0
Sunday 1 Nov 2009 14:05

مسئلہ کشمیر حل کرانے سے امریکی انکار اور ہمارا قومی مفاد

مسئلہ کشمیر حل کرانے سے امریکی انکار اور ہمارا قومی مفاد
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانا چاہتا ہے،تاہم وہ اس کیلئے کسی فریق پر دبائو نہیں ڈالے گا۔اسلام آباد میں مختلف وفود سے باتیں کرتے ہوئے ہلیری کلنٹن نے کہا کہ تاہم پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ہلیری کلنٹن نے دورۂ پاکستان میں ہر اس موضوع پر اظہار خیال کیا،جس سے امریکہ اور اسکے اتحادی یورپ کو دلچسپی ہے۔ ان کا یہ دورہ عوامی رابطے کی امریکی مہم کا حصہ تھا اور ہماری منتخب حکومت نے امریکی وزیر خارجہ کو عوام کے منتخب نمائندوں،سول سوسائٹی کے ارکان،قبائلی عمائدین حتٰی کہ طلبہ اور خواتین سے براہ راست رابطے کیلئے ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ ہلیری کلنٹن امریکہ کا سافٹ امیج اجاگر کرنے اور پاکستان سے امریکی دلچسپی کے ثبوت فراہم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئیں،اس کا علم تو امریکی سفارت خانے اور دفتر خارجہ کو ہو گا،لیکن پاکستانی عوام کو اس دورے سے صرف یہ جاننے کا موقع ملا ہے کہ امریکہ کو نہ تو پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی وجوہ جاننے اور ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ اسے کشمیری عوام کے مسائل اور مصائب کا ادراک ہے،مسئلہ کشمیر کے حل،ڈرون حملوں کی بندش،کیری لوگر بل کی متنازعہ شقوں کی واپسی اور پاکستان ہی نہیں،عالم اسلام میں پائی جانے والی نفرت کے خاتمے کیلئے امریکی وزیر خارجہ نے کوئی یقین دہانی کرانی ضروری نہیں سمجھی۔البتہ یہ بھاشن ضرور دیا ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے،دہشت گردوں کو ختم کرنے اور بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے فوری اور موثر اقدامات کرے۔جبکہ امریکی امداد پر بھی اعتراضات اٹھانے کے بجائے خوشدلی سے قبول کرے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ کشمیر اور پانی کے مسائل حل کرانے کیلئے بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے،امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہو چکا ہے،جس کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ واشنگٹن اپنے مفادات کیساتھ اسلام آباد کی ترجیحات یعنی کشمیر اور پانی کو بھی اہمیت دے۔ لاہور کی ملاقات میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بھی ہلیری کلنٹن سے یہی بات کہی۔لیکن ہلیری کلنٹن نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم دونوں ممالک پر مذاکرات کیلئے زور دے رہے ہیں،تاہم دبائو نہیں ڈال سکتے۔ امریکہ کی طرف سے دو طرفہ مذاکرات کی خواہش کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ’’بھارت مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کیلئے کسی غیرملکی دبائو کو قبول نہیں کریگا،ہم نے او آئی سی کی مداخلت بھی قبول نہیں کی،او آئی سی کی طرف سے کشمیر کیلئے خصوصی نمائندے کا تقرر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ہم نے او آئی سی سے احتجاج بھی کیا ہے۔‘‘
بھارت پاکستان کی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد بھی داخل کر رہا ہے اور پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنے کیلئے ہمارے دریائوں پر بند باندھ کر پانی بھی روک رہا ہے،62 چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر جاری ہے،جن کی تکمیل کے بعد پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا جبکہ اس وقت بھی پانی کی کمی کی وجہ سے پاکستانی عوام چینی،آٹا اور دیگر اشیاء کی کمیابی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا رونا تو اب وزیر داخلہ رحمان ملک بھی رو رہے ہیں،مگر یہ مسئلہ عالمی اداروں کے سامنے اٹھانے سے گریز کیا جا رہا ہے جبکہ پانی کے مسئلہ پر حکومت مسلسل مجرمانہ غفلت برت رہی ہے حالانکہ آبی ماہر یہ انتباہ کر چکے ہیں کہ آئندہ عالمی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہونگی لیکن پاکستانی حکمران جنگ کی دھمکی دینا تو درکنار،بھار ت سے موثر احتجاج کیلئے بھی تیار نہیں۔
وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر کسی فریق کو دبائو میں نہ لانے کی بات اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ بھارت کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔حالانکہ صدر بارک اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا جبکہ ہلیری کے شوہر نامدار کلنٹن نے 1999ء میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر نہ تو پاک بھارت کشیدگی ختم ہو سکتی ہے اور نہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہے۔مگر امریکہ شاید یہ چاہتا بھی نہیں،وہ بھارت سے سٹرٹیجک تعلقات قائم کر رہا ہے۔ اس نے بھارت کو سول نیوکلیئر تعاون فراہم کر کے جوہری کلب کا رکن مان لیا ہے،چین کیخلاف امریکہ اور بھارت کے عزائم یکساں ہیں،جبکہ پاکستان کا اسلامی تشخص اور نیوکلیئر پروگرام بھی دونوں کیلئے سوہان روح ہے۔ اس لئے اب یہ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ غلامی کی دستاویز کیری لوگر بل کے عوض ملنے والی خیرات پر خوش ہونے کے بجائے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شرکت کے عوض امریکہ سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی پر زور فرمائش کرے اور اگر وہ اس پر تیار نہیں جس کا سو فیصد امکان ہے،تو پھر اپنے زور بازو کو آزمانے کی تیاری کرے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہ ہوا تو بھارت اپنی سازشیں جاری رکھے گا،امریکہ اس کی پشت پر ہے اور ملک ریگستان میں تبدیل ہو کر تباہی کے کنارے جا پہنچے گا،اس لئے قومی مفادات کو اولیت دی جائے اور امریکی جنگ پر اپنی توانائیاں وسائل اور افرادی قوت ضائع کرنے کے بجائے بھارت کے عزائم کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جائے،یہی قوم کی خواہش ہے،امریکہ سے امید رکھنا خود فریبی ہے۔
خبر کا کوڈ : 14223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش