0
Saturday 26 May 2012 00:08

شکیل آفریدی کو سزا، امریکہ کو تشویش کیوں؟

شکیل آفریدی کو سزا، امریکہ کو تشویش کیوں؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

مشکل اوقات میں اپنے دوستوں کی مدد کرنا امریکہ کا شیوہ نہیں۔ البتہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر اس نے مختلف رویہ اختیار کیا ہے۔ کیا امریکہ اپنے "ہیرو" اور ہمارے "غدار" کو بچا لے جائے گا؟ اس سوال کا جواب ذرا مشکل ہے، مگر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہی تو ہے، دنیا میں صرف طاقت کا ہی سکہ چلتا ہے۔ باقی مذاکرے، مذاکرات، سفارتی حیلہ بازیاں اور عالمی ادارے اسی اصول کی چاکری کرتے نظر آتے ہیں، امریکہ اپنے مقاصد کے اصول کے لیے ہر سطح تک جا سکتا ہے۔ دنیا کی جس قوم کو اس نے دبوچنا چاہا، پہلے اس کے اندر سے غدار پیدا کئے۔ 

کیا ڈاکٹر آفریدی واقعی اسامہ بن لادن کو ایک دہشتگرد سمجھتا تھا یا اسے پیسے کی ہوس تھی۔؟ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ کیسے بنا؟ اور اس کی امریکی نژاد بیوی اس معاملے میں اس کی کتنی مدد گار ثابت ہوئی۔ یہ باتیں آہستہ آہستہ منظر عام پر آتی رہیں گی، گزشتہ برس دو مئی 2011ء کو امریکیوں نے ایبٹ آباد میں ایک مخصوص کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے اسامہ کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس آپریشن کے فوراً بعد امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے امریکہ کو اسامہ کے بارے جو معلومات دی تھیں وہ امریکہ کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئیں۔ اس بیان کے بعد پاکستان کو خبر ہوئی کہ امریکہ کس طرح اپنے ایجنٹ کے ذریعے بن لادن کے کمپاؤنڈ تک پہنچا۔ 

اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں انٹیلیجنس شیئرنگ کا معاہدہ بھی ہے، مگر اسامہ کے کمپاؤنڈ تک امریکہ کی رسائی ہمیں حیرتوں کے سمندر میں لے جاتی ہے۔ امریکہ نے ہمدردی کے پردے میں جس طرح سازش کی مہم چلائی، اس کی کامیابی سے پاکستان کی پوری دنیا کے اندر بدنامی ہوئی۔ اسامہ کا ایبٹ آباد میں موجود ہونا بذات خود ایک بڑا المیہ ہے، کیونکہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جاری جس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہے اس جنگ کا مرکزی کردار بہرحال اسامہ بن لادن ہی تھا، امریکہ اپنے مطلوب دہشتگرد تک بڑی مہارت سے پہنچا۔ 

لاریب کہ امریکہ کی اس کامیابی میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا۔ اس غدار وطن کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے 22 مئی 2011ء کو ڈیوٹی سے گھر جاتے ہوئے حیات آباد کے قریب کارخانہ مارکیٹ سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ اس پر مقدمہ چلا اور یوں تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کی عدالت میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں 30 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ سزا غداری کا الزام ثابت ہونے پر سنائی گئی، جبکہ ایف سی آر قانون کے تحت ڈاکٹر آفریدی پر ساڑھے تین لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا، جس کی عدم ادائیگی کی صورت وہ مزید تین سال جیل میں گزارے گا۔ 

خیبر ایجنسی کے جمرود ہسپتال میں بطور چیف سرجن کام کرنے والے ڈاکٹر آفریدی القاعدہ کے راہنما اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کے لیے، سی آئی اے کی معاونت سے ایبٹ آباد میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کی جعلی مہم شروع کی تھی اس طرح ڈاکٹر بن لادن کے بچوں کے خون کا نمونہ حاصل میں کامیاب رہا۔
 
ڈاکٹر آفریدی کو ملنے والی سزا پر امریکی ردعمل بڑا سخت ہے۔ حتٰی کہ پاکستان کو مختلف مدات میں دی جانے والی امداد کو بھی امریکہ اب ڈاکٹر آفریدی کو دی جانے والی سزا کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ امریکی سنیٹرز نے پاکستان کی امداد میں سے 33 ملین ڈالر کٹوتی کا بل منظور کر لیا۔ اس طرح امریکی سینٹ کمیٹی نے علامتی طور پر پاکستان کی 33 ملین ڈالر امداد کم کی، کیونکہ پاکستان نے ڈاکٹر آفریدی کو 33سال کی قید سنائی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سزا کا ایک سال ایک ملین ڈالر میں پڑا۔ 

جبکہ واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اسامہ کی تلاش میں امریکہ کی مدد کرنے پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے سزا کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ڈاکٹر آفریدی کے ساتھ ناجائز اور غلط سلوک کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سزا کا معاملہ امریکہ کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ آفریدی کی سزا پر امریکہ بہت تشویش میں ہے، مگر ہماری تشویش کا پہلو ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ امریکہ جب کسی معاملے پر تشویش میں مبتلا ہوتا ہے تو ہماری تشویش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ 

فلسطین کے حوالے سے شام کے کردار پر امریکہ کو تشویش رہی اور حزب اللہ کی جراتوں کو بھی امریکہ نے تشویشناک انداز سے لیا۔ بحرین میں اٹھنے والی آزادی کی تحریک کے حوالے سے بھی امریکہ اور اس کے حواری تشویش میں مبتلا ہیں، تو آج جب ڈاکٹر آفریدی کی سزا پر امریکہ کو تشویش لاحق ہوئی تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ بظاہر ایک دوسرے کے اتحادی ہونے کے باوجود پاک امریکہ تعلقات میں ایک نیا ڈیڈ لاک آگیا ہے۔ نیٹو سپلائی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات یقینًا نیٹو سپلائی کی محفوظ بحالی پر ہی اختتام پذیر ہوں گے، مگر آفریدی والے معاملے پر امریکہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ اپنے "ہیرو" کو کسمپرسی میں نہیں چھوڑے گا۔
 
یقیناً اس نے امریکہ کے لیے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ کیا امریکہ اسے اپنی شہریت سے نواز کر، پاکستان سے اڑا لے جانے کی کوشش کرے گا۔؟ کیا ہم پھر ریمنڈ ڈیوس والے معاملے کی طرح ہی کسی نئی قانونی مجبوری کا شکار ہو کر منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔؟ کیا امریکہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ روک کر ڈاکٹر آفریدی کی رہائی سے مشروط کر سکتا ہے۔؟ آنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات کا رخ متعین کرنے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دی جانے والی سزا بھی بڑا اہم کردار ادا کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 165449
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش