاعت گزار بنا کر گرفت میں رکھنا مشکل ہے،تو انہوں نے یکے بعد دیگرے نو آبادیوں کو خودمختاری دے کر وہاں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کو تحفظ دینے کا انتظام کر لیا۔ اس تجربے میں سب سے زیادہ برطانیہ کامیاب رہا اور کسی حد تک فرانس بھی اچھا رہا کہ وہ الجزائر میں ناکامی کے بعد افریقہ میں اپنے مفادات بڑی حد تک باقی رکھنے میں کامیاب ہے۔ جب گھاگ سامراجی اپنا راستہ چھوڑنے لگے،تو امریکہ جو کہ خود بیرونی غلبے سے آزاد ہونے کے بعد نو آبادیاتی پالیسیوں کے حق میں نہیں تھا،تھوڑے ہی عرصے بعد اسی راستے پر چل نکلا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی میں اسے فوجیں رکھنے کا حق مل گیا تھا۔ کوریا میں وہ خود آ دھمکا اور 21ویں صدی میں اس نے ایک باقاعدہ سامراجی طاقت کی حیثیت سے قدم رکھ دیا۔ اس کا پہلا لقمہ افغانستان اور دوسرا عراق بنے۔ دنیا میں سائنس، ایجادات،علم،مہارتوں اور فوجی اور معاشی طاقت میں سب سے آگے ہونے کے باوجود امریکہ تاریخ کا رخ اور مزاج سمجھنے میں ناکام رہا اور آج وہ ایسے مسائل کا شکار ہے،جو اس کے خود پیدا کردہ ہیں۔ امریکہ اپنے سرمائے،ٹیکنالوجی اور علم و ہنر پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے آسانی سے گلف کا تیل اپنے تصرف میں رکھ سکتا تھا۔ لیکن اس نے اسرائیل کا خنجر گھونپ کر عرب دنیا کو اپنا دشمن بنا لیا۔ وہ عرب جو سیاسی اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے امریکی کیمپ کا حصہ ہیں،دل سے وہ بھی امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق کی قوم پرست حکومت ہرگز امریکہ سے بغاوت کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ وہ صرف اپنے تیل کی بہتر قیمت وصول کرنا چاہتی تھی۔ جس سے امریکہ کو انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے اونے پونے داموں تیل خریدنے اور سردجنگ میں ایران کو اڈہ بنانے کے چکر میں ایک مقبول منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک آمر مسلط کر دیا۔ آج پوری ایرانی قوم امریکیوں کو ظالم سمجھتی ہے۔دنیا میں جہاں جہاں امریکی فوجی موجود ہیں،وہاں وہاں کے عوام امریکیوں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات رکھتے ہیں۔ کسی جاپانی کے دل میں جھانک کر دیکھئے،وہ اپنے وطن میں امریکی فوجیوں کی موجودگی پر دلگرفتہ نظر آئے گا۔ البتہ حکومتی سطح پر وہ مجبوراً خاموش ہے۔ ایک سیاحتی بس میں بیٹھ کر میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کی سیر کر رہا تھا۔ جب خاردار تاروں کے گھرے ایک بہت بڑے علاقے کے سامنے سے بس گزری،تو اس کے اندر بیٹھے کئی مسافروں کے ہونٹ ہلنے لگے اور بڑبڑاہٹیں سنائی دیں۔ میں نے بس سے اترتے وقت گائیڈ سے پوچھا کہ ”یہ کون لوگ تھے جو خار دار تاروں کے قریب سے بڑبڑانے لگے تھے؟“ تو اس نے غصے بھرے لہجے سے کہا کہ ”وہاں امریکیوں کی چھاؤنی ہے اور یہ سارے جرمن مسافر تھے،جو ”باسٹرڈز“ کو گالیاں دے رہے تھے۔“ جنوبی کوریا میں جب کوئی مقامی باشندہ آپ پر اعتماد کرتا ہے،تو سب سے پہلی گالی امریکیوں کو دیتا ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضہ آسانی سے ہو گیا تھا اور پہلے دو سال طالبان کے حق میں کوئی مزاحمتی تحریک نہیں چلی تھی۔ مزاحمتی تحریک کو جنم دینے والے خود امریکی فوجی ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں وہ خرمستیاں،بدتمیزیاں اور جرائم کئے کہ غیرت مند افغان عوام مزاحمت پر مجبور ہو گئے۔ طالبان قیادت نے اس کا فائدہ اٹھایا اور اب مزاحمتی تحریک امریکیوں کے لئے پریشانیاں پیدا کرنے لگی ہے۔ یہی کچھ عراق میں ہوا۔ وہاں کے عوام صدام سے خوش نہیں تھے اور پہلی خلیجی جنگ میں وہ اس پر مایوس ہوئے تھے کہ امریکہ نے صدام حسین کی حکومت ختم نہیں کی تھی اور جب دوسری جنگ میں صدام حکومت ختم کی گئی،تو عراقی عوام پر جوش نعرے لگاتے سڑکوں پر آ گئے تھے اور انہوں نے بغداد میں صدام کا مجسمہ خود گرایا۔ انہیں امید تھی کہ امریکہ ایک آمر کا تسلط ختم کرنے کے بعد انہیں اپنے امور خود چلانے کا موقع دے گا۔ مگر امریکی افواج نے اپنا قبضہ قائم کر کے جو طرز عمل اختیار کیا،اس کے نتیجے میں عراق کے اندر بغاوت کا ابھرنا لازمی امر تھا۔ مجھے عراق پر امریکہ کے فوجی قبضے کے فوراً ہی بعد وہ شرمناک تصاویر بذریعہ ای میل موصول ہونے لگی تھیں،جن میں امریکی فوجیوں کی کرتوتیں دکھائی گئی تھیں۔ کسی تصویر میں وہ گھر کے اندر گھسے ہوئے عورتوں کو دبوچ رہے ہیں۔ کسی میں اغوا شدہ خواتین کو اپنے خیموں میں ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اور کئی تصویروں میں وہ برقع پوش خواتین کے ساتھ ایسی حرکات کر رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ میں نے ان تصاویر کے پرنٹ نکال کر دوستوں کو دکھائے اور ان سے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب عراقی قوم پلٹ کر امریکی حملہ آوروں پر جھپٹے گی اور پھر عرب دنیا کے مہذب اور شائستہ ترین حصے،یعنی عراقیوں نے امریکیوں کو دکھا دیا کہ اب انہیں وہاں قبول کرنے والا کوئی نہیں۔ صحافی منتظر زیدی نے صدر بش کی جوتے سے تواضع کر کے عراقیوں کی نفرت کا نمونہ ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیا اور پھر بش کو جوتے پڑتے دیکھ کر دنیا بھر میں جو رد عمل سامنے آیا،اس سے امریکیوں کو معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ ان کے خلاف کتنی شدید نفرت پائی جاتی ہے؟
پاکستان اور امریکہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہمارا ملک آزاد ہوا تو بھارتی حکمرانوں کے جارحانہ عزائم سے ہمارے ناتجربہ کار حکمران اتنے خوفزدہ ہوئے کہ مدد کے لئے امریکہ کے در پر پہنچ گئے۔ نو آبادیاتی آقاؤں کی غلامی کے خوگر یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ جس قوم نے ایک گولی چلائے بغیر متعصب ہندو اکثریت اور انگریزی سامراج کو شکست دے کر آزاد سرزمین حاصل کی ہے۔ اس کی آزادی کو کوئی نہیں چھین سکتا۔ مگر انہوں نے اپنے عوام پر بھروسہ کرنے کی بجائے امریکیوں سے مدد مانگی اور انہیں پاکستان کا قبضہ فوج کشی کے بغیر دے دیا۔ پھر اسلحہ اور تربیت کے ذریعے اس نے ہماری فوجی قیادت کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا اور اس کے بعد اپنے پسندیدہ جرنیلوں کو اقتدار پر قابض کر کے اپنے مفادات آگے بڑھاتا رہا۔ اس کا سب سے بڑا مفاد بھارت کو اپنے کیمپ میں لانا تھا۔ جمہوری بھارت کی قیادت آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کر رہی تھی اور امریکہ پاکستانی حکمرانوں کو بطور آلہ کار استعمال کر کے،بھارت کو اپنے کیمپ میں لانا چاہتا تھا۔ اب وہ اس میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا کو بھارت کے زیر قیادت لا کر نئی صف بندیوں میں فیصلہ کن برتری حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے تحت وہ پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتے کرتے اس حد تک آ گیا ہے کہ ہمارے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کے منصوبے تیار ہونے لگے ہیں۔ یہ کام وہ ہمارے حکمران طبقوں کی مدد سے کرنا چاہتا ہے۔ جب تک امریکہ اپنی ضرورت کے تحت پاکستان پر بھارت کی زیادتیوں کے خلاف رسمی ہمدردی یا حمایت کا تاثر دیتا رہا،پاکستانی اسے اپنا دوست سمجھتے رہے۔ مگر اب بلی تھیلے سے باہر نکل آئی ہے۔ پاکستانی امریکیوں کو اپنے خلاف بھارت کا ساتھی سمجھنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں اور اگر امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہمیں بھارتی شرائط کے تحت اس خطے میں نئے امریکی انتظام کا حصہ بننے پر مجبور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا،تو پھر اپنی مختصر سی سامراجی تاریخ میں اس کا سامنا پہلی مرتبہ ایک ایسی قوم کے غیظ و غضب سے ہو گا،جو نہ صرف ایٹمی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس کے استعمال کے غیر روایتی طریقے بھی ایجاد کر چکی ہے۔
 اس خطے میں پاک بھارت تعلقات کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو چین نے بہتر انداز میں سمجھا ہے۔ جب تک بھارت اور چین میں کشیدگی رہی،چین کا جھکاؤ پاکستان کی طرف تھا اور آزمائش کے موقع پر چین کے کھل کر پاکستان کی حمایت کی۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام،چین کے گرویدہ ہو گئے اور آج تک چلے آ رہے ہیں حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرتا چلا گیا اور آج وہ بھارت کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان سے اپنے تعلقات بھی روایتی گرمجوشی سے نبھا رہا ہے۔ پاکستانی عوام کو چین بھارت تعلقات پر کوئی گلہ نہیں۔ کیونکہ چین ناانصافی پر مبنی کسی بھی ملک کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتا۔ اگر امریکہ اس مثال سے کچھ سمجھ سکتا ہے،تو وہ یہ ہے کہ امریکی قیادت پاک بھارت تعلقات کی پیچیدگیوں کا ادراک کرتے ہوئے،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بیچ میں نہ لائے۔ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی عوام بھی اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں،جیسے کہ عالمی برادری میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن جو لوگ کشمیری عوام کی مسلح جدوجہد کے ہمدرد،حامی یا اس میں شریک ہیں،ہمارے عوام انہیں مجاہدین آزادی سمجھتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے مفادات پر براہ راست ضرب لگاتا اور ہماری سالمیت کے خلاف سازشیں کرتا ہے اور جب امریکہ اسے اپنا سٹریٹجک پارٹنر بناتا ہے،تو پاکستانی عوام لازمی طور پر امریکہ کو اپنا دشمن سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اگر امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ہے،تو اسے دو تنازعات پر اپنے موقف میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔ اول فلسطین اور دوم کشمیر کا تنازعہ۔ اسرائیل اور بھارت دونوں ہی نامعقولیت کی حد تک فلسطین اور کشمیر کے عوام پر مظالم توڑ رہے ہیں۔ دونوں کو غیر انسانی اور بے آبروئی کی زندگی پر بذریعہ طاقت مجبور کیا جا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے جبر،ظلم اور غیر انسانی طرز عمل پر پوری دنیا کے عوام پھٹکار بھیجتے ہیں۔ مگر وہ ان کی مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لیکن عرب دنیا میں بہت سے گروہ فلسطینیوں کے دکھ درد پر خاموش نہیں اور اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے بیزار ہو کر وہ دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ جب تک جبر کے کھیل میں امریکہ اسرائیل کی سرپرستی کرتا رہے گا،دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔ جب تک ایک بھی عرب زندہ ہے،وہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے میں لگا رہے گا۔ اسرائیل کی حمایت ایک نہ ایک دن امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہی نقشہ برصغیر میں ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ امریکہ عراق میں چوٹ کھانے اور افغانستان میں ناکامی کا داغ لگنے کے خطرے کو دیکھ کر، بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ اس بوکھلاہٹ میں وہ دہشت گردی کے بھارتی تصور کو اپنی مہم کا حصہ بنا کر پاکستان میں اپنے حامیوں کے لئے مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔
سوات آپریشن سے ایک بات واضح ہو گئی کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں،اسے ختم کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاک فوج بھی ایسے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن انداز میں کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،جن کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن بھارت جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے،وہ مظلوم کشمیری عوام کے حامی ہیں۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے ساتھ خون،تہذیب اور تاریخ کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کا پانی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے اور یہ پانی جس پر ایک معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کا حق تسلیم کر چکا ہے،اسے غصب کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد کر رہا ہے۔ اس سال پاکستان کو ملنے والے اپنے حصے کے پانی میں 30 سے 40 فیصد تک کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 6 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ گویا بھارت صرف کشمیریوں پر ہی ظلم نہیں کر رہا،وہ پاکستانی عوام کی رگ زندگی کاٹنے پر بھی تلا ہوا ہے۔ ابھی تو پاکستان کے عوام مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں دہشت گردی کے نام پر باہمی تعاون کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور ہم پر یہ دباؤ جاری رہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کشمیر کے مجاہدین آزادی کو بھی نشانے پر رکھ لیں،تو یہ عمل اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہو گا۔ گویا ہم مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ مستحکم کرنے میں اس کے مددگار بن جائیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھارت کو اپنے حصے کے پانی پر قبضہ جمانے میں بھی مدد دے رہے ہیں۔ پاکستان ایسا کبھی نہیں کر پائے گا۔ ذیادہ امریکی دباؤ کا نتیجہ وہی نکلے گا،جو افغانستان اور عراق میں امریکی مظالم اور ستم گری کے نتیجے میں سامنے آ رہا ہے۔ عراق باقاعدہ فوج سے محروم تھا اور افغانستان خانہ جنگی سے تباہ شدہ ایک ملک۔ مگر پاکستان ایک مضبوط ریاستی نظام اور انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور فضائیہ رکھتا ہے اور اب ہم اپنے سمندروں میں بھی اپنی دفاعی طاقت پر توجہ دینے لگے ہیں۔ بے شک اس وقت امریکہ کے اتحادی بن کر ہم کئی عالمی طاقتوں کے اعتماد سے محروم ہیں۔ لیکن جب پاکستان کو مجبور ہو کر امریکہ کے سامنے کھڑے ہونا پڑ گیا،تو ہمیں ایسی ہمدردیاں حاصل ہونے لگیں گی جو فی الحال کسی کے تصور میں بھی نہیں۔ پاکستان کی طرف سے امریکیوں کے خلاف مزاحمت کا دائرہ ہماری سرزمین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ بہت دور تک پھیل سکتا ہے۔ یہ مزاحمت شرق اوسط میں بھی ہو گی۔ افغانستان میں بھی ہو گی۔ وسطی ایشیا میں بھی ہو گی اور پھر بھارت بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ امریکہ کے پاس انتہائی طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ فوجی طاقت ضرور ہے۔ لیکن اتنی دور تک پھیلے ہوئے میدان جنگ میں غیر روایتی قوتوں کی مزاحمت پر قابو پانے کے لئے امریکی وسائل کافی نہیں رہیں گے۔ امریکہ کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو پوری طرح سمجھے اور دہشت گردی کے بارے میں بھارت کے تصورات کو اپنی پالیسی میں شامل کرنے سے گریز کرے۔ اگر اس نے دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی میں بھارتی تصورات کو شامل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا،تو پھر پاکستان امریکہ کا اتحادی بنے رہنے کی پالیسی پر عمل نہیں کر سکے گا۔ چاہے گا بھی تو ایسا کرنا پاکستان کے اختیار میں نہیں۔ بے شک اس میں ہمارے لئے بھی بہت خرابی ہے۔ لیکن جب وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے،تو پھر اس خطرے کا سامنا کرنے کی خاطر قومیں ہر تباہی کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایسے ہی فیصلہ کن لمحات سے گزر رہی ہے۔ عوام اپنا فیصلے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کا خاتمہ ضرور چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے بنیادی حقوق اور آزادی کی خاطر لڑنے والے حریت پسندوں کو،دہشت گرد ماننے پر تیار نہیں۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ بھارت کشمیر کے تنازعے پر مذاکرات کر کے اسے تینوں فریقوں کی رضامندی کے مطابق اسے حل کرے تاکہ کشمیری حریت پسندوں کو امن،ترقی اور خوشحالی کے راستے دستیاب ہو جائیں۔ جب انہیں دہشت گردی کا راستہ چھوڑنے کا موقع مل جائے گا،تو پھر پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل یکسوئی سے لڑی جا سکے گی اور امریکہ اور پاکستانی عوام کے مابین اعتماد کا نیا رشتہ قائم ہو سکے گا۔



خبر کا کوڈ : 12340
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش