4
0
Tuesday 28 May 2013 23:48

مولانا مودودی (رہ) اور شیعہ

مولانا مودودی (رہ) اور شیعہ
تحریر: سید نثار علی ترمذی

اثنا عشری شیعہ امامیہ پاکستان میں موجود ایک ایسا مسلک ہے جسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا مودودی اس کی اہمیت سے آگاہ تھے اور ہر موقع پر انہوں نے کوشش کی کہ اس مکتب کو کماحقہ اس کا مقام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا احترام شیعہ سنی دونوں کے ہاں پایا جاتا ہے اور ان کی کتب سے سب بلا تفریق استفادہ کرتے ہیں۔ ان کی متعدد کتب کا ایران میں فارسی ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض ایسی کتب ہیں جن کا انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے پہلے فارسی ترجمہ شائع ہو چکا تھا اور انقلابی نسل کے بہت سے علماء اور دانشوروں نے ان کا مطالعہ کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا ابوالاعلٰی مودودی اہلسنت تھے لیکن اپنی وسیع الظرفی اور آفاقی دینی تعلیمات پر اصرار کی وجہ سے دنیا بھر کے مختلف مسالک کے مسلمانوں میں آج بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ 

پاکستان میں شیعہ مسلک:
مولانا مودودی ایک سوال کے جواب میں پاکستان میں موجود مسالک کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "پاکستان میں اس وقت تین ہی فقہی مذاہب ہیں۔ ایک حنفی، دوسرے اہل حدیث، تیسرے شیعہ امامیہ"۔ (۱) 

صدر کے لیے صرف مسلمان کی شرط: 
1970ء کے انتخاب کے موقع پر جماعت اسلامی نے اپنا انتخابی منشور پیش کیا۔ اس کی بعض شقوں پر اہل تشیع کی اس وقت کی قیادت کو اعتراضات تھے جس پر مولانا اظہر حسن زیدی مرحوم صدر ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کی جانب سے ایک اخباری بیان شائع ہوا۔ پھر سید مظفر علی شمسی جو اس ادارے کے سیکرٹری جنرل تھے، نے پریس کانفرنس بھی کی۔ اس پر مولانا مودودی نے سید مظفر علی شمسی کو خط لکھا جس میں کیے گئے اعتراضات کے بارے میں وضاحت کی گئی تھی۔
اس خط میں ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:
صدر مملکت کے بارے میں یہ بات میں نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہی تھی کہ ہمارے نزدیک اس کا صرف مسلمان ہونا کافی ہے خواہ وہ مسلمہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس سے قادیانی تو بےشک خارج ہو جاتے ہیں مگر جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں نہ صرف یہ کہ ان کا ایک اسلامی فرقہ ہونا مسلم ہے، بلکہ مسلمانوں میں اب تک یہ سوال کبھی پیدا ہی نہیں ہوا کہ صدرمملکت کا تعلق کس فرقے سے ہے۔ قائداعظم کو سب نے اپنا قائد مانا اور کسی نے یہ سوچا تک نہیں کہ وہ سنی ہیں یا شیعہ۔ سکندر مرزا ایک مدت تک صدر مملکت رہے۔ ان کے سیاسی کاموں پر ہر طرح سے اعتراضات کیے گئے، کبھی کسی شخص نے اس بنا پر اعتراض نہیں کیا کہ موجودہ صدر [یحییٰ خان] بھی شیعہ ہیں۔ کیا ان کے مذہبی مسلک کی بنا پر کسی نے ان کی صدارت پر اعتراض کیا؟ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ شیعہ بھائیوں نے پاکستان کے قیام میں برابر کا حصہ لیا ہے اور ان کے حقوق یہاں کسی سے کم نہیں"۔(۲) 

مولانا مودودی نے بہتر جانا کہ اگر کسی مسلک کو تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جائے اس لیے کہ ذرا ذرا سی غلط فہمیاں بعد میں بہت بڑے اختلافات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اگر اس روش کو آج بھی اپنا لیا جائے تو یقین ہے کہ صورت حال خاصی بہتر ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر اختلافات غلط فہمیوں کی وجہ سے ہیں جو عدم رابطہ کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہیں۔ قائدین کے برعکس عوام کیونکہ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں اس لیے ان میں غلط فہمیوں کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ مولانا مودودی کا شیعہ امامیہ کو ایک اسلامی مکتب فکر تسلیم کرنا اس حقیقت کا اظہار ہے جو ایک وسیع القلب عالم دین کا وطیرہ ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ان کی روٹی روزی کا مسئلہ ہے یا وہ ملت اسلامیہ کو متحد ہوتا نہیں دیکھ سکتے، تو وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں جن کو قرآن مجید منافقین کے نام سے پکارتا ہے یا وہ بےوقوف ہیں جو اسلام کے نفع و نقصان کا خیال نہیں کر رہے۔ امت اسلامیہ کے جسد سے ایک اتنے بڑے مسلک کو کاٹ دینا جو صدر اسلام سے چلا آ رہا ہے کہاں کی دانشمندی ہے، جب کہ استعماری طاقتیں جو اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہیں وہ مسلمانوں میں کسی طرح کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتیں بلکہ اکثر ممالک میں شیعہ ہی ان استعماری طاقتوں اور ان کے گماشتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، جس کی واضح مثال ایران اور لبنان کی ہے جبکہ دیگر ممالک میں بھی اہل تشیع کسی سے پیچھے نہیں۔ مولانا مودودی نے قائداعظم محمد علی جناح جو کہ بانی پاکستان ہیں کی مثال دے کر واضح کیا کہ وہ شیعہ اثنا عشری تھے اور ان کا ایک خاص مسلک سے ہونا کہیں بھی اختلاف کا باعث نہیں بنے بلکہ ان کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان متحد ہوئے تو پاکستان حاصل کر لیا۔ 

قربانی کے حصے اور شیعہ کی شرکت:
مولانا مودودی میں یہ خوبی تھی کہ ماسلف کے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔ ان کے خطوط نے بہت سے مسائل آشکار کیے ہیں۔ اسی طرح کے ایک خط میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا شیعہ، قربانی میں حصہ دار ہو سکتے ہیں، جواب میں انہوں نے حسب ذیل موقف اپنایا: "ایک شیعہ اگر حنفی حصہ داروں کے ساتھ قربانی میں شرکت کرنا چاہے تو اس میں کوئی شرعی حکم مانع نہیں ہے"۔ (۳) 
ایک تو سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوچھنے والا عمومی پراپیگنڈے کا شکار تھا کہ پتا نہیں شیعوں کے قربانی میں حصہ دار ہونے سے قربانی ہو گی یا نہیں مگر مولانا نے بالصراحت کہہ دیا کہ قربانی ہو جائے گی۔ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ایک مسلمان کا ذبیحہ، اس سے ازدواج، قربانی میں شرکت اور نماز جنازہ میں شمولیت قابل قبول ہوتی ہے۔ یہی ایک معیار ہے۔ آج بھی بالعموم اسی روش پر عمل ہوتا ہے۔ بازار میں آپ کسی دکان سے گوشت خرید سکتے ہیں بغیر کسی حیل و حجت کے۔ بعض خاندان تو اس طرح مشترک ہیں کہ آدھے اگر اہل سنت ہیں تو باقی شیعہ۔ ان میں رشتہ ازدواج قائم ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ وارانہ سوچ کو عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ 

اسلامی یونیورسٹی کا خاکہ اور تمام اسلامی مسالک:

مولانا مودودی نے ترجمان القرآن نومبر 1961ء میں ایک اسلامی یونیورسٹی کا خاکہ پیش کیا جو ان کے مسائل پر گہری نظر اور حل کی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ (یہ منصوبہ مولانا نے مدینہ یونیورسٹی کے لیے حکومت سعودیہ کو پیش کیا تھا۔) مجوزہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلاب کم ازکم فرقہ وارانہ نفرت لے کر معاشرہ میں نہیں جائیں گے۔ کاش مولانا کا خواب اس پاک سرزمین پر بھی شرمندہ تعبیر ہو جاتے ۔آمین۔ یہاں یونیورسٹی کا پورا پلان پیش کرنا مقصود نہیں بلکہ چند اہم نکات موضوع کی مناسبت سے زیر بحث لانا ہیں۔ 

یونیورسٹی کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے کھلا ہونا چاہیئے تاکہ ہر جگہ کے طالب علم آزادی کے ساتھ اس میں آ کر داخل ہو سکیں۔ یونیورسٹی کے طلاب میں جو اوصاف پیدا ہونے چاہئیں ان میں سے ایک تنگ نظری اور فرقہ بندی سے پاک ہونا ہے۔ یونیورسٹی کی فقہ فکلٹی میں’’فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب اور ان کے اصول، قرآن و سنت کے براہ راست استنباط، مسائل کی مشق اور اہل سنت کے چاروں مذاہب کی فقہ اور اس کے ساتھ فقہ ظاہری، فقہ زیدی اور فقہ جعفری بھی شامل ہونے چاہیئیں۔ یعنی یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہو گی جس میں تمام فقہیں بشمول فقہ جعفری پڑھائی جائیں گی۔ اس طرح کی یونیورسٹی جامع الازہر، مصر میں بھی موجود ہے جو فاطمی دور حکومت میں قائم ہوئی تھی۔ ایسی یونیورسٹی کہ جس میں تمام فقہیں پڑھائی جاتی ہوں تب اسی طرح کے فتوے جاری ہوتے ہیں، جیسا کہ شیخ محمود شلتوت نے دیا تھا۔ جس کی عبارت یہ ہے: "اسلام اپنے پیروکاروں کو کسی ایک معین و خاص مذہب کی پیروی کا حکم نہیں دیتا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس فقہی مذہب کی چاہے پیروی کرے۔۔۔وہ مذہب جو صحیح طور پر منقول ہوئے ہیں۔ ان کے نظریات و فتاویٰ مدون ہیں۔ ان کی اپنی کتابیں ہیں اور اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ ایک مذہب سے رجوع کرکے دوسرے فقہی مذہب سے مسئلہ لے لے، اس پر عمل کرے۔ 

ایک ایسا مذہب ہے مذہب جعفری جو شیعہ اثنا عشری کے نام سے معروف ہے۔ جس کے مطابق چلنا شرعی لحاظ سے اسی طرح صحیح ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے وہ اس کی معرفت حاصل کریں ناحق چند مخصوص مذاہب کے ساتھ تعصب نہ برتیں۔ اللہ کا دین، اللہ کا قانون، شریعت الٰہی کسی ایک مذہب کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک مذہب میں محصور و منحصر ہے۔ پس سب مجتہد ہیں۔ اللہ کے ہاں ان کی سعی و کوشش مقبول ہے۔ وہ شخص جو صاحب رائے اور صاحب فتویٰ نہیں ہے وہ ان کی تقلید کر سکتا ہے، اس کے مطابق عمل بجا لا سکتا ہے جیسے انہوں نے اپنی فقہ میں لکھا ہے اس میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ 

حنفیوں کا فیصلہ اور دیگر فقہیں:

جب یہ سوال کیا گیا کہ حنفیوں کے مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے تو مولانا مودودی نے جواب دیا: اس سوال کے دو پہلو ہیں ایک اصولی، ایک عملی۔ اصولی حیثیت سے اگر قاضی کسی مسئلہ کی تحقیق کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس خاص مسئلے میں حنفی مذہب کی نسبت شافعی، مالکی یا حنبلی مذہب کے دلائل کتاب و سنت کی رو سے زیادہ مضبوط ہیں تو نہ صرف اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز ہے بلکہ راجح مذہب کو چھوڑ کر مرجوح مذہب پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے، لیکن عملی حیثیت سے اس میں چند در چند مشکلات ہیں۔ (۴) 

ظاہر ہے کہ عملی حیثیت سے جن چند درچند مشکلات کی طرف انہوں نے خود سنی مذاہب مختلف کے حوالے سے اشارہ کیا ہے۔ سنی شیعہ دونوں کی فقہ کے حوالے سے بات کی جائے تو عملی مشکلات سوا ہو جاتی ہیں ان مشکلات کو سلجھانے کی ضرورت ہے اور شاید جدید تحقیقات کے بعد آئندہ یہ مشکلات کم ہو جائیں۔ مولانا مودودی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ مختلف نقطہ ہائے نظر میں تطابق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مختلف دینی مکاتب فکر میں پائے جاتے ہیں تو آپ نے اس کے جواب میں کہا: "کتاب و سنت میں جو سعادت پائی جاتی ہے، نہیں معلوم اسے محدود کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ اگر دین میں مختلف پہلو جائز ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ ہم صرف ایک ہی پہلو پر اصرار کریں"۔ پھر فرمایا: "اسی طرح بعض اہل علم دین کا صرف ایک ہی پہلو پیش کرتے ہیں۔ کوئی عالم ہے تو وہ صرف ایک ہی شعبے کی تبلیغ میں لگا ہوا ہے حالانکہ اسلام ہمہ پہلو اور ہمہ گیر ہے۔ ہم نے جماعت اسلامی مسلمانوں کو توڑنے کے لیے نہیں بلکہ جوڑنے کے لیے بنائی ہے۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ جماعت نے کبھی اختلافی مسائل میں حصہ نہیں لیا۔ (۵) 

علی گڑھ یونیورسٹی اور نصاب دینیات میں ہم آہنگی:
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی مجلس اصلاح نصاب و دینیات کے استفسارات کے جواب میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے متعدد تجاویز پیش کیں ان میں سے ایک تجویز حسب ذیل ہے: "میری تجویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کر لیا جائے کہ کس حد تک اس طرز تعلیم میں شیعہ طلباء کو سنی طلباء کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلباء کے لیے خود کوئی سکیم مرتب کریں مگر مناسب یہ ہوگا کہ جہاں تک ہو سکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم ازکم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آئندہ نسلوں کواسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت کی جائے۔ (۶) بس اتنی سی تو بات ہے کہ جب اجتماعی امور میں کوئی کارخیر کرنا ہو تو سب کو ساتھ لے کرچلنا چاہیئے۔ مولانا مودودی نے بہتر جانا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو تجویز دیں کہ وہ نصاب کی تیاری میں علمائے شیعہ سے بھی مشورہ کرلیں۔ اگر یہی روش پاکستان میں ملحوظ خاطر رکھی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات بہتر نہ ہو جائیں۔ مولانا کی تجویز کا آخری فقرہ تمام مسالک کے لیے قابل توجہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت دی جائے۔ یعنی اختلاف و نفرت آئند ہ نسلوں تک نہ بڑھائی جائے۔ 

مختلف مواقع پر شیعہ سنی ہم آہنگی کے مظاہرے:

پاکستان میں کئی ایسے مواقع آئے کہ امت نے اپنے اجتماعی شعور کا مظاہرہ کیا۔ ان تمام مواقع پر مولانا مودودی پیش پیش رہے۔ مگر ان کے ساتھ شیعہ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے اور کسی قسم کی کوئی رنجش پیدا نہ ہوئی بلکہ اپنے علماء پر امت کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا۔ پہلا موقع اس وقت آیا جب 24جنوری 1951ء میں ملک کے 31جید علمائے کرام نے 22نکات پر اتفاق کیا۔ اہل تشیع کی طرف سے نمائندگی کا شرف حافظ علامہ کفایت حسین مرحوم اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو حاصل ہوا۔ اس اجلاس کے بڑے محرک مولانا مودودی تھے۔ 1952ء-53 میں ختم نبوت کی مہم چلی جس میں امت نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا، شیعہ علماء حافظ کفایت حسین اور مظفر علی شمسی مرحوم گرفتار بھی ہوئے۔ یہ تحریک 1974ء میں اپنے انجام کو پہنچی جب قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا۔ اس میں مولانا محمد اسماعیل فاضل دیوبند جو کہ اثنا عشری تھے کی خدمت بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ختم نبوت کے حق میں قومی اسمبلی میں دلائل پیش کیے۔ اس تمام تر جدوجہد میں مولانا مودودی اور اہل تشیع ساتھ ساتھ رہے۔ 

دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک (پشاور) کے ترجمان ماہنامہ ’’الحق‘‘نے اکتوبر، نومبر 1974ء میں اقلیتی فیصلہ اور اس کے ذیلی تقاضوں کے موضوع پر مشابیر پاکستان کے ایک تحریری مذاکرہ پر مشتمل خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس میں شائع ہوئی تحریر میں مولانا مودودی کہتے ہیں: "قادیانیوں کے بالمقابل مسلمانوں نے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا ہے، اسے دائماً قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ جزوی اختلافات اگر ہوں تو انہیں مناسب حدود کے اندر رہنا چاہیئے اور ان کے اظہار کا طریقہ علمی اور سنجیدہ ہونا چاہیئے۔ اختلاف کو حق و باطل اور کفر و اسلام کا اختلاف نہیں بنا لینا چاہیئے۔ ورنہ اس کا فائدہ قادیانیوں ہی کو پہنچے گا جیساکہ پہلے پہنچتا رہا ہے۔ (۷)
 
اگر قادیانیوں کی اصطلاح کو وسیع مفہوم دے کر دشمنان اسلام کی اصطلاح استعمال کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے اختلافات اور تفرقے کا فائدہ دشمنان اسلام کو ہو گا اور لازمی بات ہے کہ اتحاد و اتفاق کا فائدہ امت اور اسلام کو ہو گا اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جس اتحاد میں اہل تشیع شامل نہ ہوں وہ صحیح معنی میں اتحاد امت کہلا بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع بارہا دیئے ہیں، جب مسلمانوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا مگر وقتی، جیسے ہی موقع گزر گیا تو پھر بکھر گئے۔ مولانا مودودی نے اس لیے زور دیا ہے کہ اس اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیئے۔ 
اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایسے متعدد مواقع سامنے آئیں گے۔ قرارداد مقاصد، 22نکات، ختم نبوت کی تحریک، سوشلزم کے خلاف فتاویٰ، نظام مصطفی (ص) کی تحریک، رشدی ملعون کے خلاف مہم اور فرقہ واریت کے خلاف اتحاد فلسطین و کشمیر اور افغانستان میں مسلمانوں کی جدوجہد میں تعاون، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم، سب مشترکہ جدوجہد کے وہ نظارے ہیں جو امت نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ 

مقاصد حسینی اور مجالس عزا:
امام حسین (ع) امت محمدیہ کا مشترک سرمایہ ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنے دوست محمد علی زیدی ایڈووکیٹ مرحوم کی رہائش گاہ واقع ٹیمپل روڈ لاہور پر مجالس عزا سے خطاب کیا، جس کی دو تقریریں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ اس سے مولانا کے روابط اور ان کی مشترکہ محفلوں میں شرکت کا اظہار ہے۔ ان مجالس میں آپ نے انہی خیالات کا اظہار فرمایا جو آج بھی فہم و شعور رکھنے والے پاکستانی کی آواز ہے کہ مکتب امام حسین (ع) کو رسم و رواج سے نکال کر عمل اور کردار میں ڈھالنا چاہیئے۔ اسی لیے وہ مقصد شہادت حسین (ع) پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ہر سال کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی، بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخصیت کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے 1320 برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کا کوئی معنی نہیں ہے اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ (۸) 
مولانا مودودی کی دیگر مسالک بالخصوص اہل تشیع کی محفل میں شرکت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ ایسی محفلیں جہاں ایک دوسرے کو قریب لانے کا سبب ہیں وہاں ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی اور غلط فہمیوں کے ازالے کا باعث بھی ہیں۔ اس لیے ایسی محفلوں کا انعقاد ہونا چاہیئے خواہ اس کے نتائج فوراً سامنے نہ بھی آئیں۔ (۹) 

غلاف کعبہ، زیارت کمیٹی:
پاکستان کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ غلاف کعبہ یہاں سے تیار کرکے مکہ معظمہ روانہ کیا گیا۔ جب یہ غلاف تیار ہو رہا تھا تو یہاں کے ولولۂ ایمانی سے بھرپور مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ غلاف کعبہ کی زیارت کروائی جائے تاکہ جو لوگ سعودی عرب نہیں جا سکتے وہ غلاف کعبہ کی یہاں اپنی آنکھوں سے زیارت کرلیں۔ اس پر گویا ایک بحث کا باب کھل گیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں بعض تو اسے شرک اور بدعت تک لے گئے۔ مگر مولانا مودودی نے اس موقع پر بھی اعتدال کی راہ اپنائی۔ انہوں نے ایک کمیٹی بین المسالک تشکیل دی کہ زیارت غلاف کعبہ کے پروگرام کو حتمی شکل دے اور ایسے امور سے اجتناب کرے جو باعث نزاع یا دین کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ اس کمیٹی میں دیگر مسلکی نمائندوں کے ساتھ علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم کو جو جید شیعہ عالم دین تھے کو بھی شامل کیا گیا۔ اس طرح مولانا مودودی ایک اجتماعی موقع پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ 

انہوں نے ایک مقام پر شعائر اللہ کی خوبصورت وضاحت فرمائی جو بہت سے ابہامات کو دور کرتی ہے اور ایک دوسرے کے قریب آنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: "شعائر اللہ کے لفظ کا اطلاق صرف انہی چیزوں پر نہیں ہوتا جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے بلکہ ہر وہ چیز جو خدا پرستی کی علامت ہو شعائر اللہ میں شمار کی جا سکتی ہے اور جس چیز کو بھی اللہ جل شانہ، کے حضور ہدیہ کرنے کی نیت کرلی جائے اس کا احترام بجا و درست ہے۔ یہ احترام اس شے کا نہیں بلکہ اس خدا کا ہے جس کے لیے اسے مخصوص کرنے کی نیت کی گئی ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر اور لکڑی بھی جمع کی جائے اور لوگ ادب و احترام کے ساتھ اٹھائیں اور اسے اٹھاتے اور لے جاتے اور تعمیر کی خدمت انجام دیتے وقت باوضو ہونے اور اللہ کا ذکر کرنے کا اہتمام کریں تو آخر یہ چیز قابل اعتراض کس بنیاد پر ہوگی؟ البتہ جو شخص ان حدود سے تجاوز کرکے انہی کا طواف یا ان کی طرف رخ کرکے سجدہ کرنے لگے یا ان سے دعاواستعانت کرنے لگے تو یہ بلاشبہ شرک ہو گا۔ (۱۰) 

امام خمینی اور مولانا مودودی (رہ):

کسی نے روایت کی ہے کہ جناب خلیل حامدی مرحوم جو جماعت اسلامی کے بیرون ملک روابط کے انچارج تھے، بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر وہ مولانا مودودی کے ساتھ تھے۔ ایک دن وہ اپنی قیام گاہ سے اکیلے نکل کھڑے ہوئے، وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، مولانا ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے پھر ایک کمرہ میں چلے گئے۔ وہ کافی دیر باہر انتظار کرتے رہے۔ وہاں پر موجود دربان سے مولانا خلیل حامدی نے دریافت کیا کہ یہاں کون شخصیت ٹھہری ہوئی ہے تو اس نے بتایا کہ آیت اللہ خمینی (رہ) ہیں۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد مولانا مودودی (رہ) اس کمرے سے نکلے جس میں امام خمینی (رہ)ٹھہرے ہوئے تھے۔ (۱۱) 
ایک حوالہ اور ملتا ہے: نومبر 1963ء میں مولانا تیسری دفعہ رابط عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے۔ یہ اجلاس یکم دسمبر سے 12 دسمبر تک منعقد ہوئے۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے حرم شریف میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقریریں’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح مکہ میں قیام کے دوران ایرانی نوجوانوں کے ایک وفد نے آیت اللہ خمینی (رہ) کی قیادت میں آپ سے ملاقات کی۔ (۱۲)
امام خمینی نے اپنی جدوجد کا آغاز 1963ء میں کیا جب ایران میں دس ہزار سے زائد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ مولانا نے اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نہ صرف اس ظلم کی مذمت کی بلکہ امام خمینی کے حق میں مضمون شائع کروایا۔ (۱۳) 

پاکستان میں چونکہ شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا تو اس جرأت رندانہ پر پرچہ ضبط کر لیا گیا اور تادیبی کارروائی بھی کی گئی۔ یہ شائد امام خمینی (رہ) کے حق میں اٹھنے والی پہلی پاکستانی آواز تھی۔ 20جنوری 1979ء کو امام خمینی (رہ) کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی (رہ) سے ملاقات کی۔ وہ امام کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں میں درج کر دیں۔ 18جنوری 1979ء کو مذکورہ وفد کی آمد کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق ڈوگر نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا: گذشتہ کئی سال سے ہمارے ان سے روابط ہیں۔ انہوں نے میری بعض کتب کا ترجمہ بھی کرایا ہے۔ وہ ان شیعوں جیسے نہیں۔ پوچھا کیا وہ بائیں بازو کے حامی ہیں؟ جواب دیا: نہیں وہ ان کے خلاف ہیں۔ مزید دریافت کیا کہ کیا وہ ایران کی سالمیت قائم رکھ سکیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔
20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: "آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔" 

رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اتنے میں مہمانوں کے لیے چائے آ گئی۔ مولانا نے انگریزی میں کہا ’’I am sorry میں بیمار ہوں، ادھر ڈرائنگ روم میں نہیں جا سکتا۔ یہیں چائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا کے کمرے میں بڑے بڑے لوگ آئے، علماء اور دنیا دار آج تک مولانا نے کبھی کسی سے اس قسم کے معذرت کے الفاظ نہیں کہے۔ آج جتنا تکلف کیا گیا پہلے کبھی وہ دیکھنے میں بھی نہیں آیا۔ اعلیٰ قسم کے برتن، چائے اور پھل بسکٹ وغیرہ۔ چائے کے دوران مولانا نے امام خمینی کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انجینئر محمد نے اپنی دونوں انگلیاں اوپر کو اٹھاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’وہ اس طرح سیدھے چلتے ہیں ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ انھیں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ملا ہوا ہے، وہ سادہ غذا کھاتے ہیں۔ معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور رات کو تین گھنٹے عبادت کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔ 

مولانا نے پھر کہا: "مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔
جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں بھی ایسا کیا جائے گا۔ انجینئر محمد نے کہا:
اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے"۔
یوں یہ نشست دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی مگر امت کو کئی پیغامات دے گئی۔ مولانا مودودی کی امام خمینی سے اس قدر ہم آہنگی تھی کہ انہوں نے بارہا اس بات کی وضاحت کی کہ وہ ان شیعوں جیسے نہیں ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں میں شیعوں کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں اور نفرتوں کی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ اصل شیعہ کردار اور طرح کا ہے اور لوگ امام خمینی کو بھی یہاں کے شیعوں کے کردار پر تولتے ہیں۔ جس ملک میں بھی اسلامی انقلاب آئے گا ظاہر ہے وہ وہاں کی اکثریتی فقہ کی نمائندگی کرتا ہو گا۔ بہرحال وہ اسلامی انقلاب ہی ہو گا۔
 
اس نشست سے مولانا مودودی کی انقلاب اسلامی سے محبت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اس ملک پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آئے۔ انہوں نے بالصراحت کہا کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ انقلاب اسلامی کے لیے متحد و متفق ہیں۔ انجینئر محمد نے جو بات کی اس پر آج بھی عمل کی ضرورت ہے کہ اگر شیعہ سنی، رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان سے بڑی طاقت اور کونسی ہو سکتی ہے اور آج کے مسائل کا حل اسی جذبے میں کار فرما ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسا مسلمان عالم دین جو کہ فقہ حنفیہ پر کاربند ہے نے دوسرے فقہی مسلک کے بارے میں کس قدر اچھے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آج ہم ان وسیع القلب اسلاف کے طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا جن اپنی قوت کے ساتھ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں دین کے نام پر قتل ہونا جہالت نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً ہمارا مشترکہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ آج وہ شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں مقبول ہوگا جو فرقہ واریت و دہشت گردی کی آگ پر پانی ڈالے۔ بقول انجم رومانی
ع بیدار! اہل قافلہ سونے کے دن گئے
ہشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
****

حوالہ جات و حواشی
۱۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ: استفسارات، جلد دوم، ص ۳۲۹
۲۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ :مکاتیب سید مودودی، مرتب کردہ: پروفیسر نورورجان (لاہور، ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، جنوری۲۰۱۱ ء) ص ۱۳۶۵،۳۶۸۔
۳۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ : مکاتیب مودودی، مرتب کردہ: عاصم نعمانی(۹اکتوبر۱۹۶۳)ص ۱۰۲
۴۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ :رسائل ومسائل جلد پنجم،ص ۲۴۲
۵۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ : استفسارات جلد اول ص۱۶۰و۱۶۱
۶۔ مودودی ، سید ابوالاعلیٰ :تعلیمات ،(لاہور، اسلامک پبلی کیشنز ، جنوری ۲۰۰۴)ص۳۸
۷۔ مولانا مودودی کے انٹرویو ،حصہ دوم، مرتب کردہ ابو طارق جمیل، (لاہور، اسلامک پبلیکیشنز،۱۹۸۷ء)ص ۲۶۱
۸۔ پمفلٹ بعنوان شہادت امام حسینؑ شائع کردہ، جماعت اسلامی، علامہ اقبال ٹاؤن ،لاہور
۹۔ امام حسینؑ پر مولانا مودودی کا نکتہ نظر انشاء اللہ کسی اور مضمون میں پیش کیا جائے گا۔ یہاں فقط موضوع کی مناسبت سے تذکرہ کرنا مقصود تھا۔
۱۰۔ ترجمان القرآن،اپریل ۱۹۶۳ء
۱۱۔ اگر کسی کے پاس اس کا حوالہ موجود ہو تو براہ کرم مطلع فرما دیں۔
۱۲۔ افتخار احمدپروفیسر،عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز،امین پورہ بازار، ۱۹۸۴)
۱۳۔ ترجمان القرآن اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
خبر کا کوڈ : 268434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Very well composed jazakallah.
جزاکم اللہ خیرا
masha allah jazak allah
good effort containing very good message
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش