0
Friday 20 Apr 2012 17:08

کچھ کراچی کیلئے بھی!

کچھ کراچی کیلئے بھی!
تحریر: محمد زاہد

آپ ذرا ایک لمحے کے لیے ہی تصور کرلیں کہ آپ اپنے گھر کے واحد چشم و چراغ ہیں، آپ کی بوڑھی ماں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کی روشنی آپ ہی ہیں، اپنی بیوی، بچوں اور عزیزوں کی زندگی کے آنگن میں خوشیوں کے دیئے آپ سے جلتے ہیں، آپ کے گھر کے چولہے کی آنچ آپ کے دم سے ہے، صبح آپ گھر سے نکلتے ہیں اور شام یا رات گئے لوٹتے ہیں، اگر کسی دن جب آپ زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے لیے معاش کی تلاش میں نکلیں اور نکلتے ہی کسی چوراہے، کسی فٹ پاتھ یا کسی سڑک کے کنارے آپ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جائیں، آپ کسی خودکش بم دھماکے کی زد میں آکر کسی عمارت کے ملبے تلے دب جائیں، کسی شام آپ ” کٹی پہاڑی“ پر کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں اور آپ کی کٹی پٹی لاش وہیں پڑی ملے، تو ذرا تھوڑی دیر کے لیے سوچیے! آپ کے گھر والوں کی کیا حالت ہوگی؟ 

آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ کے خوشیوں کے آنگن میں کیسا کہرام مچ اٹھے گا، یہ خیال ہی آپ کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے کہ آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کے گھر والے کس کے سہارے جیئں گے؟ بالکل یہی حالت، یہی صورتحال اور یہی سچویشن آج کراچی کے شہریوں کی ہے ،جو ایک عرصے سے اسی خوف کے سائے تلے جی رہے ہیں، ہر روز دس سے بارہ افراد کی نشانہ کشی ( target killing) ہو رہی ہے، ہفتے میں دو سے تین ہڑتال کی چھٹیاں، پتھارے، ہوٹل اور گاڑیوں کا نذرِآتش ہونا، سڑکوں میں خون اور فضا میں خوف و سراسیمگی کراچی کی معمولات زندگی کا حصہ بن کر رہ گئیں ہیں۔

یہ شہر کبھی عروس البلاد کے نام سے مشہور تھا، لیکن آج اس ”شہروں کی دلہن“ کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے؟ یہ زخموں سے چور اور لہولہان ہے، اس کی سوگوار فضائیں آہ و بکا اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں، آشیانے ویران ہو رہے ہیں، بستیاں اجڑ رہی ہیں، بچے یتیم، بیویاں بیوہ اور ماؤں کی آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں، گلیاں سنسان، سڑکیں خون سے رنگین اور ہواﺅں میں تخریب کی ایک بُو سی رچی بسی ہے، سرِراہ موت ننگا ناچ ناچ رہی ہے، مسجدوں، مزاروں اور بازاروں میں انسانی اعضاء اور خون کے لوتھڑے بکھرے پڑے ہیں، پورے شہر میں ہر سو خوف و ہراس کا سماں اور ہو کا عالم ہے، دن میں بھی تیرگی چھائی رہتی ہے، شام ہوتے ہی ہر طرف الو بولنے لگتا ہے، دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، دن دہاڑے گلی کوچوں میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں بے شمار گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہیں، کبھی کسی ”پردیسی“ کے ہوٹل، تھلہ یا ریڑھی کو راکھ کا ڈھیر بنتے دیر نہیں لگتی، کبھی کبھی تو غریبِ شہر کے بے جان رکشوں کو بھی بلاقصور نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔

یوں تو پورے ملک کی ہی صورتحال یہی ہے، پوری قوم اس وقت بدامنی اور کرب و بلا کے طوفان خیز بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ وطن عزیز پر عجیب و غریب اور مختلف مصائب و مسائل کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، کراچی سے کوئٹہ اور لاہور سے سوات تک پورا ملک قتل و غارت گری اور سفاکیت کے طوفان و آندھی کی شدید لپیٹ میں ہے، بلاامتیاز پوری ہی قوم خودکش حملوں کے ملبے تلے کراہ رہی ہے، ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ایک نیا حادثہ، ایک نئی افتاد اور ایک نیا بحران امڈ آتا ہے، مگر بے وجود حکومت کے بے جان حکمرانوں کو اس کی کوئی خبر نہیں، وہ ان تمام باتوں سے بے نیاز پارلیمنٹ کے بالا خانوں میں مقید بحسن و خوبی امریکہ کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ تو وہ اپنے کل کے دشمنوں کے ساتھ اقتدار کی بندر بانٹ کے ذریعے کر رہے ہیں۔
 
بلوچستان میں یہود و ہنود (اسرائیل و بھارت) اپنے مکارانہ گٹھ جوڑ سے شورش، فتنہ اور انتشار پھیلا رہے ہیں، سرحد و قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور ڈرونز برسائے جا رہے ہیں، پنجاب وفاق کے ساتھ دست و گریباں ہے، جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی لسانیت، فرقہ واریت و عصبیت کی آگ میں جھلس رہا ہے، اس کی گردن کو انسانیت کے دشمنوں نے اپنے پنجہء خونیں میں دبوچ رکھا ہے، ہر طرف خون اور اشکوں کی برسات ہو رہی ہے، پتہ نہیں! وہ کونسی آفتِ بَلاخیز رہ گئی ہے، جو اس کے مکینوں پر قیامت صغریٰ بن کر نہ ٹوٹی ہو۔؟

ملک کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جہاں پوری قوم دل گرفتہ ہے، وہیں ”مِنی پاکستان“ کے حالات خون کے آنسو رُلانے کے لیے کافی ہیں، شکستہ دل، مضطرب دھڑکنوں اور بے ترتیب سانسوں کی حامل اس عجیب مخلوق کی داستان بھی نرالی ہے، جسے سن کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، اس بدنصیب قوم کا دُکھڑا ہی یہی ہے، ایک ایم پی اے، ایک سابق ایم این اے اور ایک سیکٹر انچارج کے قتل پر پورے شہر میں کُہرام مچ اٹھتا ہے، پُرامن یومِ سوگ پر بھی 40 سے 42 گاڑیاں جلا دی جاتی ہیں، پاکستان کی 70 فیصد انکم کا ذریعہ کراچی کی صنعتیں ہیں، لیکن اب ان ساری صنعتوں کے مالکان آئے روز کی ہڑتالوں، بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کی وجہ اپنی ساری اِنویسٹمنٹ بیرون ِشہر اور غیر ممالک میں لگا رہے ہیں، اسی وجہ سے پورے ملک کی معیشت ڈی گریڈ ہوتی جا رہی ہے، اس کی کسی کو چنداں فکر نہیں، فکر ہے تو بس اپنی وزارت اور اپنے اسٹیٹس کی ہے!

کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟ کراچی میں لمحہ بھر کے لیے بھی کیوں امن قائم نہیں رہ سکتا؟ انسانیت کے مسلح دشمن کھلے عام دندناتے رہتے ہیں، انہیں کوئی لگام کیوں نہیں ڈال سکتا؟ اس کے لیے کتنی ساری میٹنگیں ہوئیں؟ کتنے سارے ہنگامی اجلاس بلوائے گئے؟ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بلند بانگ بیانات بھی کام نہ آئے اور عبدالرحمن ملک کے لندن کے مسلسل طواف بھی سعی لاحاصل رہے، ایسے میں الطاف بھائی کی بے وقت کی راگنی کام آتی ہے نہ آفاق بھائی کی اردوئے معلٰی! آخر اس کی گُتھی سلجھنے میں کیوں نہیں آتی؟ کیا کراچی میں امن و امان کا مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے جو نہ صوبائی حکومت سے سنبھلنے میں آ رہا ہے اور نہ وفاق کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟ آخر کراچی کی سیاسی جماعتیں، یہاں کی صوبائی حکومت اور وفاق اس معاملے میں سنجیدہ کیوں نہیں ہیں؟

عسکری دانشوروں سے لیکر ایک عام شہری تک کو تسلیم ہے کہ کراچی میں حالیہ بدامنی کی لہر کا واحد حل دہشتگردوں، شرپسندوں اور مافیاز کے خلاف بلاامتیاز فوجی آپریشن ہے، حکومت اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے مخصوص علاقوں پر سرچ آپریشن تو کر لیتی ہے، مگر جن علاقوں میں دہشتگردوں کی اصل کمین گاہیں موجود ہیں، ان کو کوئی نہیں پوچھتا، وہاں کوئی نہیں جھانکتا، حکومت اگر اس مسئلے پر واقعی سنجیدہ ہے تو پھر تمام حساس علاقوں میں فوجی ایکشن سے کیوں گریزاں ہے؟ صرف اپنا اتحاد بچانے کے لیے سینکڑوں انسانوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دینا انسانیت دشمنی نہیں؟ نام نہاد جمہوریت کے علمبردار، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مظلوموں کے ساتھی کہاں مرے جاتے ہیں جب کراچی میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا!

کراچی کے ناتواں کاندھوں پر 25 برسوں سے بوری بند لاشیں لادی جا رہی ہیں، یہاں کے لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کیا جاتا ہے، پیٹیاں نہ ملنے پر ٹارچر کیا جاتا ہے، سڑکوں سے اسمبلی تک گولی اور گالی کی سیاست چلتی ہے اور فیکٹریوں، دکانوں اور ٹھیلے والوں سے یومیہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے، لیکن حکومت ان سارے حالات سے آنکھیں موندے اپنے دبیز غالیچوں اور ریشمی پردوں والے بالاخانوں میں حسین خوابوں میں گم ہے، حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں، لیکن خدارا ! ہوش کے ناخن لیجیے! سوات اور بلوچستان کی طرح کراچی کے لیے بھی کچھ کیجیے۔
خبر کا کوڈ : 155003
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش