0
Monday 22 Jun 2009 10:04

مسئلہ کشمیر اور امریکہ... ثالثی نہیں یو این قرار دادوں پر عملدرآمد

مسئلہ کشمیر اور امریکہ... ثالثی نہیں یو این قرار دادوں پر عملدرآمد
صدر بارک حسین اوبامہ نے کہا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی نہیں کرائیگا تاہم وہ اس مسئلہ کے حل کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں صدر اوبامہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان امریکہ کے دو عظیم اتحادی اور دوست ہیں اور ہمیں دوستوں کے درمیان کشیدگی اور لڑائی سے دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ہم دونوں ممالک کو ڈکٹیٹ نہیں کر اسکتے البتہ کشیدگی کے خاتمے سے دونوں ممالک میں خوشحالی یقینی ہو جائے گی۔
بارک حسین اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سے زائد بار یہ کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں اور وہ برسر اقتدار آ کر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اُن کے پیشرو ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن بھی میاں نوازشریف سے یہ وعدہ کرتے رہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن اپنے پیشرو کی طرح بارک اوبامہ بھی اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدے سے پہلوتہی کرنے لگے‘ توقع تھی کہ ہالبروک کو اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں میں مسئلہ کشمیر کو بھی شامل کریں گے مگر بھارت کے دبائو پر اوبامہ نے اسے صرف افغان پاک کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ اب بھی انہوں نے مسئلہ کشمیر کو پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ تو قرار دیا ہے مگر اسے حل کرانے کے لئے کوئی یقین دہانی کرانے کے بجائے دونوں ممالک کو مذاکرات کی ترغیب دی ہے حالانکہ پاک بھارت مذاکرات کا یہ سلسلہ ساٹھ کے عشرے سے جاری ہے اور بھارت نے ان مذاکرات کو ہمیشہ وقت گزاری اور مسئلہ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کے لئے استعمال کیا۔
پاکستان یا کشمیری عوام میں سے کسی نے آج تک امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے ثالثی کرانے کی درخواست نہیں کی، پاکستان نے تو کبھی بھارت کی طرح یہ بھی نہیں کہا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے بلکہ کشمیری عوام اور قائدین کی طرح پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں کے مطابق جو بھارت کی درخواست پر منظور ہوئیں جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے اور کشمیری عوام کو یہ آزادانہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں کیونکہ تقسیم برصغیر کے ایجنڈے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں انہیں یہ حق دیا گیا ہے۔ پاکستان عالمی پلیٹ فارموں پر متعدد بار یقین دہانی کرا چکا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے آزادانہ فیصلے کو من و عن تسلیم کریگا لیکن بھارت کو چونکہ معلوم ہے کہ کشمیری عوام کا فیصلہ اس کے غیر قانونی تسلط کے خلاف ہو گا اس لئے وہ عالمی ادارے کی قراردادوں کے علاوہ جواہر لال نہرو کے دعوئوں کو بالائے طاق رکھ کر فوجی قوت کے ذریعے کشمیری عوام کی حق و انصاف پر مبنی جدوجہد کو کچل دینا چاہتا ہے کیونکہ وہ نہ تو عالمی برادری کے سامنے اپنے موقف کی صداقت ثابت کر سکتا ہے اور نہ کشمیری عوام اس کے ساتھ رہنے کیلئے تیار ہیں۔
جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا خطے میں کشیدگی کا خاتمہ ممکن نہیں اور اوبامہ کے بقول امریکہ کے دو عظیم اتحادی اور دوست پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے لہٰذا امریکی صدر بارک اوبامہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ثالثی سے انکار کرنے اور مذاکرات پر زور دینے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے اپنا فرض اور کردار ادا کریں پوری دنیا کے مسلمان یہ سمجھتے ہیں امریکہ بھارت اور اسرائیل کا سرپرست اور اتحادی ہے اور مسلمانوں سے اپنے بغض کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں پر زور نہیں دیتا جن میں کشمیری اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی گئی‘ امریکہ دارفر کی عیسائی اقلیت کا ساتھ دے رہا ہے وہ مشرقی تیمور کی عیسائی اقلیت کو ایک مسلم ریاست سے آزادی دلانے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرا چکا ہے مگر جب کشمیر کی باری آتی ہے صدر اوباما ایک انتہا پسند عیسائی کی طرح دوطرفہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور اسلام کے علاوہ مسلمانوں سے اپنے تعلق کو بالکل بھول جاتے ہیں۔
حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے صدر اوبامہ اور موجودہ امریکی انتظامیہ کو کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت پر آمادہ کرے اور باور کرائے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا بھارت ہمارا دشمن ہے اور اس کے ساتھ نہ تو تجارت ہو سکتی ہے اور نہ تعلقات نارمل ہونے کا کوئی امکان ہے، امریکی حکومت کو بھی منافقانہ رویہ ترک کر کے پاکستان کے منصفانہ موقف کی حمایت کرنی چاہئے اور بھارت کو مجبور کرنا چاہئے کہ جموں و کشمیر سے مکمل فوجی انخلا کا اعلان کرے تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کا اہتمام ممکن ہو اور کشمیری عوام کے مصائب کا خاتمہ ہو۔ یہی برصغیر میں کشیدگی کے خاتمے کا واحد طریقہ ہے۔


خبر کا کوڈ : 7048
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش