0
Wednesday 2 May 2012 20:54

سوئی ہوئی حکومت

سوئی ہوئی حکومت
تحریر: غلام نبی کھرپتو

حکومت کو نیند آتی ہے تو عوام کی نیندیں ضرور اڑ جاتی ہیں۔ پاسبان اور نگہبان مدہوش ہو جاتا ہے تو عوام کے ہوش ضرور اڑ جاتے ہیں، حفاظت کرنے والے غافل ہوجاتے ہیں تو عوام کو تحفظ نہیں موت مل جاتی ہے، بڑے بچانے پر آمادہ نہ ہوں تو چھوٹے کہاں بچ پاتے ہیں۔ یہی کائنات کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ سانحے کا رونما ہونا سانحہ نہیں ہے سانحہ یہ ہے کے سانحے سے پیدا ہونے والے مرض کی تشخیص اور اس کا علاج نہ کیا جائے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں یہی کیفیت ہے۔ سانحہ کوہستان اور چلاس کے نتیجے میں جو لرزہ خیز صورت سامنے آئی ہے اس سے کہیں دس گنا قیامت خیز صورتحال یہ ہے کہ حکومت ( مقامی اور قومی ) دونوں فرائض کی ادائیگی سے لاتعلق نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ارباب حل و عقد بھی عام آدمی کی طرح گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے۔

گلگت بلتستان کے شیعہ علماء اور عوام نے حکومت کے سامنے کوئی ایسی منزل نہیں رکھی جس پر پہنچنا بس کی بات نہ ہو بلکہ ان امن پسند، اسلام پسند، انسان دوست اخوت کے حامی لوگوں نے بڑی آسان بات یا پھر خواہش کا اظہار کرکے ارباب بست و کشاد کے لیے مسئلے کو آسان بنا دیا تھا۔ جانے کیوں حکومت خود اسے عقدہ لاینحل بنا رہی ہے۔ شیعہ قوم نے فقط یہی مطالبہ کیا تھا کہ قاتلین کو پکڑیں اور قانون کے مطابق سزا دیں۔ شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنا دیں اور سفر کو ممکن بنا دیں۔ پی آئی اے کے کرایوں میں کمی کر دیں۔ کیا یہ مطالبات برحق نہیں ہے؟ یا ان مطالبات پر عمل پیرا نہ ہونا حکومت کا فرض نہیں بنتا؟

پاکستان کی کوئی جیل ایسی نہیں ہوگی جس میں کوئی نہ کوئی قاتل قیدی نہ ہو۔ کتنے قاتلوں کو حکومت نے اب تک پھانسی دی ہوگی؟ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ قاتل کے ساتھ تو ہونا از روئے شرع از روئے قانون اس کی یہی سزا ہے تو پھر حالیہ سانحات کے قاتلین کو سزا دینے کے مطالبے پر حکومت کان کیوں نہیں دھرتی؟ کیا مسافرین، بے گناہوں اور بے قصور لوگوں کے قاتل لوگ شریعت اور قانون سے بالاتر قسم کی مخلوق ہیں؟ کیا یہ سفاک درندے کوئی آسمانی مخلوق ہیں جو پولیس یا فوج کے ہاتھ نہیں لگتے؟ یا ان وحشیوں، پاگلوں اور سنگدلوں کی پشت پناہی کوئی خفیہ طاقت کرتی ہے جس کے سبب ہماری حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ کیا یہ بربریت سی آئی اے، موساد، را وغیرہ کراتی ہے یا پھر ہمارے ہی ملک میں بسنے والے چندہ خور، حلوہ خور، مسجد چور، ضمیر فروش، ایمان فروش، دین فروش، ذہنی مریض، وحشی صفت، بدطینت، بدخصلت، بد عادت، جاہل ملا کے ورغلانے اور اکسانے پر یہ قاتلین لہو بہاتے ہیں؟ وجہ کچھ بھی ہو عوام تو فقط امن چاہتے ہیں اور قاتلین کی سزا مانگتے ہیں۔ ہمارا مقننہ، ہماری انتظامیہ، ہماری فوج، ہماری ایجنسیاں سب مل کر اپنے عوام کو یا تو یہ سمجھادیں کہ قتل و غارت گری پاکستان میں جرم نہیں ہے یا پھر مجرموں کو سزا دے کر ملک کو امن کا گہوارہ بنادیں۔

سانحہ چلاس کو گزرے ہفتوں ہوگئے ابھی تک کوئی ایک بھی مطالبہ منظور نہیں ہوا۔ شاہراہ قراقرم آج بھی ناامن ہے۔ نہ آسانی سے لوگ جاسکتے ہیں نہ ہی مال اسباب بھیجے لائے جاسکتے ہیں۔ اگر یہی کیفیت رہی تو گلگت بلتستان میں قحط پڑ جائے گا۔ عجیب ستم ہے جہاز کا کرایہ پہلے کی نسبت اور بڑھ گیا ہے جو عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے۔ پنڈی جانا ضروری اور لازمی ہو جہاز کا کرایہ دے نہ سکتا ہو اور بائی روڈ جا نہ سکتا ہو کوئی کہو تو کہ کرے تو کیا کرے۔ خدا کی قسم! رب جلیل اور رب عظٰیم کی قسم! ظالم کا انجام کھبی اچھا نہ ہوا ہے نہ ہوگا اور وہ حکمران جنہیں اپنے عوام کے دکھ درد کا احساس نہ ہو اپنے ہی عوام کے سامنے نشان عبرت بن جایا کرتا ہے۔ اس ناہنجار اور نامراد دنیا میں جب مصر کے بڑے بڑے فرعون مر کھپ گئے، شداد کا نشان قبر نہ رہا۔ دارا جیسے بادشاہ مٹی میں مل کر مٹی ہوگئے، چنگیز خان، ہلاکو، ہٹلر جیسے نہ جانے کتنے اور حکمران منوں ٹن مٹی کے نیچے دفن ہوگئے تو ہم کو ن اپنے ظلم و جور کے ساتھ زندہ رہیں گے؟

حکمران وہی اچھے جو اپنے عوام کو سکھ دے دیں۔ بلتستان کے شریف اور پر امن عوام نے سکردو کرگل روڈ کھولنے کا جو مطالبہ کیا ہے اس کے نتائج بڑے اچھے اور مثبت نکلیں گے۔ تجارتی فوائد حاصل ہو جائیں گے غربت میں کمی آجائیگی جب ضروریات زندگی کرگل لداخ کے راستے سے آجائے گی تو شاہراہ قاتل پر بے گور و کفن لاشے پڑے رہنے سے نجات مل جائے گی۔ گلگت بلتستان کے وزراء، اسمبلی کابینہ، کونسل اسلام آباد جاکر زرداری اور گیلانی کو بریف کرکے اپنا فرض پورا کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں یہ بات نا قابل فہم ہے۔

اب تک شاہراہ قراقرم کو محفوظ نہ بنانا، اس سڑک کو فوج کے حوالے نہ کرنا، چلاس میں آپریشن نہ کرنا، جہاز کے کرایوں میں کمی نہ کرنا گلگت بلتستان اسمبلی کی ناکامی ہے، غفلت ہے، نااہلی ہے یا پھر کچھ اور۔۔۔۔۔۔

سننے میں آتا ہے کہ چلاس کے جرگہ نے دو ایک ملزمان کو خود پکڑ کے پولیس کے حوالے کیا ہے۔ اللہ اللہ کس قدر بے بس، کمزور اور لاچار ہے ہماری حکومت؟ ملزموں اور مجرموں کو پکڑنے کی جرات اور سکت بھی خود نہیں رکھتی ۔ اگر یہی بے بسی اور کمزوری رہی تو پاکستان کے ہر شہر اور ہر قصبے سے تھانہ اور پولیس کو ختم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کا تو کوئی کام ہی نہیں رہتا۔ فیصلہ جرگے کا، پکڑ دھکڑ بھی جرگے کا، بھلا بتلاو تو سہی کہ عدالت اور پولیس کس مرض کی دوا ہے؟

لگتا ہے چلاس میں حکومت پاکستان سے زیادہ جرگے کی اپنی عملداری ہے۔ ایک مولوی قتل کا فتویٰ دے مظاہرین کا ایک گروپ شناختی کارڈ چیک کرے، دوسرا گروپ پچھلا دامن اٹھا اٹھا کے پشت چیک کرے، تیسرا گروپ پتھر مار مار کر شہید کردے، چوتھا گروپ لاشوں پر رقص کرے، پانچواں گروپ گاڑیوں کو نذر آتش کرکے دریا برد کر دے پھر ایک مولوی دوچار کو اپنی امان میں لے کر روانہ کردے پھر جرگہ ایک آدھ لوگوں کو حکومت کے حوالے کر دے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ پولیس بے بس، وزراء بے بس، ایجنسیاں بے بس، فوج بے بس جب یہ سب بے بس تو غریب شیعہ کمیونٹی بھی بے بس۔
خبر کا کوڈ : 158430
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش