0
Monday 23 Nov 2015 12:13

وزیراعظم کا لبرل پاکستان اور مذہبی قوتوں کا ردعمل

وزیراعظم کا لبرل پاکستان اور مذہبی قوتوں کا ردعمل
تحریر: ثاقب اکبر

لبرل ازم اور سیکولرزم کے مقابلے میں مذہبی حکومت یا معاشرے کی بحث نئی نہیں۔ پاکستان میں یہ بحث وزیراعظم کے ایک بیان سے پھر سے شروع ہوئی ہے جو انھوں نے گذشتہ دنوں کراچی میں ہندوؤں کی دیوالی کی تقریب میں دیا۔ اس میں انھوں نے پاکستان کو لبرل بنانے کے لئے اپنے عزم کا اعلان کیا۔ یہ اعلان پاکستان میں اسلامی مذہبی حلقوں کو پسند نہیں آیا۔ انھوں نے اس کے خلاف فوری ردعمل ظاہر کیا۔ اس کا سب سے بڑا اور اجتماعی اظہار ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام 21 نومبر کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ہوا۔ اس میں اگرچہ صرف مذہبی جماعتوں نے شرکت کی، تاہم یہ جماعتیں ملک کے اندر عوام میں وسیع اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ ان میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جن کی نمائندگی وفاقی اور صوبائی قانون سازی اداروں میں موجود ہے۔ اے پی سی میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی پاکستان، اسلامی تحریک پاکستان، جماعۃ الدعوۃ، مجلس وحدت مسلمین، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جماعت اہل حدیث، وفاق المدارس شیعہ، رابطۃ المدارس العربیہ، جمعیت علمائے اسلام (سینیئر)، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی)، تحریک فیضان اولیاء، جمعیت اتحاد العلماء، تنظیم اسلامی، تحریک احیائے خلافت، مرکز اہل سنت پاکستان، پاکستان شریعت کونسل، ملی مجلس شرعی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، فلاح اہل سنت و جماعت، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اور تحریک نفاذ اردو کے قائدین اور نمائندگان شامل تھے۔

کانفرنس کے اختتام پر جو متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں کہا گیا: ’’وزیراعظم پاکستان باطل طاقتوں کے دباؤ میں آکر پاکستان کو لبرل ریاست بنانے کے اعلان کو واپس لیں اور قوم کو دوٹوک یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ دستور پاکستان اور قیام پاکستان کے متفقہ مقاصد کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔" اگرچہ وزیراعظم نے خود سے اپنے بیان کی وضاحت نہیں کی، تاہم بعض ٹی وی ٹاک شوز میں ان کی جماعت کے کچھ راہنماؤں نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لبرل‘‘ کی اصطلاح انتہا پسند اور شدت پسند کے مقابلے میں استعمال کی گئی ہے۔ یہی وضاحت اگر خود وزیراعظم کی طرف سے آجاتی تو صورت حال خاصی مختلف ہو جاتی، لیکن چونکہ عالمی سیاسی ادبیات میں ’’لبرل ازم‘‘ ’’اباحیت‘‘ یعنی مادر پدر آزادی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے مذہبی قوتوں کا وزیراعظم کے بیان پر ردعمل سمجھ میں آتا ہے۔ وزیراعظم نے اس اصطلاح کے استعمال پر بس نہیں کی بلکہ ہندو ثقافت کی معروف علامتوں کے ساتھ غیر ضروری محبت کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے لبرل ازم کے بارے میں ان کے اظہارات کی معذرت خواہانہ وضاحت اور بھی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ ’’اباحیت‘‘ کا مغربی تصور پاکستان جیسے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم معاشروں میں بھی ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کا آئینی نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے اور اس کے آئین میں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس کے ذمے دار راہنماؤں کو اس لئے بھی آئینی تقاضوں کا احترام کرنا چاہیئے کہ انھوں نے اسی آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے ایک ڈیموکریٹک ریپبلک ہونا چاہیئے۔ یہ بحث اس ملک میں پرانی ہے۔ اس نظریئے کے حاملین کا خیال ہے کہ کسی خاص مذہب کی بنیاد پر قائم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقی اسلامی تعلیمات کے مطابق قائم حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق کسی بھی دوسرے نظام کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں اور اس کی اصل بنیاد بندگان الٰہی کے بارے میں پروردگار کے سامنے جوابدہی کا احساس ہے۔ اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل کے دستور کی دو شقیں قابل غور ہیں:
* باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق دلوانے کی جدوجہد کرنا جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادی مذہب و مسلک، آزادی عبادت، شخصی آزادی، آزادی اظہار رائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع، آزادی اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانیت اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
* غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔
علاوہ ازیں اکتیس علماء کے تاریخی بائیس نکات جو 1951ء میں کراچی میں تمام مسالک کے جید علماء کے دستخطوں سے منظور ہوئے کو ملی یکجہتی کونسل نے اپنی بنیادی دستاویزات میں قرار دے رکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ
* مملکت بلا امتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات، یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعئ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
ان حقوق کا تحفظ پاکستان کے موجودہ آئین میں بھی کیا گیا ہے، جسے پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی تسلیم کرتی ہیں بلکہ اس آئین کو متفقہ بنانے میں مذہبی جماعتوں کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔

ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی خاص مذہب کی بنیاد پر قائم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے۔ ہوسکتا ہے کسی اور مذہب اور دھرم کے نقطہ نظر سے یہ بات درست ہو، لیکن مسلمہ اور متفقہ اسلامی ریاست کے تصور کے مطابق جیسا کہ مندرجہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے، ایک اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق ہر لحاظ سے محفوظ ہوتے ہیں بلکہ ’’ذمی‘‘ کا حقیقی تصور یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے اندر موجود وہ غیر مسلم جو ریاست کے قوانین کا احترام کرتے ہوں کی جان، مال، عزت اور مذہب کے تحفظ کی ذمے داری اسلامی ریاست پر ہوتی ہے، اسی لئے انھیں ذمی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انھیں ریاست کی حفاظت کے حوالے سے بعض ذمے داریوں سے مستثنٰی قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں تک انتہا پسندی اور شدت پسندی کے مقابلے میں لبرل ازم کی اصطلاح کا تعلق ہے تو ہم یہ بات کہنا چاہیں گے کہ ملی یکجہتی کونسل جیسے وسیع پلیٹ فارم کو قائم کرکے پاکستان کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے عملاً ثابت کر دیا ہے کہ وہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف امت اور ملت کے اتفاق و اتحاد کے لئے آپس میں ایک ہیں۔ اس کونسل کا قیام ہی انتہا پسندی، دہشت گردی اور تکفیریت جیسے مظاہر کے خلاف جدوجہد کے لئے معرض وجود میں آیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس کونسل کا جس طرح سے حکومت کو خیر مقدم کرنا چاہیئے تھا، وہ اس سلسلے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کے حصے کا بہت سارا کام اپنی دینی ذمے داری سمجھتے ہوئے تمام مسالک و مذاہب کے علماء نے خود انجام دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 499698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش