0
Saturday 3 Mar 2012 00:27

استعمار کا حقیقی دشمن

استعمار کا حقیقی دشمن
تحریر: ارشاد حسین ناصر 
 
 آج ہمارے وطن کی فضاؤں میں "امریکہ مردہ باد" کے فلک شگاف نعرے لگائے جا رہے ہیں، احتجاجی دھرنے دیئے جا رہے ہیں، امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی کی آخری حدود چھو رہے ہیں، اس لئے کہ امریکہ نے کچھ عرصہ پہلے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے کئی پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا تھا، جس پر پوری قوم نیٹو اور امریکہ کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہے۔ چالیس سے زائد مذہبی جماعتوں جن میں کئی فرقہ وارانہ دھشتگردی میں ملوث ہونے کے باعث کالعدم قرار پائی تھیں بھی امریکہ و نیٹو کے خلاف دفاعِ پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو چکی ہیں، ان کی سربراہی مولانا سمیع الحق کر رہے ہیں، جو قبل ازیں متحدہ مجلس عمل و دفاع افغانستان کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی اتحادی سیاست کا تجربہ کر چکے ہیں۔
 
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو امریکہ سے پاکستانی عوام ہر دور میں نفرت کرتے آئے ہیں، تھوڑا عرصہ پہلے یہ نفرت پاکستانی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور کئی بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں، سی آئی اے کی ملک بھر میں دہشتگردی اور اس میں ملوث شدت پسند گروہوں کی خفیہ و علانیہ مدد اور عالم اسلام کے مقابل اسرائیل کی کھلم کھلا سرپرستی، عراق پر یلغار، قبضہ اور بعد ازاں افغانستان پر حملہ کے باعث امریکہ سے نفرت میں اضافہ ہوا۔ اس وقت امریکہ پاکستان تعلقات شدید کھچاؤ کا شکار نظر آرہے ہیں۔
 
آج پاکستان کی کئی مذہبی جماعتیں ہمیشہ کی طرح دوغلے پن کا شکار نظر آ رہی ہیں، ان میں فکری و عملی تضادات کی بھرمار ہے اور کل کی طرح آج بھی انکے ظاہر اور باطن میں بہت زیادہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ 80ء کی دہائی میں چلے جائیں تو آج امریکہ مخالفت کا دم بھرنے والی کئی مذہبی سیاسی جماعتیں و گروہ CIA کے ہمرکاب و ہم رفتار دکھائی دیں گے، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ CIA کے ساتھ مل کر افغانستان میں روس کے خلاف "جہاد" کرنے کیلئے حاصل کردہ دولت اور روابط و طاقت کی بنیادوں سے ہی ان سیاسی مذہبی جماعتوں نے اپنا "قد" بڑھایا ہے، اگر CIA کے ساتھ مشترکہ جہاد نہ کیا ہوتا اور پاکستانی آمر ضیاءالحق جسے CIA کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی کی "نوکری" نہ کی ہوتی تو ممکن نہیں تھا کہ سیاسی مذہبی جماعتیں اس قدر مضبوط اور قوی ہو جاتیں کہ اقتدار پر قبضہ اور ملکی سلامتی اور دفاع کا ذمہ اپنے سر لے لیتیں، حالانکہ یہ کام تو ہماری افواج کا ہے۔ 

یہ سب دراصل افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ کی مدد اور خدمات کا حاصل ہی تو ہے۔۔۔اگر ہم آج کے ان امریکہ مخالفوں کو دیکھیں تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ دشمنی اور اس سے نفرت کی کہانی ہمارے ملک میں زیادہ پرانی نہیں، اس کے باوجود یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ امریکہ کی تمام تر سازشوں اور خواہشوں کے باوجود یہاں اس کے خلاف عوامی رائے ہمیشہ منفی رہی ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ دوست ملک ایران میں 1979ء میں انقلاب آیا جو درحقیقت امریکہ کی بہت بڑی شکست تھی، شاہ ایران محمد رضا پہلوی امریکہ کا سب سے بڑا ایجنٹ تھا، جس نے امریکہ کو تہران میں ایسا سفارت خانہ بنا کر دیا ہوا تھا جس میں پورے خطے کی جاسوسی کی جاتی تھی اور جو لوگ امریکہ مخالفت میں پیش پیش ہوتے تھے انہیں ساواک کے ذریعے "چُپ" کرا دیا جاتا تھا۔ 

انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رہ نے انقلاب کی جدوجہد کے دوران ہی خود کو شرقی و غربی بلاکوں سے جدا رکھا، حالانکہ جہاں اس وقت تمام اسلامی ممالک سمیت دنیا کے تمام ممالک شرقی و غربی بلاکوں میں منقسم ہو چکے تھے۔ امام خمینی رہ کی بصیرت کو سلام کہ انہوں نے " لاشرقیہ، لاغربیہ" کا فکر انگیز شعار متعارف کروایا اور یہ فرمایا کہ امریکہ و روس قینچی کے دو پھلوں کے مانند ہیں جو کسی کمزور کو کاٹنے کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ "مسلمانوں کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ ہے۔" 
امام خمینی رہ کے امریکہ کے خلاف اظہارات و پیغامات جس کسی بھی میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے تھے تو لوگ اس پر لبیک کہتے تھے اور یہ فخر کرتے تھے کہ بیسیوں اسلامی ممالک ہونے کے باوجود ایک آواز تو ایسی ہے جو امریکی استعمار کو للکارتی ہے، جرأت و غیرت کا مظاہرہ کرتی ہے اور استعماری چنگل سے آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ امام خمینی رہ نے فلسطین کے مظلوم و ستم رسیدہ مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم اور تجاوز کا ذمہ دار بھی امریکہ کو سمجھتے ہوئے اس کے خلاف نفرت کے اظہار کا درس و سبق دیا۔
 
امریکہ کی انسان، سماج، امن اور اسلام و امت مسلمہ کے خلاف دہرے معیارات پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے امام خمینی رہ کے فرامین اور خواہشات کے عین مطابق پاکستان میں عاشق امام، روح ملت، سفیر انقلاب، ارض وطن کے عظیم سپوت ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید نے اول روز سے لبیک کہا اور پاکستان میں امریکی استعمار کو للکارا، فلسطین کے مظلوم و ستم رسیدہ عوام کے حقوق کی بحالی اور امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے مظالم کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کو منظم کیا۔ امام خمینی رہ کی امریکہ دشمنی کا سبق نوجوانوں میں راسخ کیا اور ملت کی بیداری، تحرک اور وحدت کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔
 
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اس فکر کو لوگوں میں راسخ کرنے کیلئے مسلسل فعالیت دکھاتے رہے حالانکہ ہم اکثریتی آبادی نہیں تھے، ہمارا تنظیمی و جماعتی کردار اور نام بھی اس زمانے میں اس قدر مربوط اور منظم نہیں تھا اور سب سے بڑی یہ بات کہ ملک کی باگ دوڑ ایک فوجی آمر کے پاس تھی، جو امریکہ کا غلام تھا اور ملک کی نامور مذہبی قیادت و جماعتیں CIA کے ساتھ مل کر روس کے خلاف برسرپیکار تھیں، امریکہ مذہبی جماعتوں اور شخصیات کو ڈھیروں ڈالرز دیتا تھا۔ یہ امریکی ڈالرز تھے مگر سعودیہ کے کلمہ شریف والے پرچم میں لپٹے ہوتے تھے، اس لئے ان پر اسلام کی مہر لگ جاتی تھی، ایسے میں وطن عزیز میں امریکی استعمار کے خلاف آواز بلند کرنا یقیناً خطرات کا کھیل تھا۔ 

خطرات کے اس کھیل میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی مخالفت اپنے پرائے کرتے تھے، مگر ڈاکٹر صاحب، امام خمینی رہ کی فکر کے پرچارک اور ان کے نمائندے، عالم ربانی علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کی روحانی و معنوی قیادت کے ہمرکاب تھے۔ علامہ عارف حسین الحسینی نڈر، بے باک اور جرأت رندانہ کے مالک قائد تھے جن کے روابط ڈائریکٹ امام خمینی رہ کے ساتھ تھے، ان کا فرمانا تھا کہ امام خمینی کے ذریعے دنیا کے تمام مسلمانوں پر حق کی حجت اتمام ہو چکی ہے، جس پر جان تو دی جا سکتی ہے مگر ان کے راستے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا، لہٰذا یہ دونوں شخصیات پاکستان میں اس وقت امریکہ دشمنی کا سمبل (Symbol) بنی دکھائی دیتی تھیں۔
 
یہ بات بھی تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ روس کے خلاف جنگ افغانستان کے دنوں میں پاکستان میں بعض بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی امریکہ دشمنی کا تاثر دے رہی تھیں، مگر ان کی حیثیت اس لئے قابل مثال و تقلید نہیں تھی کہ یہ لوگ مغرب کے مخالف اور مشرقی بلاک کے غلام بنے ہوئے تھے، جبکہ امام خمینی رہ کے پیروکاران و جانثاران کو یہ سعادت و خوش بختی حاصل تھی کہ ان کا نعرہ ہی "لاشرقیہ، لاغربیہ" تھا یہ "لا الہٰ الا اللہ" کا دم بھرنے والے تھے اور اس شِرک سے پاک تھے جو مشرق و مغرب سے وابستہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کا وطیرہ تھا۔
 
آج وطن عزیز میں تمام مذہبی جماعتیں امریکہ دشمنی کا شعار بلند کر رہی ہیں اور امریکہ کی اسلام و مسلمین اور انسانیت کے خلاف کارروائیوں کے خلاف شاہراہوں پر دکھائی دیتی ہیں، یہاں مظاہروں میں امریکی پرچم جلائے جاتے ہیں، گو امریکہ گو کے نعرے لگائے جاتے ہیں، یہ بات یقیناً اس ملک اور ہمارے لیے بھی خوش آئند ہے کہ کل تک صرف ہم مسلمانوں کی مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھ کر اس کے پرچم کو پاؤں تلے روندتے تھے، اسے نذر آتش کرتے تھے، امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے، امریکہ کو اس ملک سے نکال باہر کرنے کی بات کرتے تھے، اور اس سے نفرت کا ہر انداز اپناتے تھے اور آج اس ملک کی غالب اکثریت اس روش و راہ کو اپنائے ہوئے ہے، اس کے مظالم سب پر آشکار و ثابت ہو چکے ہیں۔
 
اس کے اُمت مسلمہ کے خلاف اقدامات نے ہی اس کے خلاف نفرت کو شدید کر دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بات بھی درست ثابت ہو گی کہ آج عرب بادشاہوں اور آمریتوں کے خلاف اُٹھنے والی لہر دراصل شیطان بزرگ اور اس کے چیلوں کے خلاف نفرت کا بھرپور اظہار ہے، شاہان عرب نے امریکہ کے قدموں میں جس طرح ماتھا ٹیکا ہوا تھا اور اپنے اپنے ممالک میں امریکی استعمار کو جس انداز میں دخیل کیا ہوا تھا، اس کا منطقی نتیجہ اس کے سوا ہو نہیں سکتا تھا کہ عوام اُٹھ کھڑے ہوں اور امریکی چنگل میں پھنسے ہوئے اپنے وطن، اپنی اقتصاد اور وسائل کو آزاد کروا لیں۔

حضرت امام خمینی رہ نے مسلمان ریاستوں کے سربراہوں کو بالخصوص اور اُمت اسلامی کو بالعموم خائن، بددیانت، عیاش اور ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے اور ان سے برسرپیکار ہو کر اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لینے کی جو دعوت بار بار دی، آج اس کی عملی تصویر دکھائی دے رہی ہے۔ آج امریکہ کو مصر، تیونس، لیبیا، عراق، افغانستان، پاکستان، بحرین، یمن میں شکست کا سامنا ہے، مگر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ دشمنی کا دم بھرنے والے روس امریکہ افغان جنگ کا دور اور تاریخ دہرا رہے ہیں اور شام میں ڈالرز کی جھنکار میں اسرائیل و امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں، لیبیا میں بھی اسی گروہ جس کے نام پر امریکہ نے امت اسلامیہ کو شدید چوٹیں لگائی ہیں، مشترکہ طور پر جہاد کر رہے تھے۔
 
یہاں پر جو لوگ نیٹو کے خلاف جہاد کے نعرے لگا رہے ہیں، لیبیا اور شام میں اتحادی بنے ہوئے ہیں اسی سے تو ان کی استعمار دشمنی کا پول کھل جاتا ہے، جبکہ اس کے مقابل امام خمینی رہ اور پاکستان میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی استعمار دشمنی کی مثال روشن اور قابل تقلید ہے، جو ایک لحضہ کیلئے بھی استعمار سے مفاہمت کو تیار نہیں تھے، انہیں پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت کی روشن مثال کے طور پر دیکھنے کیلئے ان کا امام خمینی رہ کے حکم پر حج پر جا کر امریکہ و اسرائیل کے خلاف حرم الٰہی میں شعار بلند کرنا، بینرز آویزاں کرنا اور پمفلٹ بانٹنے کا عمل بھی ہمارے سامنے ہے، امریکی پٹھوؤں سعودی حکمرانوں کے تمام تر مظالم کی داستان کے باوجود اس راہ کو اختیار کرنا، انکے جرأت مندانہ کردار کو آشکار کرتا ہے۔
 
امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کو تحفظ دینے کیلئے انسانی، اخلاقی، عالمی قوانین کو پاؤں تلے روندا اور مسلمانوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے والے عیاش و فحاش لٹیرے ان پر مسلط کئے، مگر ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ان لٹیروں کے مقدر میں رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آیا ہے۔ امریکہ کی اس شکست و ریخت پر اُن شہداء و بزرگان کی ارواح شاد ہونگی، جنہوں نے امریکہ کے خلاف عوام کو بیدار کرنے اور انہیں ایستادہ کرنے کیلئے قربانیوں کی داستانیں رقم کیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید پاکستان میں یقیناً اس کے سَرخیل تھے۔ ہم ان کی 17ویں برسی (7مارچ) کے موقعہ پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 142155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش