0
Monday 18 Feb 2013 23:42

کوئٹہ پھر لہو رنگ

کوئٹہ پھر لہو رنگ
تحریر: تصور حسین شہزاد

دہشت گردی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، سانحہ علمدار کے زخم ابھی تازہ تھے کہ کیرانی روڈ پر ایک اور سانحہ وقوع پذیر ہو گیا۔ کوئٹہ میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے خودکش دھماکے میں 85 افراد شہید اور 190 زخمی ہو گئے، شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان شہداء میں بہت سے بچے بھی ہیں جو سکول سے واپس آ رہے تھے۔ معصوم پھول بن کھلے مرجھا گئے۔ دھماکہ جس جگہ ہوا وہ ایک گنجان آباد جگہ ہے اور جس وقت یہ سانحہ ہوا اس وقت لوگ سودا سلف خرید رہے تھے۔

واٹر ٹینکر میں رکھا گیا بارودی مواد جو 800 سے ایک ہزار کلو گرام تک تھا زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ ملکی تاریخ کا بدترین خودکش دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اسکے نتیجے میں دو مارکیٹیں زمین بوس ہو گئیں۔ شہید ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے اس اندوہناک واقعے کے خلاف دس روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، تحفظ عزاداری کونسل نے اس واقعے کیخلاف سات روزہ جبکہ جعفریہ الائنس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ سنی اتحاد کونسل، تحریک انصاف اور سنی تحریک نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس دھماکے ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔

کچھ لوگ ان انسانیت کے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپتے نہیں تھکتے لیکن وہ اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں دہشت گردی نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ہیں۔ کسی جگہ، کسی کی بھی جان محفوظ نہیں اور کسی کو اس کی جان کے تحفظ کی یقین دہانی بھی نہیں کرائی جا سکتی، آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے مگر شائد ہی کسی نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایسا طریقہ کار اختیار کیا ہو جیسا کہ ہماری قیادت نے اختیار کیا، خصوصاً نائن الیون کے بعد بارہ سال ہونے کو آ رہے ہیں، بجائے یہ کہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ جس سے دہشت گردوں کا قلع قمع ہو سکے اس کے برعکس بہتر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے بھی کوئی بھی مسئلہ حل اس وقت ہوتا ہے جب اس مسئلے کی حقیقت کو تسلیم کیا جائے، ہم نے تو کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ دہشت گردی بھی ہمارا مسئلہ ہے۔

دوست ممالک سمیت پوری دنیا ہمیں باور کرواتی رہی کہ ہمارے یہاں دہشت گرد موجود ہیں مگر اس کے جواب میں ہم نے فقط ایک پالیسی اپنائی ہوئی تھی اور وہ تھی انکار کی۔ مختلف عوامی مقامات پر خودکش حملے ہوئے ہم انکار کی پالیسی پر قائم رہے، محترمہ شہید بےنظیر بھٹو اور بشیر بلور سمیت کئے سیاسی رہنما و کارکن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر ہم انکار پر قائم رہے حتیٰ کہ جی ایچ کیو، مہران بیس کراچی اور کامرہ پر ایک سے زائد دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں مگر اس کے باوجود ہم دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر اور واضع حکمت عملی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہوئے، نتیجہ آج مملکت خداداد میں دہشت گرد پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور اُن کی ہمت یہاں تک بڑھ گئی کہ اہل تشیع کو بسوں سے اتار کر ان کے مسلک کا تعین کرنے کے لئے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں سر عام گولیاں مار کر شہید کر دیتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ سوتے ہوئے شخص کو تو جگایا جا سکتا ہے مگر جاگتے ہوئے شخص کو نہیں جگایا جا سکتا۔

کچھ لوگ ان درندہ صفت انسانیت کے دشمنوں کو مجاہدین کا روپ دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو انہیں کلمہ گو مسلمان کہہ کر ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کیسے مجاہدین ہیں جو جی ایچ کیو، مہران بیس، کامرہ اور دیگر فوجی تنصیبات پر حملہ کر کے دنیا میں واحد مسلم ایٹمی ریاست کو ہی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ کیسے کلمہ گو مسلمان ہیں کہ جو داتا دربار، امام بری کے مزار پر، جامعہ نعیمیہ، محرم اور ربیع الاول کے جلوسوں پر اور رمضان المبارک کی مقدس ترین 27 ویں شب کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر دہشت گردی کے حملے کرتے ہیں۔

اگر یہ حقیقتاً مجاہدین ہیں اور امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر پاکستان میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے 45 ہزار افراد کی نسبت افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو افواج کے فقط دو ہزار 275 فوجی ہی کیوں ہلاک ہوئے ہیں اور یہی صورت حال عراق کی ہے، نہیں جناب یہ مجاہدین نہیں بلکہ یہ فرقہ پرست دہشت گرد ہیں اگر اب بھی ان کے متعلق کسی کو کوئی شک ہے تو فقط اس بات پر غور کر لیں کہ ان نام نہاد مجاہدین کے ساتھ کن کن تنظیموں کا الحاق و اتحاد ہے اگر یہ حقیقت میں مجاہدین ہوتے تو پھر لشکر جھنگوی اور اس جیسی دیگر فرقہ پرست تنظیمیں ان کے دست و بازو نہ ہوتے۔

ہماری بدقسمتی کہ 70ء میں ایک آمر جنرل یحیی کو امیر المومنین بنانے کے چکر میں جنرل شیر علی نے جس مُلا ملٹری الائنس کی بنیاد رکھی تھی، اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، اس وقت تو سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے جنرل یحیی کا خواب پورا نہ ہو سکا لیکن اس کے بعد جنرل ضیاء کے دور میں اسلام کے نام پر ان فرقہ پرست عناصر کو پروان چڑھایا گیا، ان سنپولوں کی دودھ پلا پلا کر پرورش کی گئی جس کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ دنیا میں وزیرستان کو یونائیٹڈ اسٹیٹ آف ٹیرر ازم کے نام سے پکارا جانے لگا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے مقتدر حلقوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

اس دہشت گردی کے نتیجے میں ملکی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی موثر اور مربوط حکمت عملی بنانا تو دور کی بات ہے ہم نے تو اس کے بر عکس یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ جو وجہ ہمیں برباد کر رہی ہے اس سے دنیا کو ڈرا کر امداد کے نام پر بھیک مانگتے ہیں اور اسی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اب ان ملک دشمن قیمتی اثاثوں سے جان چھڑانے کا وقت آ گیا ہے ورنہ اگر اب بھی ہم اسی پالیسی پر کاربند رہے تو ایک جانب دہشت گرد اسی طرح انسانی خون سے ہولی کھیلتے رہیں گے اور ہم بےمعنی اور فضول مذمتیں، بیانات اور امن کانفرنسیں کر کے دل بہلاتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 240598
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش