3
0
Monday 3 Jun 2013 14:17

امام خمینی (رح) اور ان کے پیروان

امام خمینی (رح) اور ان کے پیروان
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
  
یہ 11 جنوری 1979ء کا دن تھا، ابھی ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا اور امام خمینی جو اس انقلاب کی روح تھے، فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ ایران میں ان کی تحریک کامیابی کے زینے طے کر رہی تھی، عاشقانِ امام خمینی، ایرانی عوام کی طرف سے شہادتوں کے نمونے پیش کئے جا رہے تھے۔ پوری دنیا اس تحریک کو مانیٹر کر رہی تھی، پاکستان میں اس انقلاب کی حمایت میں کئی ایک کام ہوئے تھے، اس روز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مرکزی مجلس مشاورت کے رکن علامہ سید صفدر حسین نجفی اور لاہور کی ایک معتبر شخصیت سیٹھ نوازش علی کو لاہور ایئر پورٹ پر علماء کرام، معززین شہر اور پاکستانی طلابء کی انقلابی فکر تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اراکین بڑی تعداد میں موجود تھے، یہ دو رکنی وفد دراصل لندن۔ مانچسٹر کے راستے پیرس جا رہا تھا، جونہی وفد کے اراکین طیارے کی طرف بڑھے ہوائی اڈہ "نہضت ما خمینی است، رہبر ما خمینی است" کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھا، علامہ صفدر نجفی اور شیخ نوازش صاحب نے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا کر دیا۔ 12جنوری کو وفد مانچسٹر پہنچا، دو راتیں وہاں گذاریں اور پھر مولانا امیر حسین نجفی (والد محتر م ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید) کے ہمراہ برمنگھم روانہ ہوگیا، جہاں مولانا امیر حسین نجفی خدمات دینی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے، 16 جنوری کو یہ تین رکنی وفد پیرس روانہ ہوگیا، ہوائی اڈہ سے یہ وفد پیرس میں مقیم ایک مومن گلزار حسین کے گھر پہنچا جہاں میزبان نے مہمانوں کی تواضع کی۔
 
اگلے دن یعنی 17 جنوری 1979ء کے دن یہ وفد جو اب چار رکنی ہوچکا تھا، امام خمینی کے حضور پیرس کے نزدیک واقع ان کی رہائش گا ہ پہنچ گیا تھا، جس وقت یہ لوگ وہاں پہنچے نماز ظہر کی تیاری کی جا رہی تھی، بہت بڑی تعداد میں لوگ نماز کی ادائیگی کیلئے جمع تھے، وفد نے بھی نماز باجماعت با امامت حضرت امام خمینی ادا کی، نماز کے بعد فوری طور پر وہاں انتظام انصرام کرنے والوں میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ پاکستان سے ایک وفد ملاقات امام کو آیا ہے، دوپہر کے کھانے اور چائے کے بعد کارکنان نے امام کی خدمت میں وفد کی آمد اور ملاقات کی خواہش پہنچائی، تھوڑے ہی وقت کے بعد اذن ملاقات مل گیا۔ وفد کے چاروں اراکین امام خمینی (رح) کی خدمت میں پہنچنے کی سعادت پاچکے، بعد از سلام قبلہ صفدر حسین نجفی نے پاکستانی قوم بالخصوص مومنین کی جانب سے سلام پہنچایا اور امام خمینی (رح) کی قیادت میں جاری دینی انقلابی تحریک کی حمایت اور اس حوالے سے پاکستان میں کیئے گئے کاموں کی تفصیل پیش کی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں امام خمینی (رح) کی انقلابی تحریک کی حمایت میں انقلاب سے پہلے ہی کئی مظاہرے کئے گئے تھے اور شاہ کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا تھا، ان مظاہروں کو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنے پلیٹ فارم سے منظم کیا تھا جبکہ کئی ایک پمفلٹ اور دیگر نشر و اشاعت بھی اس حوالے سے کی گئی تھی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اس دور کے مسئولین نے اس حوالے سے ایک خصوصی پیغام اور انقلاب کی حمایت پر مشتمل کاموں کی تفصیل کی فائل علامہ سید صفدر نجفی کے ہاتھ میں دی تھی، تاکہ امام خمینی کو پیش کی جاسکے۔ وفد میں شریک سیٹھ نوازش علی نے واپس آکر اس کی تفصیل بتائی اور امام خمینی (رح) کے دعائیہ کلمات بسلسلہ مضبوطی و تقویت آئی ایس او بھی بتائے۔ یہ وفد وہاں سے عراق زیارات اور عمرہ کرکے واپس آیا تھا۔ یہ وہ پہلا براہِ راست رابطہ تھا جو یہاں کے انقلاب کے حامیوں نے امام خمینی سے کیا تھا، اس کے علاوہ شہید قائد کی نجف میں زندگانی اور حصول تعلیم کے دوران امام کے ساتھ قربت کے واقعات ملتے ہیں، ایسی قربت جو ایسی محبت میں بدلی کہ اس کے بعد شہید قائد، امام (رح) کی فکر پر عمل پیرا اور جان نچھاور کرتے گذارتے ہیں۔
 
امام راحل حضرت امام خمینی (رح) نے ہمارے ہمسائے ملک ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا، اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد آنے والا انقلاب اسلامی انقلاب اور اس کا نظام ولایتِ فقیہ منتخب کیا گیا، ایران میں آنے والے انقلاب کو دنیا بھر میں مختلف نظروں سے دیکھا گیا، کسی نے اسے شیعہ انقلاب کہا تو کوئی اسے اسلامی انقلاب کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہوا، کسی نے اسے رجعت پسند ہونے کا طعنہ دیا اور کسی نے امام خمینی (رح) کی ذات کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے اس سے بیزاری یا لاتعلقی کا اعلان کیا کہ یہ ایک روایتی پیر طریقت ہیں، بعض بونے قد کے لوگوں نے امام خمینی (رح) کو ایک خونی کے طور پر پیش کیا اور کسی چھوٹے ظرف والے نے یہ شرعی شق نکالی کہ اتنے لوگوں کا خون کس کے سر ہوگا، کسی نے یہ الزام دھر دیا کہ ایران والوں نے اپنا تیرہواں امام بنا لیا ہے، کوئی سوچ رہا تھا کہ یہ انقلاب بس چند دن کی مار ہے، امریکہ اسے نیست و نابود کرکے چھوڑے گا، کسی کو یہ شبہ تھا کہ اس انقلاب کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے، چونکہ شاہ امریکہ کا پٹھو تھا۔

بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں تھیں، جو بانی انقلاب امام خمینی (رح) اور انقلاب کے بارے، انقلاب کی تحریک اور اس کی کامیابی کے بعد کی جاتی رہیں، ان شکوک و تردد کا شکار ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص تھے، اور اس میں علماء بھی کثرت میں تھے۔ یہ پاکستان میں اداروں اور تنظیموں کا تشکیلاتی دور تھا، کوئی مرکزیت نہ تھی، ہاں البتہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نام سے ایک طلبہ تنظیم فعال تھی، جس کا نیٹ ورک آہستہ آہستہ پھیل کر ملک گیر ہو رہا تھا۔ ۔1972ء میں بننے والی تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اس نے انقلاب سے قبل انقلاب کی حمایت کی تھی اور امام خمینی (رح) کو نہ صرف ایک انقلابی فکر رہبر کے طور پر شناخت کیا تھا بلکہ ان کے نظریہ ولایت کو قبول بھی کیا تھا، اس کی حمایت بھی کی تھی۔
 
امام خمینی (رح) کے پہلے وفد کے نمائندے 20 جنوری 1979ء کو انجینئر محمد اور ڈاکٹر کمال پاکستان تشریف لائے تو وہ بھی اسی کاروان الہٰی کے دفتر تشریف لائے، ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے امام خمینی (رح) سے عشق و محبت کے طور پر پوری قوم بالخصوص نوجوانوں میں ان کی تقلید کی مہم چلائی گئی تھی، نوجوانوں نے امام خمینی (رح) کے نظریہ ولایت فقیہ کے ساتھ اپنی عقیدت و وابستگی کا اظہار اس طرح بھی کیا کہ نماز کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے ایک ترتیب سے مرگ بر دشمنِ ولایت فقیہ کا نعرہ لگایا جاتا، اس نعرہ کو رواج دینے میں بھی اس تنظیم نے بہت قربانیاں دیں۔ دراصل امام خمینی اور ان کے نظام حکومت نیز اسلامی انقلاب پر پاکستان کی روایت پسند شیعت کے اعتراضات کا جواب اور انقلاب کا دفاع کرنے کیلئے جس عشق و وابستگی کی ضرورت تھی وہ صرف آئی ایس او کے صالح فکر نوجوانوں میں ہی تھا۔
 
اس زمانہ میں انقلاب کا صحیح تعارف کروانے کیلئے یہ پیروان ولایت گاؤں گاؤں جا کر دہ فجر کے پروگرام کرتے تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ vcr کا زمانہ تھا، ہم کرایہ پر vcr لیتے اور مختلف یونٹس میں جا کر انقلاب و امام خمینی کی فلمیں دکھاتے تھے، ہمارے ساتھ مرکز کی طرف سے پاکستان میں مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ایرانی طلباء بھی ہوتے، ان کی موجودگی سے ذرا پروگرام کی اہمیت بڑھ جاتی اور لوگ بہت خوش بھی ہوتے، یہ سلسلہ جنگ کے حالات، بالخصوص جب صدام نے جنگ میں کیمیائی گیس شلمچہ و حلبچہ میں استعمال کی تو اس کے دردناک مناظر پر مشتمل فلموں کی نمائش کی جاتی، تاکہ ایران کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کو زائل کیا جاسکے۔ امام خمینی کی جا نگسال رحلت پر بھی ایسا ہی ہوا تھا، اس تنظیم کے نوجوان ہی تھے جنہوں نے گاؤں گاؤں جا کر ان کے تاریخی جنازہ کی فلمیں دکھائیں۔

بہر حال یہ تاریخ ہے، اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ ولایت فقیہ کی معرفت و تعارف کیلئے اس تنظیم نے جو قربانیاں دیں، انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ ان کے آنے سے پہلے کسی نے ولایت فقیہ کا صحیح تعارف ہی نہیں کروایا، ولایت فقیہ کو اپنے دستور کا حصہ بغیر معرفت کے نہیں بنایا گیا تھا۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بعض معروف و نامور حضرات اور ان سے وابستہ گروہ نوجوان نسل کو اس حوالے سے گمراہ کر رہے ہیں، اس معاملہ کا تعلق ہماری قومی و تنظیمی تاریخ سے ہے، اس لئے ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر قلم اٹھائیں اور نوجوانوں کو گمراہی سے بچاتے ہوئے تاریخ کی درستگی کا فرض و قرض بھی ادا کر دیا جائے۔ حقیقت میں اگر کسی کو عاشقان امام راحل و پیروان ولایت کہا جاسکتا تھا تو وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیش پاکستان کے کارکنان ہی تھے اور آج بھی ہیں۔ 

لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ آج سوشل میڈیا کا تیز ترین دور ہے، ہر ایک کے پاس موبائل کی شکل میں ویڈیو کیمرہ اور ریکارڈر ہوتا ہے، بات ابھی منہ میں ہوتی ہے اور فوری میڈیا پر جاری ہو جاتی ہے، الیکٹرانک میڈیا پر نشر کروانے کیلئے تو ایک عدد MQM اور الطاف حسین بننا پڑتا ہے، جو صرف ایک ہی کافی ہے۔ مزید کی گنجائش اس کمزور و ناتوان مملکت میں شائد نہیں ہے، سوشل میڈیا متبادل ذریعہ بن کے آیا ہے، اس کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس کے مخالف اور اس کو صیہونی سازش قرار دینے والے بھی اس کے استعمال سے اسی طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں جیسے دیگر عام لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہوتے ہیں۔

دراصل سوشل میڈیا کے جس قدر فوائد ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر اس کے نقصانات بھی ہیں، ایک وقت تھا کوئی کسی کے بارے بات کرتا تھا تو دوسرے ہی لمحے اس سے مکر بھی جاتا تھا، اور کہی گئی بات بھی وہیں کی وہیں رہ جاتی تھی، اب ایسا نہیں ہوتا نہ ہی آج کل ایسا ممکن ہوتا ہے کہ آپ کوئی بونگی ماریں اور آپ کی بونگی پکڑی نہ جائے، آپ کوئی خیانت کریں اور وہ خیانت چھپ جائے، جس طرح سوشل میڈیا کو منہ پھٹ کہا جاسکتا ہے، ایسے ہی اس کے استعمال کرنے والوں کا مزاج بھی اب منہ پھٹ سا ہوگیا ہے، سوشل میڈیا کی برکات سے لگی لپٹی کے بغیر بات کرنا تو جیسے اب قومی مزاج بن گیا ہے، بلکہ جس طرح اردو بولنے والے کسی پنجابی کو اگر لڑنا پڑ جائے تو اسے دوران لڑائی روایتی و رائج گالیاں نکالنے کیلئے پنجابی کا ذائقہ لازمی چکھنا پڑتا ہے، ایسے ہی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے اگر بات کھل کھلا کے نہ کی جائے تو اس کا مزہ دوبالا نہیں ہوتا۔ کالم کے آخر میں یہ بات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ذمہ دار شخصیات اور تنظیموں و اداروں سے متعلق افراد کو بہت زیادہ محتاط رویوں کی ضرورت ہے، غیر ذمہ دارانہ بیانات و خیالات کا اظہار خود ان کیلئے جگ ہنسائی کا ساماں بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 270237
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اگر معرفت ہوتی تو انحراف نہ ہوتا اور طاغوتی نظام میں نہ جاتے۔
بہر حال یہ تاریخ ہے، اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ ولایت فقیہ کی معرفت و تعارف کیلئے اس تنظیم نے جو قربانیاں دیں، انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ ان کے آنے سے پہلے کسی نے ولایت فقیہ کا صحیح تعارف ہی نہیں کروایا،
چہ عجب است، معرفت کے بغیر ہی اتنی زحمات سہتے رہے اور نظریہ کی جنگ لڑتے رہے، جن لوگوں کو تیار میدان ملا ہے ان کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ بات کریں، سلام بر شہید قائد و شہید ڈاکٹر کہ جنہوں ولی فقیہ کی شناخت و معرفت کیلئے نوجوانون میں شمع انقلاب روشن کی۔۔
ارشاد ناصر
ہماری پیشکش