0
Sunday 29 Sep 2013 13:09

ریاست، قوم، قاتل اور مذاکرات

ریاست، قوم، قاتل اور مذاکرات
تحریر: ندیم عباس

موجودہ دور کو نیشنل اسٹیٹ کا دور کہا جاتا ہے اس میں ہر ملک اپنے اپنے مفادات دیکھتا ہے اور ان مفادات کی روشنی میں داخلہ اور خارجہ پالیسی ترتیب دی جاتی ہے، اسی لیے پوری قوم ان داخلی اور خارجی پالیسیوں کی پشت پناہی کر رہی ہوتی کسی بھی ریاست کے لیے اس کے شہریوں کا خون سرخ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو بھی گروہ کسی ریاست کے شہریوں کے خون میں ملوث ہو اس کے خلاف ریاست اپنی پوری قوت سے حرکت میں آتی ہے اور ان ریاست دشمن قوتوں کو کچل دیا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر ریاست کے کمزور ہونے سے ان عناصر کو کچلنے میں وقت لگ سکتا ہے مگر زندہ ریاست اپنے بیٹوں کے خون پر کبھی کسی قاتل گروہ سے مذاکرات کا سوچتی بھی نہیں اور اگر کوئی حکومت اس قسم کی حماقت کرے تو ریاست کے عوام اپنی حکومت کو قاتلوں سے مفاہمت کی کبھی اجازت نہیں دیتے اور محب وطن قوتیں  ایسے گروہوں کی شدید مخالفت کرتی ہیں جو قاتلوں کی شرائط پر ان سے بات کرتے ہیں۔

قارئین کرام پاکستان نہ تو کمزور ریاست ہے اور نہ ہی اس کے خلاف برسرپیکار قوتیں اتنی  طاقتور ہیں، اصل مسئلہ حکومتوں اور بعض ایسی سیاسی قوتوں کا ہے جو یا تو ان قاتل گروہوں سے خوف زدہ ہیں یا درپردہ ان کی حمایت کر رہی ہیں۔ حکومت فیصلہ کرے، قوم اس کی حمایت کرے، فوج دل جمعی سے کاروائی کرے ان قوتوں کو پوری قوت سے مسترد کر دیا جائے، جو اس وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے اور قاتل گروہوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ بدامنی ابھی ہے اور قاتل گروہوں کے خلاف آپریشن سے شاید اس میں اضافہ بھی ہو جائے مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان قوتوں کے خلاف آپریشن اور ان کے قلع قمع کرنے سے وطن عزیز کو ان قاتل گروہوں سے نجات مل جائے گی۔ حامد میر صاحب نے درست فرمایا اگر انہیں مارنا آتا ہے تو ہمیں مرنا آتا ہے۔ یہ بات تو واضح سے ہے اگر مرنا ہی ہے تو اپنی پسند کے میدان میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کو عزت سے گلے لگانا چاہیئے یہ تو بزدلی کی انتہاء ہے ہمارے سامنے ہمارے بچوں کا قتل عام ہوتا رہے اور ہم اس کو خاموشی سے دیکھتے رہیں۔

مذاکرات کے حامیوں کی خدمت میں گزارش ہے خدا کے لیے دشمن کو پہچانیں، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں کیا کسی بھی صورت میں مسجد میں نمازیوں پر مسافر بسوں پر رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نصاری اور ان کے عبادت خانوں کو امان دی، ان پر، سکول جاتے بچوں پر، امن و امان کی ذمہ دار اسلامی سپاہ پر، حملے کرنے کی اجازت ہے اگر اسلامی حکومت قائم ہو تو ایسے لوگوں کی شریعت میں سزا مجمع عام میں سب کے سامنے بےدردی سے قتل کرنا ہے تاکہ دوسروں کے لیے باعث عبرت بنیں اور آئندہ کسی کو مسلمان ملک میں بد امنی پھیلانے کی جرات نہ ہو۔

مجھے منور حسن صاحب اور عمران خان صاحب کے موقف پر حیرت ہوتی ہے ان صاحبان کی خدمت میں گزارش ہے میں ایک عام آدمی ہوں، آپ  کے بیان پڑھ کر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے آپ طالبان کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ طالبان فون کر کے دھڑلے سے کہتے ہیں ہم نے دھماکہ کیا ہے اور آپ لوگ امریکہ انڈیا اور اسرائیل کو ملوث قرار دے رہے ہوتے ہیں ان ممالک کا بھی پاکستان کے حالات خراب کرنے میں کردار ہے، مگر خدا کے لیے ان کو پہچانیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے قاضی صاحب پر حملہ کیا اور ان کو دوبارہ موقع ملا تو آپ کو بھی نہیں بخشیں گے۔ ان قاتل گروہوں کی مثال کینسرزدہ پاوں کی ہے جس کا علاج فقط کاٹنا ہے اور عمران خان صاحب انہی لوگوں نے آپ کے صوبائی اسمبلی کے ممبر کو قتل کیا اور جس صوبے کی عوام نے آپ کو سب سے زیادہ مینڈیٹ دیا ہے وہی عوام سب سے زیادہ ان لوگوں کی انسانیت دشمنی کا شکار ہوئی ہے۔ جن گھرانوں کے چشم چراغ ان ظالموں نے گل کر دیئے ہیں وہ جب آپ کا بیان پڑھتے ہیں کہ طالبان ہمارے اپنے لوگ ہیں تو ان کے دلوں پر جو قیامت گزرتی ہے وہ قیامت ان کے پیاروں کی شہادت سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اپنے اس بیان پر کسی شہید کی بیٹی بیوی یا ماں کا ردعمل بھی لے لیجئے گا، جن کی زندگیوں کے سہارے میریٹ ہوٹل مہران بیس ہزارہ ٹاون یا کوہاٹی دروازے کے انسانیت سوز واقعات میں شہید کر دیئے گئے۔ منور حسن صاحب کی خدمت میں گزارش کروں گا اسلام کے تصور سزا و جزا کا ایک بار ضرور مطالعہ فرمالیں کہ اسلام نے کس صورت میں قاتل کو معافی کی گنجائش دی ہے اور وہ کون دے سکتا ہے کیا اس میں کہیں یہ صورت ہے کہ اگر امریکہ ڈرون حملے کرے تو اس کے جواب میں مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے کو معاف کر دیا جائے۔ شاید وطن عزیز کی عزت آبرو کی بقا کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی روحیں حیرت سے ہمیں دیکھ رہی ہوں کہ کیا ہم نے اپنا لہو اسی لیے دیا تھا کہ عوام کے قاتلوں کو اپنا لوگ کہا جائے گا خدا سے دعا ہے کہ ہمیں اس قاتل گروہ سے نجات دے جس نے مسلمان بستیوں کو ویران کر دیا ہے۔ جس نے عبادت گاہوں کی حرمت کو پامال کیا ہے، جس نے خدا کی مقرر کردہ حدود کو توڑا ہے، جس  نے ناحق خون بہایا ہے، جس نے اولیائے الہی کے مزارات کی توہین کی ہے۔ 

خبر کا کوڈ : 306392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش