4
0
Wednesday 2 May 2012 20:56

جرگہ یا قاتلوں کا ٹولہ؟

جرگہ یا قاتلوں کا ٹولہ؟
تحریر: بہلول بلتی

کوہستان اور چلاس میں پشتو کے علاوہ شینا زبان بھی بولی جاتی ہے۔ نسل کے اعتبار سے یہ لوگ کمی اور اپنی زبان میں کاندیہ کہا جاتا ہے اور مذہبی اعتبار سے اکثریت دیوبندی اور وہابی ہیں۔ جگلوٹ اور چلاس ضلع دیامر میں آتا ہے جبکہ کوہستان کا علاقہ صوبہ پختونخواہ میں۔ یہ سنگلاخ پہاڑی علاقہ جہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے جو کہ پاکستان کو چین سے ملاتا ہے۔ جگلوٹ اور چلاس کے درمیان واقع علاقہ گوہر آباد کے علاوہ باقی تمام علاقوں میں عورتوں کی تعلیم تو درکنار مردوں میں بھی شرح خواندگی شرمناک حد تک نیچے ہے۔ کوہستان اور چلاس کے لوگ مذہبی روابط کے سبب اپنی آپ کو پختونوں میں شمار کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے بندر جب انسانوں کے درمیان ہوتا ہے اپنے آپ کو انسان گردانتا ہے لیکن اسے خفت اس وقت ہوتی جب اپنا شکل اور دم نظر آتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ اپنے آپ کو پختوں بتاتے ہیں جبکہ ان میں نہ پختونوں کی ریت ہے اور نہ رسم و رواج، ان کی مہمان نوازی ہے اور نہ قبائلی غیرت و جرات، البتہ امتداد زمانہ کے ہاتھوں چند پختونوں کی روایات ان میں منتقل ہوگئی ہیں جن میں گھروں میں اسلحہ رکھنے کے علاوہ جرگہ بھی شامل ہے۔

پختونوں کی روایت میں جرگہ وہ معاشرتی ادارہ ہوتا ہے جس میں قبائل کے سردار مل بیٹھ کر مختلف تنازعات اور مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ پختونوں کی دوستی اور دشمنی مثالی ہوتی ہے۔ اصولوں پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن جن باتوں کو وہ اصول سمجھتے ہیں منطق سے میل کھانا ضروری بھی نہیں ہوتا۔ ان کے اپنے اصول، اپنی ریت اور اپنا طریقہ ہوتا ہے۔

قتل و غارت ہو یا ظلم و ناانصافی جرگہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے لیکن دشمنی کا سلسلہ نسلوں پر محیط ہوتا ہے۔ ان کے قبائلی علاقوں میں عورتوں کی تعلیم کو پاپ سمجھنے کے علاوہ گھر کی چار دیواری میں محصور رکھنے کو غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر پختونوں کی روایت لکھنے بیٹھ جائے تو لمبا کام ہوگا۔ میر ا مقصد ان بندر صفت انسانوں کا ذکر کرنا تھا جنہوں نے پختونوں کی چند روایات کو مستعار لے کر اپنے آپ کو خاندانی بنا کر، مہذب بنا کر دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش تو بہت کی لیکن اصلیت تو سامنے آئے بنا نہیں رہ سکتی اور نہ ہی تاریخ کا حافظہ اتنا کمزور ہے صرف ستر سال پہلے کی واقعات بھی بھول جائیں۔ جس وقت یہ لوگ پہاڑوں پر اور مویشی خانوں میں زندگی کیا کرتے تھے۔ دھونے اور نہانے کی زحمت تین چار ماہ بعد ہی کیا کرتے تھے۔ صفائی، ہمدردی، محبت، پیار، حسن سلوک، مہمان نوازی، ادب، تعلیم، خلوص، عزت و اکرام، معاونت، انسانیت جیسے اوصاف گویا ان کے سرشت میں ہے ہی نہیں۔ برق و نور کے اس دور میں بھی اپنے فرضی دشمنوں کا خون پینا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ ان کا اہم مشغلہ راہگیروں کو لوٹنا ہے۔ جہالت کے علاوہ یہ اپنے اجداد سے ورثہ میں ملا ہے۔

کوہستان اور چلاس کے جرگے کا ایک اہم فیصلہ ’’ ونی ‘‘ دینا ہوتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک خاندان کا کوئی فرد کسی دوسر ے خاندان کے کسی فرد کو قتل کرے یا عزت پر ہاتھ ڈالے تو سزا کے طور پر مجرم خاندان کے کسی کم عمر اور حسین لڑکی کا رشتہ متاثرہ خاندان کے کسی بوڑھے کے ساتھ کرایا جاتا ہے۔ جو بعد میں چولے پھٹنے یا چھت سے گر جانے یا دیگر کسی نامعلوم سبب سے موت کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔

غالبا یہ ستر کے دہائی کی بات ہے جب شاہراہ قراقرم کی تکمیل ہوئی اور سکردو سے لوگ پنڈی کے لیے عازم سفر ہوئے تو چلاس و کوہستان کے مقامات پر لوگ جمع ہوگئے تاکہ وہ عجیب الخلقت شیعوں کو دیکھ سکیں جن کا ایک کان بچھایا جاتا ہے اور دوسرا اوڑھا۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی عقیدہ آخرت سے زیادہ یقین کامل رکھتے تھے کہ شیعوں کے لمبے لمبے دانت ہوتے ہیں جن کے ذریعے انسانوں کو کاٹ کھاتے ہیں۔یہ سب اس وقت کے جاہل ملاوں کی کارستانی تھی، لیکن اس وقت کے ملاؤں کی سیاہ کاریاں بھی ان سے کم نہیں ہے۔

چلاس اور کوہستان والوں نے پختونوں اور قبائلیوں کی دیکھا دیکھی میں اپنے مسائل اور تنازعات جو کہ نہایت مضحکہ خیز ہوتی ہیں کی حل کے لیے جرگہ کی مدد لیتے رہتے ہیں۔ جرگہ عالموں اور اہل بینش و دانش کے مجموعے کا نام نہیں جو مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں بلکہ جاہلوں اور قوم کے سرداروں کا گروہ ہوتا ہے جن کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ فیصلہ جات اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں بلکہ اپنی ریت و روایات کے مطابق کرتے ہیں۔ جرگہ کے اراکین میں اکثر جاہل ہوتے ہیں اور دولت مند یا بڑے خاندان کے سرپرست ہوں تو رکن بن جاتا ہے۔ کبھی کبھی نام نہاد ملا بھی اس کا حصہ ہوتا ہے جن کا اسلام اور قرآن صرف اس کام آتے ہیں کہ دیگر اسلامی فرقوں کو کافر ثابت کریں۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ ایک چلاسی جو اس کا کلاس فیلو تھا کے گھر ان کی دعوت پہ گئے۔ اس کے دوست کا والد جرگہ کا رکن بھی تھا اور حج کی ادائیگی بھی دو مرتبہ کرچکے تھے۔ ان سے میرے دوست کی باتیں ہوتی ہیں جب ان سے استفسار کیا جاتا ہے کہ زندگی میں اللہ نے بہت کچھ دیا، مال و متاع، حج کی سعادت اور جرگہ کی سرداری، کوئی تمنا باقی ہے دل میں؟ جواب نہایت عجیب ملتا ہے۔ کہتا ہے ایک تمنا باقی ہے وہ یہ کہ جنت کا پروانہ نصیب ہو۔ تعجب ہوکر سوال کیا گیا کہ کیا مطلب؟ جواب دیتا ہے کہ مرنے سے قبل کسی شیعہ کو قتل کرکے جنت کا پروانہ حاصل کرلوں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ شیعہ تو اس کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ ایک بوڑھا شخص جس کی دھاڑی سفید اور عمر کی آخر میں یہ تمنا رکھیں آگے آپ خود سوچیں؟

مجھے کہنے دیجئے جب چلاس پہ مسافرین کو روکا گیا اور مسافرین پر چاروں طرف سے پتھروں، لاٹھیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ کئی مسافرین پر گولیاں چلائی گئیں۔ کئی مسافرین کے سروں کو جب کچل دیا گیا۔ تو اسی لمحے جرگہ کا رکن یہ بوڑھا شخص بھی وہاں کانپتے ہانپتے پہنچا ہوگا۔ کسی مجروح کراہتے مسافر جو جان کنی کی حالت میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوگا۔ جن کی آنکھوں میں کیل ٹھکے ہوئے ہونگے یہ بوڑھا شخص کسی کے ہاتھ سے آری چھین کر اس زخموں سے چور مسافر کے سینے پر چڑھ کر آری سے ان کا گلہ کاٹا ہوگا اور جنت کا پروانہ لے کر خوشی خوشی گھر لوٹا ہوگا۔

چلاس و کوہستان والے علم و ادب سے عاری قوم، کند ذہن، بدمزاج اور راہگیروں کو لوٹنا اور قتل کرنا ان کے جبین کا غازہ اور ظلم و بربریت ان کی پہچان ہے۔ ایسے افعال سے عوام جنت پاتے ہیں جبکہ جاہل ملا ڈالر اور ریال۔ کوہستان اور چلاس کے علاقے سے لوٹنے اور قتل ہونے والوں کی باقاعدہ فہرست تو نہیں البتہ سینکڑوں لوگوں کی قتل و غارت کا سراغ مل جاتا ہے۔ کئی عشروں سے گلگت اور بلتستان کے لیے لاشوں کا تخفہ بھیجنا تو معمول تھا لیکن ایک بار ایسا بھی ہوا پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاک آرمی کے ایک میجر کو بھی قتل کرکے بھیجا گیا۔ بلتستان بھر میں چلاسیوں اور کوہستانیوں کی بربریت کے نتیجے میں یہ بات کہاوت بن چکی ہے کہ اگر کوئی حد سے زیادہ کسی پہ ظلم کریں اور شقاوت دکھائیں تو اسے چلاسی کہا جاتا ہے۔

28 فروری کو انہی درندہ صفت انسانوں نے بسوں سے مسافرین کو بسوں سے اتار کر بے دردی کے ساتھ شہید کردیا اور بغیر کسی مزاحمت کے غنڈے کلاشنکوف کو ہوا میں لہراتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ بقول حامد میر کے اگر حکومت چاہتی تو ہیلی کے ذریعے ان کا آسانی سے پیچھے کیا جاسکتا تھا۔ حامد میر کو کیا معلوم یہاں ہیلی لاشوں کو اٹھانے کے لیے ہوتی ہے۔ پولیس لاشوں کو مسخ ہونے کے بعد اٹھانے کے لیے ہوتی ہے اور حکومت لواحقین کے مسجدوں کو سیل کرنے، میڈیا پہ پابندی عائد کرنے، وحدت کے داعی علماء کو گرفتار کرنے تکفیری ملاوں کے ساتھ دعوتیں اڑانے، محصورین کو زندہ چھوڑنے کی سزا آپریشن کرنے، تین ہزار سے زائد حملہ آوروں کی مطالبات کو منظور کرنے، دہشت گردوں کو جوڈیشیل کمیشن کے نرم و گداز پردے میں چھپانے اور مظلومین پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے لیے ہوتی ہے۔

سانحہ کوہستان کی انسانیت سوز سانحہ کے بعد بان کی مون سمیت دنیا بھر کی مختلف سیاسی و مذہبی تنظیموں کی سربراہان نے مذمتی بیانات جاری کیے۔ اٹھارہ جنازوں کو کندھا دینے کے بعد بھی گلگت بلتستان کے عوام نے دامن صبر کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ احتجاج ان کا حق تھا جو جاری رکھا۔ رحمان ملک نے گلگت میں تین ہوائی دورے کیے اور انجمن امامیہ کے تمام مطالبات من و عن تسلیم کی0ے۔ رحمان ملک نے دہشت گردوں کی نشاندھی کی خبر کو میڈیا پہ عام کیا لیکن چلاس اور کوہستان میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے سبب قاتلوں کے گرفتار کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اور قاتلوں کو جرگہ کے ذریعے گرفتار کرنے کا اعلان کیا اور سارا معاملہ جرگہ پر ڈال دیا۔ جرگہ یعنی کوہستان و چلاس کی ریاستی ادارہ اور یہ حقیقت وزیراعلی ٰ پر واضح ہو یا نہ ہو، یہ علاقہ ریاست کے اندر ریاست کا حیثیت رکھتی ہے۔ سانحہ چلاس میں موجود 7 پولیس اہلکار جن کا تعلق خپلو سے تھا کو برطرف کردیا گیا ہے لیکن چلاس اور کوہستان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو ہاتھ لگانے کی جرات نہ جی بی حکومت کو ہوئی اور نہ فوج کو۔

سانحہ کوہستان کے مجرمین کے نام جرگہ کے پیچھے چھپ گئے اور ساتھ ہی رحمان ملک کے تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سانحہ کوہستان کا زخم ابھی مندمل ہونے نہیں پایا تھا کہ اپریل کی تین تاریخ کو چشم فلک نے وہ افسوسناک سانحہ بھی دیکھا جس میں سانحہ کوہستان کو نئے ورژن کے ساتھ گونر فارم چلاس میں ری پلے کیا گیا۔ اس میں بھی مسافرین کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے شیعہ مسافرین کے سروں کو بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ کچل دیا گیا۔ تین ہزار سے زائد انسان نما درندوں نے بسوں کو آگ لگا دی سامان لوٹ لیے گئے، زخمیوں کی آنکھوں کو نکالا گیا، اعضاء کاٹے گئے، گلے کو آریوں اور پتھر کی ضربوں سے کاٹا گیا۔ اس واقعہ پر بھی جی بی حکومت اور فورسز خاموش تماشائی بنی رہی۔ انہی دنوں میں گلگت میں کرفیو لگایا گیا، سکردو میں مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔ حکومت کی بے بسی کی انتہا دیکھ لیں کہ سکردو سے تعلق رکھنے والا شہید روح اللہ جو مہدی شاہ کا رشتہ دار بھی ہے اور محلہ دار بھی کی میت آٹھویں روز سکردو پہنچ سکی۔ میت کیا پہنچی؟ جسم انسانی کے ٹکرے تھے جو کفن میں جمع تھے۔

سانحہ چلاس کے بعد ایک بار پھر حکومت نے معاملہ جرگے کے خونین ہاتھوں میں دیا اور قاتلوں کے پشت پناہوں سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ سانحہ چلاس سے کچھ دیر قبل مسجدوں کی میناروں سے شیعہ کافر اور الجہاد کی صدائیں بلند ہوگئیں تھیں اور تین ہزار کے قریب لوگوں نے مسافرین پر حملہ کردیا تھا۔ اس کے باوجود مہدی شاہ چھ ملزمان کو گرفتار کرکے چوڑا ہوجاتا ہے اور ان ملزمان کا خیر مقدم بھی تفیشی کمروں میں حکومتی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ ان ملزمان کو عیش و نوش کی جملہ سامان وہیں مل جاتی ہیں۔

اس لمحے جرگہ کا مضحکہ خیز بیان میڈیا پہ آجاتا ہے جس میں جرگہ حکومت سے مسافرین کی اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یعنی چور بھی کہے چور چور۔ اس پر ایک اور کہانی کہ جرگہ کی نشاندہی پر جن 6 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کرتی ہے ان کی رہائی کے لیے احتجاج شروع کرتا ہے اور جرگہ بھی کہتا ہے کہ یہ لوگ مجرم نہیں ہم نے ان کو اس لیے دیا ہے کیونکہ حکومت سے ہمارا معاہدہ تھا یہ لوگ بے گناہ ہے۔ اگر یہ لوگ بے گناہ ہے تو دیا کیوں؟ چلاس اور کوہستان والوں نے فوج اور جی بی حکومت کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے۔ اور حکومت کی بازوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ چلاس اور کوہستان میں سرچ آپریشن کریں۔ زمین کو ذرا نرم پا کے حکومت نے چلاس اور کوہستان کی بجائے نگر میں آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں کے لوگوں نے خیر سگالی کی جذبے کے تحت 30 سے زائد چلاس اور کوہستانیوں کو زندہ سلامت چھوڑ دیا تھا۔ ان تمام معاملات میں الٹی گنگا بہتی رہی ہے۔ دہشت گردوں اور جرگہ کی تمام مطالبات درجنوں مسافرین کو قتل کرنے کے بعدبھی منظور، جبکہ متاثرین اور لواحقین پر گولیاں برسائی جائے کرفیو کا نفاذ ہو اور آپریشن کی باتیں کریں۔

ان تمام معاملات میں بلا تردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکورٹی اداروں اور حکومتی اداروں کے سر پرست سارے شیعہ دشمن ہیں۔ ہاتھی دانت کے طور پر مہدی شاہ شیعہ ہے جن کی ساری توانائی علماء کے خلاف بیانات دینے، اپنے خلاف نعرہ لگانے والوں کی فہرست مرتب کرنے اور حکومت بچانے میں صرف ہو رہی ہے رحمان ملک کے بقول وفاق چلاس میں آپریشن کرنا چاہتی ہے لیکن مہدی شاہ راضی نہیں ہے۔ دوسرا پولیس محکمہ میں ایک شیعہ افسر ہے جن کی تبادلہ کے لیے اب تک متعدد قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ یعنی ایک شیعہ افسر بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ گلگت بلتستان میں اس وقت صورتحال بلکل وہی ہے جو بحرین میں مومنین کو درپیش ہیں۔ حکام یا تو شیعہ کو کافر سمجھنے والے یا مخالف۔ بعض شواہد ایسے بھی ہیں کہ دہشت گردوں کا اعلی اختیاراتی اداروں کے افسران کا رابطہ ہے۔ گلگت میں کرفیو کے دوران ایک خاص طبقہ جن کا سارا دین ایمان شیعہ کو کافر ثابت کرنا ہے اسلحہ سمیت مختلف اداروں میں گھومتے رہے۔

یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ کوہستان اور چلاس میں جرگے کا کام اپنے مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کے ساتھ ان کے پیش آنے والے مسائل کے حل اور فیصلہ کا حق جرگہ کو کس نے دیا۔ اگر تمام معاملات جرگہ نے طے کرنی ہے تو یہ حکومت کس بلا کا نام ہے۔ ا س سے واضح ہو رہا ہے کہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے اور ریاست کے اندر اس وقت ریاستیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 158438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
marhaba brother bohat acha article likha ha or tamam haqaiq haqiqat per mubni han q k mera taluq b use alaqy se ha
Pakistan
HUNDRED PERCENT BJA HE
TABI TO YE LOG INSANIAT K SATAH SE NECHE HE
Pakistan
Bohot khoob Kazim Bhai lekin aap International politics on KKH ko b to samuny rakhy na ....... Dunya kia chahti hay ? India kia chahty hain ? America k kia policy hay ? etc etc ....... Your Article was very fantastic ........... keep it up .... Mola aap ko salamat rakhy Ameen
mashallah .well written
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش