1
0
Thursday 12 Sep 2013 14:58

مسئلہ شام اور امریکہ کی مشکلات

مسئلہ شام اور امریکہ کی مشکلات
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
10 ستمبر 2013ء کو امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی قوم سے خطاب کیا۔ ان کا یہ خطاب عالمی حلقوں میں بھی اہمیت کا حامل تھا۔ اوباما نے اپنے خطاب میں بہت سے تاریخی حقائق کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ شام کے مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس خطاب میں انھوں نے اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکہ کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ ہمارا مقصد فقط شام کی حکومت کو سبق دینا ہے اور شام میں مخصوص اہداف پر حملوں کے ذریعے اقوام عالم کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے قبل دو بار سوچیں۔ اس خطاب کی ایک اہم بات جو تقریباً تمام امریکی اداروں کی پریس کانفرنسوں اور بیانات میں یکساں ہے، یہ تھی کہ امریکہ ہمیشہ اپنے وضع کردہ موقف کو ہی سچ سمجھتا ہے اور اسے سچ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ یہ امریکی اداروں کی کامیابی ہے کہ وہ اپنے عوام کو حقیقی حالات سے بے بہرہ رکھتے ہیں۔ جس کا اندازہ اب کافی امریکیوں کو ہوچکا ہے۔ اکثر امریکی بالخصوص سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد اب یہ جان چکے ہیں کہ ہمارے ادارے حتی کہ ہمارا صدر عوام کے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی عوام کا اپنے اداروں اور حکمرانوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
 
شعور کا یہ سفر ابھی نامکمل اور ادھورا ہے۔ دنیا کی بہت سی اقوام کی مانند امریکی بھی اپنی افواج اور حکومتوں کے بہت سے جرائم سے ناآگاہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکیوں کو اپنی افواج اور حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے جرائم کا اندازہ ہو جائے تو وہ اپنے امریکی ہونے پر بین کریں اور اپنی شہریت کے خاتمے کے لیے درخواستیں دائر کر دیں۔ باراک اوباما نے اپنے خطاب میں شام کے بارے میں جو راگنی گائی کچھ یوں ہے:
"پچھلے دو برسوں کے دوران جو چیز بشار الاسد کی استبدادی انتظامیہ کے خلاف متعدد احتجاجی مظاہروں کی صورت میں شروع ہوئی تھی، وہ ایک ہولناک خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔ 100،000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ لاکھوں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکہ اس زمانے میں فلاحی امداد فراہم کرنے، اعتدال پسند حزب اختلاف کی مدد کرنے اور کسی سیاسی تصفیے کو تشکیل دینے کے لئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا۔ یہ صورتِ حال 21 اگست کو اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی، جب اسد حکومت نے زہریلی گیس کے ذریعے سینکڑوں بچّوں سمیت، ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ زہریلی گیس سے ہلاک ہونے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کی قطاروں میں پڑی ہوئی لاشیں، منہ سے نکلتا ہوا جھاگ، گھٹتا ہوا دم۔۔۔۔۔۔"
 
قارئین کرام! اندازہ لگائیں اتنے دھکے کھانے اور اپنے جھوٹ کے عیاں ہونے کے باوجود حضرت اوباما فرما رہے ہیں کہ بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے خود بخود خانہ جنگی میں بدل گئے اور امریکہ تو صرف وہاں فلاحی مدد فراہم کر رہا ہے، نیز اعتدال پسندوں کو مدد کر رہا ہے، تاکہ سیاسی تصفیے تک پہنچا جاسکے۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
حضرت اوباما مزید فرماتے ہیں:
21 اگست کو ہماری مشترکہ انسانیت کے احساس کے ساتھ ساتھ ان بنیادی اصولوں (کیمیائی ہتھیاروں کو نہ استعمال کرنا) کی خلاف ورزی کی گئی۔ کوئی اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے۔ دنیا نے ہزاروں ویڈیوز اور سیل فون سے اتاری ہوئی تصویروں کو دیکھا ہے اور سوشل میڈیا پر اس حملے کی تفصیلات کا مشاہدہ کیا ہے اور فلاحی امداد کی تنظیموں نے زہریلی گیس کی علامتوں کے حامل لوگوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے حالات سے آگاہ کیا ہے۔ ڈکٹیٹر ظلم و ستم ڈھاتے ہوئے ایک ایسی دنیا کا سہارا لیتے ہیں جو اس وقت تک چشم پوشی کرتی رہتی ہے، جب تک ہولناک تصویروں کے نقش یادداشت سے مِٹ نہیں جاتے، لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
 
امریکہ نے ستر کی دہائی میں ویتنام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کا چراغ گل کیا، ہزاروں ایکٹر اراضی کو بنجر کیا اور آج بھی لاکھوں انسان ان کیمیائی اثرات کے سبب مفلوج و معذور ہیں۔ امریکی حکمران کہتے ہیں کہ ہم نے 1997ء میں کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کئے۔ پس اس سے پہلے کے گناہ ہم سے معاف ہیں۔ بات تو یہ بھی ماننے والی نہیں کیونکہ انسانی جانوں کا ضیاع اور قتل عام معاہدوں پر دستخط کرنے سے کیسے معاف ہوسکتا ہے۔ اوباما کہتے ہیں کہ حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، کاش انہیں اس بات پر یقین بھی ہوتا۔
شاید اوباما نے اب تک اٹلی کے سرکاری نشریاتی ادارے RIA کی ڈاکومنٹری فلم Fallujah، The Hidden Massacre نہیں دیکھی۔ جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکی افواج نے 2004ء میں عراق کے شہر فلوجہ پر کیمیائی ہتھیار وائٹ فارسفورس کی بارش کی تھی۔ انھوں نے شاید نہیں دیکھا کہ ہزاروں انسان، اس کیمیائی ہتھیار کے سبب لقمہ اجل بنے۔ انہیں شاید نہیں پتہ کہ آج بھی فلوجہ میں ایسے بچے جنم لیتے ہیں جن میں ذہنی اور طبی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب کیمیائی ہتھیاروں کے سبب ہے، جو امریکی افواج نے CWC پر دستخط کرنے کے بعد استعمال کئے گئے۔
 
2009ء میں امریکہ بہادر نے افغانستان کے علاقے بگرام میں اسی وائٹ فاسفورس کا استعمال کیا، جسے بعدہ نیٹو کے سربراہ نے تسلیم کیا۔ 2009ء میں یمن میں سعودی جہازوں نے حزب اختلاف کے علاقوں پر اسی کیمیائی مادے سے حملے کیے۔ 2009ء سے 2012ء تک اسرائیل نے فلسطینیوں پر وائٹ فاسفورس بمز کا استعمال کیا۔ 2011ء میں نیٹو افواج نے لیبیا پر وائٹ فاسفورس بمب برسائے۔ بحرین میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آج بھی CS گیس استعمال کی جاتی ہے، جس سے متعدد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ مصر میں فوج نے 2011ء اور حالیہ مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے CS گیس استعمال کی۔ فلسطین میں ہر روز اسرائیل اس گیس کا استعمال کرتا ہے۔ کیا یہ سب واقعات اس سرخ لکیر کے زمرے میں نہیں آتے، جو اوباما نے اپنے گرد کھینچ رکھی ہے۔
 
امریکیوں کو اب ایسے بہت سے واقعات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ انھیں یہ تو نہیں معلوم کہ فلوجہ اور بگرام میں کیا ہوا تھا لیکن انہیں یہ ضرور پتہ ہے کہ عراق میں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں تھے۔ انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ عراق اور افغانستان کوئی پکنک پوائنٹس نہیں ہیں، جہاں جاکر ہمارے فوجی عیاشی کرتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں۔ امریکی جانتے ہیں کہ ان جنگوں نے ہمارے ہزاروں فوجیوں کی جانیں لیں، ہزاروں کو معذور کیا اور ہزاروں ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ امریکی اب جان رہے ہیں کہ ہمیں دنیا کا تھانے دار بننے کی کوئی ضرورت نہیں، اسی لیے تو اوباما کو اپنے خطاب میں کہنا پڑا:
آپ میں سے بہت سوں نے پوچھا ہے: اس مسئلے کو دوسرے ملکوں پر کیوں نہ چھوڑ دیا جائے یا ایسے حل کیوں نہ تلاش کئے جائیں، جن میں طاقت استعمال نہ کرنی پڑے؟ جیسا کہ مجھے بہت سے لوگوں نے لکھا ہے "ہمیں ساری دنیا کا پولیس مین نہیں بننا چاہیے۔"
اوباما کہتے ہیں: میں اس خیال سے متفق ہوں، اور میں شدت سے ایسے حل پسند کرتا ہوں، جو پرامن ہوں۔ گذشتہ دو برسوں میں، میری انتظامیہ نے سفارتکاری اور پابندیاں، انتباہات اور مذاکرات، سبھی کو آزمایا ہے، لیکن اس سب کے باوجود، اسد حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے۔
 
قارئین کرام! پنجابی میں محاورہ مشہور ہے’’جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔‘‘ میں دنیا کا پولیس مین نہیں ہوں، میں پرامن حل چاہتا ہوں، میں نے سفارتکاری کی ہے، پابندیاں لگائی ہیں، انتباہ کیا ہے، مذاکرات کرائے ہیں، لیکن اس کے باوجود اسد نے کیمیائی ہتھیار استعمال کر دیئے ہیں۔ میں شام کی سرزمین پر کسی امریکی فوجی کو قدم نہیں رکھنے دوں گا۔ میں عراق اور افغانستان کی طرح کوئی ایسی کارروائی نہیں کروں گا جس کا اختتام واضح نہ ہو۔ میں لیبیا یا کوسووو کی طرح کوئی طویل فضائی مہم نہیں چلاوں گا۔ اسد حکومت کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہماری فوج کیلئے کوئی حقیقی خطرہ بن سکے۔ میں نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ اسد پر دباو قائم رکھنے کے لیے اور ڈپلومیسی کے ناکام ہونے کی صورت میں ضروری کارروائی کے لیے اپنی موجودہ تیاری کو قائم رکھے۔ 

اوباما پھر کہتے ہیں:
امریکہ دنیا کا پولیس مین نہیں ہے۔ پورے کرہ ارض میں ہولناک واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ہر چیز کو درست کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب معمولی سی کوشش اور خطرہ مول لے کر ہم بچوں کو زہریلی گیس سے موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتے ہیں، اور اس طرح خود اپنے بچوں کو طویل مدت کے لیے زیادہ محفوظ کرسکتے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہے جو امریکہ کو مختلف بناتی ہے، یہی ہمارا خاصہ ہے۔ عاجزی کے ساتھ، لیکن عزمِ مصمم کے ساتھ عہد کیجیے کہ ہم اس بنیادی سچائی کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے۔
یہاں مجھے معروف صوفی بزرگ کا کلام یاد آرہا ہے، جو انھوں نے کسی عارفانہ نکتے کے لیے کہا تھا لیکن اس صورتحال پر بھی منطبق ہوتا ہے،
چھیتی آویں وے طبیبا نہیں تاں میں مر گئیں آں
جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے: حکیم صاحب جلدی آؤ نہیں تو میں مرنے لگا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 301101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شاہ جی اوبامے دیاں گلاں سن کے تسی طبیب نوں بلا رے او یا اوبامے نوں طبیب سمجھ رہے ہو، اے ذرا کلئیر کرو۔
ہماری پیشکش