0
Wednesday 14 Jun 2017 11:09

سیاست علوی (ع) نہج البلاغہ کے آئینہ میں

سیاست علوی (ع) نہج البلاغہ کے آئینہ میں
تحریر: جان محمد حیدری

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سیاست  عدالت، حریت و آزادی اور ہدایت بشریت کے کلیدی اور ٹھوس اصولوں پر مبنی تھی، ہم ذیل میں سیاست علوی کے تین بنیادی اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں
1۔ عدالت محوری:
حضرت امیر المومنین کی سیاست یہ تھی کہ معاشرے کو اسلامی عدالت کے ساتھ چلایا جائے۔ امام کی سیاست یہ تھی کہ حاکمیت اور حکومت ہدف اور مقصد نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے اسلام کو بچانے کا اور اس کی سیاسی حکمت عملی کو انجام دینے کا۔ اس سلسلے میں خود حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں کہ: یہاں تک کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کچھ لوگ اسلام سے پلٹ گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نابود کر دیں، (یہاں پر ) میں ڈرگیا کہ اگر اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں تو شاید ان کی نابودی اور اسلام میں شگاف کا منظر دیکھوں اور یہ مصیبت میرے لئے حکومت اور خلافت چھوڑنے سے زیادہ سخت ہے۔(1) یہاں سے ہم امام اور معاویہ کی سیاست میں فرق کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ معاویہ اصلاح امور کے نام پر ہر چیز کرنے کو تیار تھا، چاہے وہ اسلام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، جبکہ حضرت امیر المومنین (ع) ہر کام کو انجام دیتے تھے مگر اسلام کے دائرے میں رہ کر۔ جب حضرت امیر المومنین(ع) نے زمام حکومت کو ہاتھ میں لیا تو فرمایا کہ: اگر خدا کا عہد و پیمان نہ ہوتا علماء اور دانشوروں سے کہ وہ ظالموں کے بھرے پیٹ اور مظلوموں کی بھوک کے سامنے خاموش نہ رہیں، میں خلافت کی رسی کو چھوڑ دیتا اور اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔(2)

معاویہ اپنی سیاست میں اگر مکر و فریب سے کام نہ لیتا تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت امیر المومنین مشروع اور جائز سیاست میں کامیاب رہے، لیکن نامشروع اور ناجائز سیاست میں کبھی آگے نہ بڑھے۔ خود حضرت امیر المومنین اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست دان نہیں ہے، لیکن دھوکہ بازی اور گناہ کرتا ہے، اگر دھوکہ بازی ایک بری صفت نہ ہوتی تو میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست دان شخص ہوتا۔(3) یا ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: اگر دھوکہ دہی آتش جہنم کا سبب نہ ہوتی تو میں سب سے زیادہ فریب دینے والا انسان ہوتا۔(4) کچھ لوگوں نے معاویہ کی حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا کہ معاویہ حضرت امیر المومنین (ع) سے زیادہ عقلمند ہے، البتہ ایسے لوگ عقل کی صحیح تعریف نہیں جانتے تھے۔ کسی نے حضرت امام صادق (ع) سے پوچھا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: عقل وہ ہے جس کے ذریعے سے خدا کی عبادت کی جائے اور بہشت کو خریدا جائے۔ پوچھنے والے نے پوچھا، تو پھر معاویہ کی عقل کیا تھی۔ حضرت نے فرمایا: "تلک النکراء تلک الشیطنة، وھی شبیھة بالعقل ولیست بالعقل" وہ دھوکہ بازی تھی، وہ شیطنت تھی، وہ ظاہری شباہت عقل سے رکھتی تھی، لیکن عقل نہیں تھی۔(5)

2۔ امام کی سیاست گمراہ افراد سے دوری:
حضرت امیر المومنین (ع) کی سیاست لوگوں کے ساتھ دو طرح کی تھی، وہ افراد جو لائق اور قابل تھے، ان کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے، جیسے مالک اشتر، عمار یاسر (رحمۃاللہ)، کمیل بن زیاد وغیرہ اور جو افراد اس قابل نہیں تھے، ان کو اپنے سے دور کر دیتے تھے، کیونکہ حضرت امیر المومنین (ع) کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جیسا کہ خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ: "میں کبھی بھی گمراہوں کو اپنا بازو قرار نہیں دیتا۔(6) سقیفہ کے برقرار ہونے کے بعد ابوسفیان جو کہ مختلف وجوہ کی بناء پر ابوبکر کی حکومت سے خوش نہیں تھا، کچھ افراد کے ساتھ امام کے حضور آیا، تاکہ حضرت (ع) کی بیعت کرے، اسی ضمن میں اس نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں عظیم لشکر کے ساتھ آپ کی حمایت کروں۔ امام، جو ابو سفیان کو اچھی طرح سے جانتے تھے، اسکی ان باتوں میں نہیں آئے اور اسکے جواب میں فرمایا: اے لوگو! فتنہ کی پہاڑ جیسی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے توڑ دو۔ اختلافات اور بکھرنے سے باز آؤ، بلند پروازی اور برتری کے تاج کو اپنے سر سے اتار پھینکو۔(7) امام (ع) اپنی سیاسی بالا نظری کی وجہ سے جانتے تھے کہ یہ وقت حکومت ہاتھ میں لینے کا وقت نہیں، اسی لئے جملہ کے بعد حضرت نے فرمایا: کچے پھل کو توڑنا ایسا ہے جیسے نمکین زمین میں بیج بونا۔

3۔ امام (ع) کی سیاست، آزاد منش افراد کی حمایت:
امام نے ہمیشہ آزاد منش افراد کی حمایت کی، اس سلسلے میں جو اہم واقعہ ہم کو امام کی زندگی میں نظر آتا ہے، وہ ابو ذر غفاری کی جلا وطنی کا ہے۔ ویسے تو کئی واقعات ہیں، لیکن کیونکہ یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے کہ جب امام کے ہاتھ میں زمام حکومت نہیں اور حکومت وقت صحابی رسول کو جلاوطن کر رہی ہے۔ مدینہ کے اندر کرفیو نافذ ہے، خلیفہ وقت کی طرف سے حکم تھا کہ کوئی بھی ابوذر سے خدا حافظی نہ کرے اور اس نے مروان کو حکم دیا کہ جو کوئی بھی خدا حافظی کے لئے آئے، اسکو پکڑلو۔ لیکن امام نے حکومت کے ان احکامات کی پرواہ نہ کی اور اپنے فرزندان گرامی حسن و حسین، اپنے بھائی عقیل اور عمار یاسر کے ساتھ ابوذر کو رخصت کرنے کیلئے گئے۔ اسی اثناء میں کہ جب امام حسن ابوذر سے باتیں کر رہے تھے، مروان نے پکارا کہ اے حسن، خاموش ہو جاؤ، کیا خلیفہ کا حکم نہیں سنا کہ ابوذر سے باتیں کرنا منع ہے۔ امام علی نے آگے بڑھ کر مروان کے سامنے آئے اور فرمایا دور ہو جاؤ، خدا تمہیں آتش جہنم میں ڈالے۔ امام اور ان کے چاہنے والوں کا یہ کام صد در صد سیاسی تھا اور حکومت وقت کے خلاف تھا، کیونکہ ابوذر کا عمل حکومت کے خلاف صحیح ہے اور حکومت کا رویہ غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ (خطبہ ۲۶ نہج البلاغہ)
2۔ (خطبہ ۳ نہج البلاغہ)
3۔ (خطبہ ۲۰۰،نہج البلاغہ)
4۔ (منھاج البراعة جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۶
5۔ اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۱۱ باب العقل والجہل جلد ۳
6۔ (کہف ۵۱)
7۔ خطبہ ۵ نہج البلاغہ
خبر کا کوڈ : 645887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش