0
Thursday 6 Sep 2012 17:16

غیر وابستہ تحریک کی کامیاب تہران کانفرنس

غیر وابستہ تحریک کی کامیاب تہران کانفرنس
تحریر: سید منصور آغا
 (نئی دہلی)
 

26 تا 31 اگست 2012ء کو تہران میں ”غیر وابستہ تحریک کی 16ویں چوٹی کانفرنس“  کے عنوان سے ایک روایتی بین اقوامی سیاسی میلہ کا انعقاد ہوا، جس میں 120 ممالک نے شرکت کی۔ 24 ممالک کے صدور، 3 شاہان مملکت، 8 وزرائے اعظم اور 50 ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس میں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی، اس تحریک کا قیام 1961ء میں اس وقت ہوا تھا جب دنیا سوویت یونین اور امریکہ کے تحت دو خیموں میں بٹی ہوئی تھی اور ان دونوں سُپر پاورز کے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سرد جنگ جاری تھی، کشمکش کے اس ماحول میں یوگوسلاویہ کے صدر جوزف ٹیٹو کو یہ سوجھی کہ ایک بلاک ایسا بنایا جائے جو ان دونوں خیموں کے بین رہ کر اپنے مفادات کی نگرانی کرے۔
 
اس نظریہ کو بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو، انڈو نیشیاء کے صدر سوکارنو، گھانا کے صدر عنکرومہ اور مصر کے مطلق العنان صدر کرنل عبدالناصر کی تائید حاصل ہوگئی اور یہی پانچ ممالک اس تحریک کے اساسی رکن بنے۔ ان پانچ ممالک میں کون کتنا غیر وابستہ تھا، ایک لمبی بحث ہے، البتہ جو بات بلا ادنٰی تردد کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ جواہر لال نہرو کے علاوہ باقی تمام لیڈروں کا مزاج اور انداز آمرانہ تھا، 1991ء میں سوویت یونین کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور کمیونسٹ انقلاب کا سحر ٹوٹ جانے کے بعد یہ دنیا ایک قطبی ہو کر رہ گئی اور صحیح معنوں میں غیر وابستہ تحریک کی وہ بنیاد ہی معدوم ہوگئی، جس پر اس کا قصر تعمیر کیا گیا تھا۔
 
اس کے باوجود تحریک سے وابستہ ممالک کے لیڈروں کی ہر سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیو یارک میں رسمی بیٹھک ہوتی ہے، ہر تین سال بعد چوٹی کانفرنس کا بھی انعقاد ہوتا ہے، جس کو ”سیاسی میلے“ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ بالفاظ دیگر عالمی امور پر اس تحریک کا کوئی قابل ذکر اثر نظر نہیں آتا۔ (اس کا ایک اساسی رکن یوگوسلاویہ خود شکست و ریخت کا شکار ہوگیا اور کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ان میں سے کوئی بھی ملک اس تحریک کا رکن نہیں ہے) لیکن بہر حال یہ اہمیت اپنی جگہ ہے اس کے جھنڈے تلے مختلف عالمی لیڈروں کو باہم مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 

زیر تبصرہ کانفرنس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا انعقاد ایران میں ہوا، جو اسلامی انقلاب کے بعد سے بیرونی سازشوں اور امریکہ و اسرائیل کے نشانے پر ہے، کانفرنس کے لئے دارالخلافہ تہران کے بڑے حصے کو دلہن کی طرح سجایا گیا، پانچ دن کی عام تعطیل کر دی گئی اور کہیں سے سرکار مخالفوں کی ہنگامہ آرائی کی کوئی خبر نہیں آئی، یہ تہران حکومت کی بڑی کامیابی ہے، ورنہ بھارت کی طرح صہیونی ایجنٹ وہاں بھی کچھ کم نہیں، جو قومی وقار و مفاد کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں، عالمی سطح پر اس کانفرنس کی بدولت ایران کو جو تشہیر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ملی، وہ اسرائیل اور امریکہ کو یقیناً کھٹکی ہوگی، شاید یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس کی خبریں کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہوئیں۔
 
حیرت کی بات یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے افتتاحی خطاب کے بڑے حصے کو عالمی میڈیا نے قرار واقعی اہمیت نہیں دی، وجہ اس کے سوا اور کیا ہوگی کہ اس میں اسلام کے امن عالم اور بھائی چارے کے آفاقی پیغام کو دہرایا گیا تھا۔ ”اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ رنگ، نسل اور خطہ کے فرق کے باوجود سارے انسان ایک ہی فطرت پر پیدا ہوئے ہیں، یہ فطرت ان میں نفس کی پاکیزگی، عدل و انصاف، بھائی چارہ، باہم التفات، معاونت اور صلہ رحمی کا تقاضا کرتی ہے، انسان کی اس آفاقی فطرت کو اگر گمراہیوں سے بچا لیا جائے تو یقیناً یہ وحدانیت اور اللہ کی حقیقت کا وجدان کراتی ہے۔

امام محترم نے بلا تردد فرمایا کہ یہ اعتقاد ایسے معاشروں کے قیام کی بنیاد بن جانے کی صلاحیت سے سرفراز ہے جو سچے معنوں میں آزاد، عزت نفس سے سرشار اور حقیقی ترقی و انصاف کی شاہ راہ پر گامزن ہوں اور یہی وہ مشترکہ اور عالمی سچائی ہے، جو تمام ممالک کے درمیان اپنے تمام تر ظاہری اختلافات و فاصلوں کے باوجود قدر مشترک اور باہم تعاون کی بنیاد بن سکتی ہے، “امام خامنہ ای نے فرمایا، ”جب عالمی تعاون ایسی بنیادوں پر قائم ہوگا تو ممالک کے درمیان تعلقات خوف، دھمکیوں، لالچ، یکطرفہ مفادات یا دھوکہ دہی پر مبنی معاہدات یا قائدین کے ذاتی اغراض پر استوار نہیں ہونگے، بلکہ مشترکہ فائدے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ انسانیت کی بنیادوں پر استوار ہونگے۔“ 

رہبر اسلامی جمہوریہ ایران کا یہ خطاب جس کے چند اقتباس اجمالاً پیش کئے گئے، یہ اس قابل ہے کہ اس پر دنیا توجہ دے، ان میں عالمی امن کے اس پیغام کی گونج ہے، جو رحمت عالم ہادی اعظم نے اپنے دور کے حکمرانوں کو دیا تھا، اس خطاب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ کسی مسجد یا بارگاہ کے ممبر سے نہیں بلکہ ایک عالمی پلیٹ فارم سے دیا گیا، جس کو 120 ممالک کے رہنماﺅں نے سنا، دور حاضر میں ایسے مواقع شاذ ہیں جب کسی مسلم رہنما نے کامل ایمان کے ساتھ کسی عالمی پلیٹ فارم سے اسلام کے آفاقی پیغام کی پکار لگائی ہو۔ امام خامنہ ای نے جس عالمی نظام کی طرف دعوت دی ہے، دنیا کے موجودہ ایک قطبی نظام سے، جس کے مرکز میں امریکہ اور یورپ کی سامراجی طاقتیں ہیں، سراسر مخالف ہے۔ 

نیوکلیائی اسلحہ حرام ہے: 
ایران کے رہنماء نے نیوکلیائی اسلحہ پر بھی اسلام کا موقف واضح کیا، انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نیوکلیائی، کیمیائی اور اسی طرح کے اجتماعی ہلاکت خیز حربوں کا استعمال شدید اور ناقابل معافی گناہ تصور کرتا ہے، اسلام ہرگز اس طرح کے حربوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا، انہوں نے ”مشرق وسطٰی کو نیوکلیائی اسلحہ سے پاک خطہ‘‘ بنانے کے اپنے نظریہ کو پھر دہرایا، لیکن مضبوطی کے ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ پرامن مقاصد کے لئے نیوکلیائی ایندھن کی پیداوار ہر ملک کا حق ہے اور ایران اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوگا، یہ ایک اصولی موقف ہے مگر کیونکہ اس کی زد میں اسرائیل کا خفیہ نیوکلیائی اسلحہ کا ذخیرہ بھی آجاتا ہے اس لئے امریکا اور اس کے حلیف ممالک اس کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔
 
دراصل اسرائیل، امریکہ اور اس کے حلیفوں کا موقف یہ ہے کہ بدترین تباہ کن اسلحہ رکھنے اور بنانے کا حق صرف ان کو ہی حاصل ہے، کسی دیگر ملک، خصوصاً مسلم ملک کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلحہ سازی کی صنعت میں خود کفیل ہو، یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہندوستان نے کامیاب نیوکلیائی تجربہ کیا تھا تب امریکہ ہندوستان کے پیچھے پڑ گیا تھا اور اس پر بہت ساری پابندیاں لگا دی تھیں، اس سچائی کے باوجود افسوس یہ ہے کہ بھارت نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی تائید کر دی، حالانکہ بشمول امریکہ، دنیا یہ تسلیم کرتی ہے ایران نیوکلیائی اسلحہ سازی کی صلاحیت سے برس ہا برس دور ہے۔
 
یہاں یہ یاد دہانی کرانی ہوگی کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کی لام بندی کا اصل سبب ایران کی نیوکلیائی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کا اسلامی انقلاب کے بعد امریکا کے دباﺅ کو قبول کرنے سے انکار ہے، ایران اگر جزوی طور سے بھی 1951ء سے قبل کی اس پوزیشن کو بحال کرنے پر آمادہ ہو جائے، جس میں ایران کے تیل کنووں پر برطانیہ کا تسلط تھا اور جس کو وزیراعظم مصدق نے قومیا لیا تھا، جس کے بعد ایک سازش کے تحت ان کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، تو امریکہ اور اس کے حواری ایران کی نیوکلیائی پیش رفت کا ذکر بھی نہیں کرینگے، ساری لڑائی تیل کے لئے ہے، اسی لئے عراق کی جنگ ہوئی، اسی لئے لیبیا میں تختہ پلٹ ہوا،)۔

بہرحال امام خامنہ ای نے دنیا کو یاد دلایا ہے کہ اجتماعی ہلاکت خیزی کے اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ امریکہ کے پاس ہے، امریکہ ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر نیوکلیائی بموں سے حملہ کرکے لاکھوں شہریوں کو موت کی نیند سلا دینے کی انسانیت سوز حرکت کی تھی، اس کو یہ اخلاقی حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک پر انگلی اٹھائے اور امن کا نقیب بنے۔ 

مصری صدر مرسی کی شرکت: 
تہران کانفرنس کی ایک اہم بات یہ رہی ہے کہ اس میں مصر کے صدر محمد مرسی نے بھی شرکت کی اور ان کو صدر احمدی نژاد نے اپنے پہلو میں جگہ دی، تقریباً تین دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مصر کے کسی صدر نے ایران کا دورہ کیا، ان کی تقریر پر عالمی میڈیا نے خاص طور سے اس لئے توجہ دی ہے کہ انہوں نے اپنے میزبان کے موقف کے خلاف شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین کی تائید کا اعلان کیا، انہوں نے اسی کے ساتھ فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ بھی اظہار یگانگت کیا، تہران سے پہلے انہوں نے چین کا دورہ کیا، صدر مرسی کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی تھی کہ انکا پہلا غیر ملکی دورہ تہران کا ہوگا مگر انہوں بجا طور پر حرمین شریفین میں حاضری اور عمرے کی سعادت کو ترجیح دی اور سعودی عرب کے شاہ ان کے پہلے غیر ملکی میزبان بنے، ان کے اس دورے کو سیاسی طور پر بھی اہمیت دی گئی۔
 
تہران کے دورے سے یقیناً مصر ایران رشتوں میں استواری کی راہ کھلی ہے، مگر ساتھ ہی صدر مرسی نے یہ پیغام بھی دیدیا ہے کہ وہ ایک آزدانہ خارجہ پالیسی پر چلیں گے اور اپنی ترجیحات خود طے کریں گے، البتہ انہوں نے جس وقت سعودی عرب کا دورہ کیا وہ صرف نام کے صدر تھے اور جملہ اختیارات پر سابق وزیر دفاع فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کا قبضہ تھا، تہران کے دورے کے وقت فوجی ٹولے کی بالادستی کا باب ختم ہوچکا ہے اور مرسی مصر کے بااختیار صدر ہیں۔ 

بھارتی وزیراعظم کی شرکت: 
ہندوستان کیونکہ ابھرتی ہوئی ایک عالمی اقتصادی طاقت ہے اور اس تحریک کا اساسی ممبر بھی ہے، اس لئے یہ مناسب ہی تھا کہ وزیراعظم خود اس میں شریک ہوں، ان کی شرکت کو زیادہ اہمیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ انہوں نے ایران کے صدر احمدی نژاد سے دو طرفہ اور عالمی امور پر الگ سے ملاقات کی، رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای نے بھی ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ملاقات کا موقع دیا اور اس ملاقات میں صدر احمدی نژاد خود موجود رہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایران بھارت کے ساتھ اپنے رشتوں کو کس قدر اہمیت دیتا ہے، قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تبادلہ خیال مفید رہا۔
 
اس موقع پر وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور خارجہ سیکرٹری رنجن متھائی بھی تہران میں موجود تھے اور انہوں نے ایران، افغانستان، ہندوستان مشترکہ سہ فریقی ملاقات میں اہم علاقائی، تجارتی اور سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا، یہ ملاقاتیں موجودہ عالمی پس منظر اور ایران کے خلاف امریکا کی مہم جوئی، افغانستان سے ناٹو کے انخلاء کے بعد علاقائی صورتحال، ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی جدید کاری، جس سے افغانستان کے لئے ہی نہیں بلکہ روس اور وسطی ایشیاء کے دیگر ممالک کے لئے بھارتی تجارت کے فروغ میں بڑی مدد ملے گی وغیرہ امور پر تبادلہ خیال کا موقع ملا، اس طرح وزیراعظم ہند کا یہ دورہ محض غیر وابستہ تحریک کی چوٹی کانفرنس میں شرکت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کی بھارت کے لئے دور رس سفارتی اور تجارتی اہمیت تھی۔ 

ملک کے وزیراعظم کے ایسے اہم غیر ملکی دورے کے موقع پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ بھارتی اپوزیشن کی پارٹیاں بھی قومی مفاد میں ان کے ہاتھ مضبوط کرتیں، مگر افسوس کا مقام ہے ان کے اس دورے کے بھنک ملتے ہی ”قوم پرست “بھاجپا پارٹی نے ”وزیراعظم استعفٰی دو “ کی رٹ لگانی شروع کر دی، ہم صرف گمان ہی کرسکتے ہیں کہ اس خاص موقع پر بھاجپا کی یہ مہم کس کے اشارے پر یا کس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تھی؟ صہیونیوں سے بھاجپا لیڈروں کی قلبی دوستی کوئی راز نہیں، پارٹی کے لیڈر اکثر تل ابیب کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور یہ دورہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ ہفتوں کا بھی ہوسکتا ہے، اس گمان کو اس امر واقعہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے، تہران دورے سے وزیراعظم کی واپسی کے بعد بھاجپا کے موقف میں نرمی کے اشارے ملے ہیں۔
 
گویا گرمی خاص اس مقصد کے لئے تھی کہ دورہ تہران کے موقع پر وزیراعظم کو کمزور کیا جائے، لیکن یہ خوش آئند بات ہے اس سیاسی دباﺅ کے باوجود ڈاکٹر سنگھ نے تہران کا دورہ کیا اور دو طرفہ رشتوں کو تقویت پہنچائی، تہران میں وزیراعظم منموہن سنگھ نے پاکستان کے صدر آصف زرداری سے تبادلہ خیال کیا، اس ملاقات میں ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری بھی موجود رہے، اس طرح کی ملاقاتیں یقیناً مسائل کے حل اور تعلقات کی بہتری میں معاون ہوتی ہیں، مسٹر زرداری نے اس موقع پر وزیراعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کیا، ہمارا خیال ہے اگر مگر کے بجائے اب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ننکانہ صاحب اور اپنے آبائی گاﺅں گاہ ہو آنا چاہے۔ 
خبر کا کوڈ : 192962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش