0
Wednesday 26 Dec 2012 12:27

ڈاکٹر طاہر القادری اور سیاسی میدان میں نئی ہلچل

ڈاکٹر طاہر القادری اور سیاسی میدان میں نئی ہلچل
تحریر: ثاقب اکبر

تقریباً پانچ سال ملک سے باہر رہنے کے بعد علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستان واپس پہنچ گئے۔ 23 دسمبر 2012ء کو انہوں نے مینار پاکستان کے سائے میں جو جلسۂ عام کیا، وہ پاکستان کی سیاسیات کا ان دنوں سب سے نمایاں عنوان بن چکا ہے۔ انہوں نے جلسہ عام میں جو تقریر کی اس پر تبصروں اور لے دے کا سلسلہ جاری ہے۔ راقم کو خود اس جلسے میں شرکت کا موقع ملا۔ جہاں تک جلسے کا تعلق ہے تو اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ قبول کرنے میں کسی کو باک نہیں ہے۔ ہماری رائے میں اسے آسانی سے مینار پاکستان پر ہونے والے آج تک کے تمام جلسوں سے بڑا قرار دیا جاسکتا ہے۔ جلسے کی چند خصوصیات ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں۔ 

1۔ جلسے میں ہر طرف پاکستان کا قومی پرچم لہرا رہا تھا اور اس سبز ہلالی پرچم کے علاوہ کوئی پرچم پوری جلسہ گاہ میں موجود نہ تھا۔ علاوہ ازیں پوری اشتہاری مہم میں بھی قومی پرچم کا رنگ ہی چھایا ہوا تھا۔
2۔ حاضرین میں ملک کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد و زن اور پیر و جواں موجود تھے۔ ان حاضرین کی نمایاں بات یہ تھی کہ ان میں شہری بھی بڑی تعداد میں تھے اور دیہی عوام بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔
3۔ اہل سنت (بریلوی) مکتب فکر کے علماء کی بھی ایک قابل ذکر تعداد جلسے میں حاضر تھی، تاہم مشائخ اور خانقاہی نظام سے وابستہ نمائندگان زیادہ تعداد میں شریک تھے۔
4۔ جلسے کی حاضری سے جہاں ڈاکٹر طاہر القادری کی عوام کے وسیع طبقوں میں مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے، وہاں تحریک منہاج القرآن کی عظیم تنظیمی اور انتظامی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔
 
5۔ جلسے کے لیے جس پائے اور سطح کی اشتہاری مہم چلائی گئی اور اس پر جس قدر پیسہ خرچ کیا گیا، اس کی مثال پاکستان کے ماضی کے جلسوں میں نہیں ملتی۔
6۔ انتخابی سیاست سے وابستہ میدان میں موجود سیاسی جماعتیں ایسے جلسے منعقد کرتی ہیں تو ان کے صوبائی اور قومی سطح کے متوقع امیدوار جلسے کی کامیابی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح سے حکومت میں موجود سیاسی جماعتیں حکومتی طاقت اور ذرائع سے بھی استفادہ کرتی ہیں، جبکہ 23 دسمبر کا جلسہ منہاج القرآن کی ایک منفرد اپیل کا منفرد جواب قرار دیا جاسکتا ہے۔
7۔ پاکستان میں عام طور پر یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اہل سنت بریلوی مکتب فکر کا اجتماع ہو اور اس میں ان کے ہاں مقبول نعرے بلند نہ کیے جائیں جبکہ مذکورہ جلسے میں نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری جیسے نعروں میں سے کوئی نعرہ سنائی نہیں دیا، البتہ ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت میں طرح طرح کے نعرے حاضرین کی طرف سے بلند کیے جا رہے تھے، جن میں سے یہ نعرہ زیادہ سنائی دیا ’’جرات و بہادری، طاہر القادری‘‘۔
 
8۔ اسٹیج پر مختلف علاقوں سے آئے ہوئے منہاج القرآن کے عہدیداروں اور کارکنوں کو خطاب کا موقع دیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ اہتمام کیا گیا کہ ہر علاقے کا نمائندہ اپنی زبان میں تقریر کرے۔ بعض دیگر جماعتوں کے نمائندگان بھی موجود تھے، لیکن ان میں سے کسی کو خطاب کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
9۔ دیگر جماعتوں میں سے متحدہ قومی موومنٹ، آل پاکستان مسلم لیگ (پرویز مشرف)، تحریک تحفظ پاکستان (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) اور ملی یکجہتی کونسل کے بعض نمائندے موجود تھے، جن کا اسٹیج پر اعلان کیا گیا اور ان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔
10۔ غیر مسلم اقلیتوں کے نمائندگان کو اسٹیج پر دعوت دی گئی اور ان کا تعارف کروایا گیا۔ ان میں ہندو، سکھ اور عیسائی برادری کے نمائندگان شامل تھے۔ ان کی آمد کے موقع پر خاص طور پر یہ ترانہ بجایا گیا، "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں"
11۔ وقفے وقفے سے مختلف ترانوں اور نغموں کی دھنیں جلسہ گاہ میں گونجتی رہیں۔ علامہ اقبال کا کلام پورے ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعض مذہبی حلقوں نے اس پر اگرچہ اعتراض کیا ہے، لیکن حاضر عوام اس ساری کیفیت میں بھرپور طور پر شریک تھے اور ایک میلے کی طرح اس ساری صورت حال سے محظوظ ہورہے تھے۔
12۔ 22 و 23 دسمبر کی درمیانی رات جلسہ گاہ میں قوالی کا بھی اہتمام کیا گیا۔
 
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری موسس و سرپرست عالمی تحریک منہاج القرآن کی اس جلسہ گاہ میں تقریر ان دنوں ہر طرف زیر بحث ہے۔ انھوں نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کرپٹ اور نااہل حکمرانی کا سلسلہ قائم ہے اور اس گرداب سے قوم و ملک کو نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے انتخابات کا اہتمام کیا جائے، جن کے ذریعے گذشتہ آزمائے ہوئے کرپشن میں ملوث افراد پھر سے حکومت میں نہ آسکیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ایسی عبوری حکومت کی تجویز پیش کی ہے، جس میں حکومت کے اندر اور باہر موجود سیاسی قوتوں کی نمائندگی کے علاوہ عدلیہ اور فوج کی بھی نمائندگی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے 90 دن کی پابندی کو ضروری قرار نہ دیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کے آئین کا بھی سہارا لیا اور بتایا کہ ضرورت پڑنے پر اس مدت کو آئین میں موجود گنجائش ہی کے تحت بڑھایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے غیر جماعتی طرز حکومت کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اگر 10 جنوری تک ان کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو وہ 14 جنوری کو اسلام آباد میں عوامی پارلیمنٹ لگائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مینار پاکستان میں 2 ملین افراد موجود ہیں تو 14 جنوری کو اسلام آباد میں 4 ملین افراد ہوں گے۔ انھوں نے اپنی تنقید کا نشانہ زیادہ تر مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار دو سیاسی پارٹیوں کو بنایا۔
 
ڈاکٹر طاہر القادری کے ان اعلانات کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے حالات، طرز حکمرانی اور حکمرانوں کی جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، ان سے تو شاید اختلاف کی گنجائش بہت کم ہو، لیکن ان کے خاتمے اور تلافی کے لیے انھوں نے جو لائحہ عمل تجویز کیا ہے اس پر اختلاف رائے کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ اس کے لیے اگر ڈاکٹر صاحب اپنی طرف سے دی گئی مہلت کے ایام میں مشاورت کا ایک وسیع سلسلہ شروع کرسکیں اور ایک ایسے قابل عمل منصوبے پر وسیع حلقوں کی تائید حاصل کر سکیں، جس کے نتیجے میں موجودہ حالات کو مثبت ڈگر پر ڈالنے کا امکان بڑھ سکے تو بہتر ہوگا۔ اگر انہوں نے سولو فلائٹ کے ذریعے تبدیلی کے لیے کوئی اگلا اقدام کیا تو شاید اس کے وہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں جن کے حصول کی انہوں نے تمنا ظاہر کی ہے۔ ان کی بالغ نظری سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے باہر موجود قومی حیثیت رکھنے والے ان افراد سے مشاورت کا عمل شروع کریں گے کہ جن کے دامن پر وہ دھبے نہیں ہیں، جن کی نشاندہی انہوں نے 23 دسمبر کے اپنے خطاب میں بعض سیاست دانوں کے حوالے سے کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 224968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش