0
Tuesday 1 Oct 2013 01:03

کراچی آپریشن، حقائق کی روشنی میں

کراچی آپریشن، حقائق کی روشنی میں
 تحریر: ارشاد حسین ناصر 

کراچی پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ ہے، اسے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ کراچی ہی ہے جس میں پاکستان کی ہر کمیونٹی، علاقہ و مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ شائد یہی وجوہات ہیں کہ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے ہر شہر و گاؤں سے لوگ روزگار کیلئے کراچی کا رُخ کرتے تھے اور اس شہر کی خصوصیت بھی یہ تھی کہ یہ ہر آنے والے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا تھا اور اپنے اندر سمو لیتا تھا۔ یہ جاذبیت اس قدر پُرکشش ہوتی تھی کہ دوسرے خطے و علاقائی کلچر سے وابستہ ہونے کے باوجود یہاں آنے والے اس شہر کے کلچر اور تہذیب میں رَچ بس جاتے تھے۔ کراچی کی راتیں جاگتی تھیں، لہٰذا رات گئے تک یہاں مختلف علاقوں و معاشروں کی روایات کے اسیر یہاں دیر تک کھلے رہنے والے ہوٹلوں و چائے خانوں میں محفلیں گرماتے نظر آتے تھے۔
 
آج کراچی کا سارا حسن و جمال ماند پڑگیا ہے۔ اس کی جاگتی راتیں اندھیروں میں بدل دی گئی ہیں، اس کے روشن دن ختم نہ ہونے والی تاریکی کا سماں پیش کر رہے ہیں، یہاں سے اپنائیت نے ہجرت کرلی ہے، اس شہر سے برداشت کا مادہ رُوٹھ سا گیا ہے۔ اس شہر کی کشش اور جاذبیت نے کہیں اور بسیرا کرلیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر شئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کراچی اب کرچی کرچی ہوگیا ہے۔ کراچی کو کرچی کرچی کس نے کیا ہے؟ اس شہر کی جگمگاہٹ اور اس کے باسیوں کی مسکراہٹ چھیننے والا کون ہے؟ محبتوں کو نفرتوں میں بدلنے اور برداشت کی چتا کو آگ لگانے والا کون ہے؟ آج کراچی جس صورتحال سے دوچار ہے یہ دوچار برسوں کی بات نہیں، یہ تین دہائیوں سے مسلسل تباہی و بربادی کی طرف بڑھتا بڑھتا اپنے منطقی انجام تک جا پہنچا ہے۔
 
آج جب ملک پر مسلم لیگ نون اپنا تیسرا دور حکومت چلار ہی ہے تو اسے سب سے پہلے دہشت گردی کے سب سے گھمبیر مسئلہ سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی جو ہر کام کی راہ میں رکاوٹ ہے، جو ترقی کا پہیہ جام کر دیتی ہے، جو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے، جو امن و سکون غارت کر دیتی ہے، جو اعتماد اور یقین کو چھین لیتی ہے جو اُمید کو توڑ دیتی ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے پورے ملک کو بالعموم اور کراچی کو بالخصوص جکڑے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا سایہ اس قدر گہرا اور طویل ہوگیا ہے کہ اب اسے پاکستان کے ساتھ لازم ملزوم سمجھا جانے لگا ہے۔ حکمران ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ آج اگر اس سے چھٹکارا حاصل نہ کیا گیا تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گے۔
 
3 ستمبر کو کراچی کے گورنر ہاؤس میں نو منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس APC میں شہر کے مختلف سیاسی و مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے علاوہ تاجران بھی شریک ہوئے۔ تاجران شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم، امن و امان کی بدترین صورتحال، ہڑتالوں، جلسوں، جلوسوں، توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور سب سے بڑھ کر اغواء برائے تاوان و بھتہ خوری سے سخت پریشان ہیں۔ وزیراعظم کے سامنے پھٹ پڑے۔ انہوں نے پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، وزیراعلٰی و گورنر کی برطرفی اور فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ کراچی کی APC میں تمام جماعتوں اور تنظیموں سے صلاح و مشورہ اور آراء لی گئیں اور یہ کہا گیا کہ کراچی کے حالات قتل و غارت، بھتہ خوری، طالبانائزیشن، لوٹ مار، قبضہ گروپنگ، لینڈ مافیا اور بڑھتی ہوئی بدامنی تقاضا کرتے ہیں کہ شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔
 
وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے طاقت استعمال کرنا پڑے گی۔ اس میں ناکامی کا کوئی آپشن نہیں، ہم تمام پارٹیوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں، موجودہ بدامنی میں سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی، ترقی کیلئے امن لانا ہوگا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ کراچی کے غیر معمولی حالات کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے اگر قوانین میں تبدیلی بھی کرنا پڑے تو کریں گے۔ کراچی میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی کے بعد 4 ستمبر کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رینجرز کی زیر قیادت ٹارگٹ آپریشن کیا جائے۔ رینجرز کو مکمل اختیارات دیئے گئے۔ فیصلہ کیا گیا کہ چار کمیٹیاں ہونگی۔ ڈی جی رینجرز مرکزی آپریشنل کمیٹی کے سربراہ ہونگے، آپریشن کو موثر بنانے کیلئے پولیس کی استعداد کار کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس مقصد کیلئے جدید سامان خریدنے کی منظوری دی گئی۔ جس میں 25000 ہزار بلٹ پروف جیکٹس، 20 ہزار بلٹ پروف ہلمٹ، 5 ہزار حفاظتی دستانے، 5 ہزار جدید مشین گنیں، جدید اسکینرز، ہائی رینج کیمرے اور دیگر ضروری سامان خریدنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ شہر میں 700 سے زائد حفاظتی چوکیاں بنائی جائیں گی۔ رینجرز کو کراچی کے 5 تھانوں کا مکمل کنٹرول دیا گیا۔
 
کراچی میں ہونے والی دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت، بھتہ خوری، لوٹ مار، ڈکیتیوں، قبضہ گروپنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں مختلف گروپس اور جماعتوں سے وابستہ دہشت گرد ملوث پائے گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا یہاں صرف MQM کا نام چلتا تھا، اب دہشت و وحشت کی علامت لیاری گینگ وار سے وابستہ گینگسٹرز بھی اپنا ایک نام رکھتے ہیں جبکہ پورے ملک کی طرح یہاں طالبان نے بھی ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ طالبان، لیاری گینگ وار اور دیگر کئی گروہوں کے پیچھے انڈین و اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ بھی ہے، طالبان کے مضبوط ہونے کی وجہ یہاں پر پختونوں کی بڑی آبادیاں ہیں۔ قبائلی علاقہ جات جہاں افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں اور مسلسل ان سے برسرپیکار ہیں، وہاں سے بھاگنے والے دہشت گردوں نے کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں نہ صرف پناہ لے رکھی ہے، بلکہ یہ دہشت گرد ملک بھر میں اس طرح اپنے تخریبی مقاصد کیلئے نیٹ ورک بنانے میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔ کراچی میں ان کو آسانی سے اپنی آبادیوں اور بستیوں میں رہائشیں بھی مل جاتی ہیں اور ان کو چھپانے والے بھی آسانی سے دستیاب ہوجاتے ہیں۔
 
طالبان جو کئی گروہوں کا مجموعہ بن چکے ہیں، بذات خود القاعدہ سے وابستہ ہیں، ان میں مختلف مذہبی گروہ بالخصوص فرقہ وارانہ سوچ و فکر کے حاملان کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں۔ لشکر جھنگوی کے نام سے جن کارروائیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، دراصل یہ کوئی الگ تنظیم نہیں ہے بلکہ القاعدہ میں جو لوگ مکتب تشیع کے خلاف برسرپیکار ہیں انہیں یہ نام دے دیا گیا ہے۔ آپ اس کو اس طرح سوچ سکتے ہیں کہ سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جھنگوی، حرکت الجہاد اسلامی، جیش محمد، حرکت المجاہدین، جند اللہ، جنود الحفصہ، غازی فورس ایسے ندی نالے ہیں جو القاعدہ میں جاکر گرتے ہیں۔ القاعدہ پر اب عالمی سطح پر تکفیریت پسندوں کا غلبہ ہے۔ عراق، شام، بحرین، لبنان، یمن اور مشرق وسطٰی کے حالات کے باعث القاعدہ اب ایک تکفیری و فرقہ وارانہ گروہ بن چکا ہے، جس کا اسلام کے آفاقی و الٰہی جہادی پیغام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اب اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ہر ناجائز ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہیں، ایسے ناجائز ہتھکنڈے جن سے نبی مرسل حضرت محمدؐ نے سخت سے سخت حالات میں بھی منع فرمایا اور کبھی بھی اپنی زندگی میں لڑی جانے والی جنگوں میں ایسے ناجائز و غیر شرعی اقدمات کی اجازت نہ دی۔
 
کراچی میں موجود یہ دہشتگرد گروپس مختلف اوقات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف گروہ اپنا اثر رکھتے ہیں اور الگ الگ حکومتیں چلا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ہونے کا مطلب موت سے کھیلنا ہوتا ہے۔ لیاری اولڈ سٹی ایریا، اورنگی ٹاؤن، سائٹ، پاک کالونی، منگھو پیر، قائد آباد، کٹی پہاڑی، گلستان جوہر، الآصف اسکوائر اور کئی دیگر علاقوں میں جرائم پیشہ، فرقہ وارانہ، لینڈ مافیا، قبضہ گروپ اور دیگر کالعدم گروہوں کا راج ہے۔ لیاری میں گینگ وار نے نہ صرف پورے کراچی کو ہلا کر رکھا ہوا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات ملک کے دیگر علاقوں پر بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ آپریشن کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد بہت سے جرائم پیشہ، ٹارگٹ کلرز اور کالعدم گروہوں کے اراکین محفوظ پناہ گاہوں کی طرف رُخ کئے ہوئے ہیں۔ یہ محفوظ پناہ گاہیں ساؤتھ افریقہ، دبئی، ابوظہبی اور پاکستان کے اندر بھی ہوسکتی ہیں۔ لیاری گینگ وار اور کالعدم فرقہ پرست دہشتگردوں کے کئی اراکین کو خفیہ اداروں نے لاہور، مری اور اندرون سندھ کے کئی شہروں سے بھی گرفتار کیا ہے، جبکہ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے خفیہ اداروں اور پولیس نے بھی ٹارگٹ کلرز (شوٹر) بھرتی کئے ہوئے ہیں، جو اس ساری گیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ فورسز ان کو مناسب مواقع پر استعمال کرتی ہیں اور جب مشکل وقت آرہا ہو تو انہیں حفاظتی نکتہ نظر سے جیل یاترا پر بھیج دیا جاتا ہے۔
 
جب سے آپریشن شروع ہوا ہے روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں آرہی ہیں کہ آج اتنے بھتہ خور پکڑے گئے، آج فلاں ٹارگٹ کلر پکڑا گیا، آج فلاں کالعدم گروہ کے دہشتگردوں کو گرفتار کرلیا گیا، آج فلاں علاقے میں رینجرز کا چھاپہ، اسلحہ، گولہ و بارود کی بڑی مقدار پکڑی گئی۔ یہ خبریں یقیناً اس حوالے سے حوصلہ افزاء ہیں کہ ملک دشمنوں، امن کے غارت گروں اور معصوموں کو خون میں نہلانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ازحد ضروری ہے اور معاشرے کو ان کے شر سے بچانے کی پوری سنجیدگی سے کوششیں ہونی چاہیں، مگر کیا یہ کافی ہے؟ کیا گذشتہ 30 سال کا گند اس طرح کے ڈھیلے ڈھالے آپریشن سے صاف ہوجائے گا؟ کیا کراچی میں ٹارگٹ آپریشن سے مقاصد کا حصول ممکن ہے؟ ماضی میں بھی حکومت اس طرح کی گرفتاریاں کرتی رہی ہے، لیاری میں بھی اس طرح کے کئی آپریشن ہوئے ہیں، ان کے نتائج اور اب کی بار نتیجہ کیسے مختلف ہوگا اس بارے شکوک و شبہات اور تجزیئے کیے جا رہے ہیں۔
 
ماضی میں اس طرح ہوتا آیا ہے کہ اگر کسی گروپ یا جماعت سے وابستہ کسی ٹارگٹ کلر، کسی بھتہ خور، کسی قاتل، کسی لٹیرے کو گرفتار کیا جاتا تھا تو اس کے سرپرست حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے لگتے تھے، احتجاج ہو جاتا تھا، تھانوں کا گھیراؤ کیا جاتا تھا، اور پھر کسی نہ کسی طرف سے پریشر چل جاتا تھا، جس کے نتیجہ میں ملزم "شب بسری" سے پہلے ہی اپنے گھر یا محفوظ مقام پر پہنچ جاتا تھا۔ آیا اب ایسا ہی ہو رہا ہے یا صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اس پہلو پر روشنی ڈالنے کیلئے MQM کے سابق MPA ندیم ہاشمی کی گرفتاری اور بھرپور احتجاج و دھمکیوں کے بعد رہائی کو سامنے رکھا جائے۔ 

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس شہر کی تباہی میں کسی ایک گروپ کا ہاتھ نہیں مگر جو لوگ شہر کراچی کی 85 فیصد نمائندگی کے دعویدار ہیں اور بلاشبہ ان کا سکہ چلتا ہے۔ اپنے علاقوں میں امن و امان کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی۔؟ دہشتگردی و ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے، بھتہ خوری و لوٹ مار، دن دیہاڑے بنک ڈکیتیوں اور راہ چلتے لوگوں کو نقدی و قیمتی سامان سے محروم کر دینے والے نیٹ ورکس کیخلاف اقدامات اُٹھانا ان کے حصہ میں بھی آتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا، یہ لوگ تو گذشتہ تمام حکومتوں میں وزارتیں، نظامتیں اور سفارتیں سمیٹتے دیکھے گئے ہیں۔ انہیں تو بس اپنے حصے سے غرض ہوتی ہے، یہ حصہ فطرہ، قربانی کے گائے و بکرے کی کھال یا پھر دکانداروں و کاروباری حضرات سے بھتہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی نہ دے تو پھر اس کا نتیجہ بم دھماکہ، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ 

یہاں بھتہ نہ دینے کی صورت میں مارکیٹوں کو جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے، پھر کس کی مجال ہے کہ حکم کی سرتابی کرے۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ کراچی میں بنک مینجروں کو بھی پرچیاں دی جاتی ہیں کہ اتنا بھتہ دے دو ورنہ۔۔۔۔! اس خوف و وحشت میں جینا یقیناً دشوار اور زندگی گزارنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر میں مجرموں، دہشت گردوں، بھتہ خوروں، بدمعاشوں، قاتلوں، رہزنوں، لٹیروں، ملکی و غیر ملکی خفیہ قوتوں کے ایجنٹوں کے رہنے کیلئے بنگلے بھی ہیں اور بلند و بالا عمارتوں میں فلیٹس بھی۔ مدارس کا وسیع جال بھی اور خانقاہوں کے سائے میں رات اور دن گزارنے کے مراکز بھی۔ اگر کسی کی نیند خراب ہے، کسی پر خوف و وحشت کا سایہ ہے تو وہ شریف اور بے ضرر انسان ہیں جو کسی تخریبی سرگرمی میں حصہ دار نہیں بنتے جو کسی کو تکلیف و آزار نہیں پہنچا سکتے، ایسے ہی لوگوں کیلئے مشکلات ہیں، ایسے ہی لوگوں پر خوف و وحشت کے سائے تنے ہیں۔ 

اس وقت اگرچہ رینجرز کی سرکردگی میں آپریشن جاری ہے، مگر ابھی تک اس آپریشن کے کسی اقدام (Step) کو غیر معمولی قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کام کو خاطر خواہ کامیابی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ نیٹو کے 19 ہزار غائب ہونے والے کنٹینرز کے قصہ کو امریکی سفارت خانے کے وضاحتی تردیدی بیان کے بعد خاموش کرا دیا گیا ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ یاد رہے کہ افغانستان سے واپس جانے والے نیٹو کے اسلحہ سے بھرے 19 ہزار کنٹینرز کے غائب ہونے کی خبریں زبان زد عام و خاص تھیں اور سپریم کورٹ نے بھی اس پر نوٹس لے رکھا ہے۔ یہ اسلحہ سے بھرے کنٹینرز کہاں تقسیم ہوگئے، اس بارے خدشات پائے جاتے ہی کہ یہ دہشت گردوں، تخریب کاروں اور مسلح جماعتوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، جسے جان بوجھ کر گم کیا گیا ہے اور امریکی وضاحتی و تردیدی بیان سے یہ محسوس بھی ہوتا ہے کہ اس اسلحہ کے گم ہوجانے کا انہیں کوئی دکھ یا رنج نہیں اور نہ ہی وہ اسے نقصان سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ وہ انوسٹمنٹ ہے جس سے انہوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا سامان کرنا ہے، تاکہ ایٹمی اسلامی مملکت ان کے سامنے کشکول گدائی لیئے مارے مارے پھرتی نظر آئے اور اس کے اندر عزت و غیرت نام کا مادہ ہمیشہ کیلئے نابود ہوجائے۔ امریکہ کی تردید کہ ہمارا کوئی کنٹینر غائب نہیں ہوا ہے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ جب مدعی ہی صاف انکاری ہو کہ اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا، پھر کوئی دوسرا یا تیسرا کیسے کہہ سکتا ہے کہ نقصان ہوا ہے۔؟ 

کراچی ایک انٹرنیشنل شہر ہے، اس میں برسرپیکار دہشت گرد گروہوں، تخریب کاروں، شدت پسندوں، فرقہ وارانہ جماعتوں اور نام نہاد جہادی گروپوں کے پس پردہ نیز بھتہ مافیا اور قبضہ گروپنگ ہر ایک کی پشت پر مقامی سرپرستوں کے علاوہ عالمی قوتوں اور پاکستان دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا ملوث نہ ہونا محض الزام نہیں، حالات و واقعات اور کارروائیوں سے ثابت شدہ ہے۔ اس بارے ہمارے خفیہ ادارے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ جب سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں یہ بات سامنے آسکتی ہے کہ یہاں کے ٹارگٹ کلرز اور دہشتگرد اسرائیلی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں اور کئی ایک لوگوں سے ایسا اسلحہ برآمد بھی کیا گیا ہے تو پھر اس بات کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد یہاں ملوث نہیں۔ موساد، CIA اور را مشترکہ طور پر بھی یہ کام کرتے ہیں۔
 
کراچی آپریشن میں تیزی و گرمی اس لئے بھی دکھائی نہیں دے رہی کہ یہ ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب پاکستان کے کسی دوسرے خطے میں ملک دشمن، دہشت گردوں کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع کیا گیا ہے اور سینکڑوں افراد کے قاتلوں کو پھانسیوں کے پھندوں سے امن مذاکرات کے تاوان کی نظر کیا گیا ہے اور فورسز و عوام کے مختلف طبقات میں اس حوالے سے مایوسی و بددلی نے جنم لیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمران ایک علاقے میں دہشتگردوں کو بغیر سفید جھنڈا لہرائے معافیاں دے رہی ہو اور دوسری طرف ان کے خلاف آپریشن کا تاثر دے رہی ہو۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے اور کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیں۔ ملک کی معیشت اپنی اصل پٹڑی پر چل پڑے، ایسا فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے بھی آپ دیکھیں کہ جس شہر میں دہشتگردوں، بھتہ خوروں، فرقہ پرست کالعدم گروہوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہو، وہاں سے انہیں ڈر و خوف کے مارے بھاگ جانا چاہیے، جبکہ ایسے ماحول میں جب رینجرز، ایجنسیاں اور پولیس اپنا پورا زور لگائے ہوئے ہیں، شیعیان علی ؑ کا خون ہر روز بہایا جا رہا ہے۔ دہشتگرد اپنا پیغام دے رہے ہیں کہ آپریشن ہلکا ہو یا زور دار، ہم اپنا کام جاری رکھیں گے، یعنی اہل تشیع قتل ہوتے رہیں گے اور معصوموں کا خون بہتا رہے ۔۔۔۔ کراچی ملک کی اقتصادی شہہ رگ ہے، اس رگ کو یونہی دبایا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 307058
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش