0
Friday 18 Mar 2011 00:04

بحرین میں غیرملکی فوجی مداخلت

بحرین میں غیرملکی فوجی مداخلت
تحریر:ثاقب اکبر
بحرین خلیج فارس کے جنوب میں ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ اس کی کل آبادی تیرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کی اکثریت شیعہ مذہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے جن کا تناسب 70 سے 80 فیصد کے درمیان ہے۔ اسے جزائر بحرین بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت منامہ ہے۔ اس پر ایک طویل عرصے سے آل خلیفہ حکمران چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب سے ایک خصوصی پل کے ذریعے اس کا رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کا نام ’’فہد پل‘‘ ہے۔
تیونس سے اٹھنے والی انقلابی لہر نے جہاں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مسلمان اور عرب ممالک کو متاثر کیا، وہاں جنوری 2011ء سے بحرین کے عوام بھی اپنے جمہوری حقوق کے لیے باہر نکل آئے۔ یہ امر لائق توجہ ہے کہ ان تمام ملکوں میں گذشتہ کئی دہائیوں سے آمریتیں اور بادشاہتیں قائم ہیں۔ جہاں تک ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے مکاتب فکر کا تعلق ہے تو کہیں شوافع زیادہ آباد ہیں تو کہیں مالکی، کہیں زیدی شیعہ زیادہ ہیں تو کہیں اثنا عشری اور کہیں اباضیہ ہیں تو کہیں حنبلی۔ گویا تمام اسلامی مکاتب فکر کے مسلمان ظلم واستبداد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جہاں شیعہ سنی مل کر رہتے ہیں وہ مل کر آواز اٹھا رہے ہیں۔ بحرین کے عوام کا پسندیدہ نعرہ ہے’’ ہم نہ شیعہ ہیں نہ سنی ہیں، ہم بحرینی ہیں بحرینی ہیں۔‘‘
خطے کے تمام آمر اور بادشاہ خوفزدہ ہیں۔ آمریت کے ایوان لرزہ براندام ہیں۔ خاندانی بادشاہتوں کے بلند وبالا محلوں کی دیوار میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ ایک جگہ عوام اٹھتے ہیں تو دوسری جگہ بیٹھے ہوئے غیر نمائندہ آمر اور غیرقانونی بادشاہ اسے بچانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ کو نہ روکا گیا تو سب ایک ایک کر کے چلے جائیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کی پریشانی سب سے زیادہ ہے۔ عوام کی نمائندہ حکومتیں برسراقتدار آگئیں تو جعلی صہیونی ریاست ختم ہو جائے گی۔ دیس دیس سے لائے گئے پرندے واپس اپنے اپنے دیس کو اُڑ جائیں گے اور حقیقی فلسطین پھر سے نقشۂ عالم پر ابھر آئے گا۔ امریکی افواج اور اُس کے بحری بیڑے واپسی کا رُخ کریں گے۔ امریکہ کے حمایت یافتہ آمر اور بادشاہ چلے گئے تو عوام کی منتخب حکومتیں آئیں گی، جنھیں اپنی بقاء کے لیے امریکہ کی آشیر باد نہیں درکار ہو گی بلکہ وہ اپنے عوام کی منشا کو دیکھیں گی۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیاں بدل جائیں گی اور حقیقی نیو ورلڈ آرڈر ظہور پذیر ہو گا۔
ایسے میں یہ اندوہ ناک خبر آئی ہے کہ سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر بحرین میں اپنی فوجیں داخل کر دی ہیں۔ بحرین کے عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ عوام جنازے اٹھائے رہے ہیں اور تکبیر کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ فہد پل عبور کر کے وہ شاہی فوجیں بحرین کے عوام کی تحریک کچلنے کے لیے داخل ہو گئی ہیں، جنھوں نے آج تک اسرائیل کے خلاف ایک گولی نہیں چلائی۔
بحرین عوام کیا چاہتے ہیں۔ اُن کے نعرے، اُن کے بینر اور اُن کے انٹرویو ساری حقیقت آشکار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بحرین میں نیا آئین چاہتے ہیں، ہم منتخب آئینی حکومت چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ فوج اور پولیس میں غیرملکیوں کی بھرتی بند کی جائے۔ انھیں شکایت ہے کہ ان اداروں میں عرب دنیا کے علاوہ بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو بھرتی کر لیا گیا ہے، جو عربی بھی نہیں بولتے، جنھیں اس سرزمین کے فرزندوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اُن کا بحرینی عوام سے کوئی رشتہ نہیں، وہ بادشاہ کی خوشنودی کے لیے جس پر چاہتے ہیں گولی چلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بحرینی پولیس اور فوج بڑی تعداد میں جنوبی ایشیا سے بھرتی کی گئی ہے۔
بحرین کی چھوٹی سی ریاست میں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ بھی براجمان ہے۔ اُس نے خود کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ اگر اُس نے بلاواسطہ حصہ لیا تو پورے عالم عرب میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ردعمل ہو گا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ سعودی اور خلیجی افواج بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسی آل خلیفہ کی درخواست پر بحرین میں داخل ہوئی ہیں، تاکہ وہاں کی تنصیبات اور اہم عمارات کی حفاظت کر سکیں جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ اڑھائی ماہ سے چلنے والی تحریک، مظاہرین کی طرف سے مسلسل پرامن ہے۔ ابتدا میں پولیس نے اُن پر ضرور حملہ کیا تھا، جس میں چار بحرینی شہری شہید ہو گئے اور متعدد زخمی ہوئے تھے، اس کے باوجود دارالحکومت منامہ کے ’’پرل اسکوائر‘‘ میں دھرنا دیے ہوئے یہ مظاہرین مسلسل پرامن احتجاج کر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے ملک کی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کی رائے میں سعودی قیادت میں غیر ملکی فوج کی حالیہ مداخلت امریکی مشوروں کے بعد کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے حال ہی میں خطے کا دورہ کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ سعودی حکام نے منامہ میں بحرینی حکام سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا، جس کے بعد خلیج تعاون کونسل کے نام پر فوج بحرین میں داخل کی گئی جہاں پہلے ہی امریکی بحری بیڑہ موجود ہے اور اس وقت امریکی فوجی مشوروں کے مطابق یہ فوج بحرین میں کارروائی کر رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ امریکہ جس نے صدامی افواج کی کویت میں مداخلت کے خلاف نیٹو افواج کے ساتھ مل کر اتنی بڑی فوجی کارروائی کی تھی، وہ بظاہر سعودی افواج کی بحرین میں مداخلت کی حمایت کر رہا ہے۔
سعودی فوجی مداخلت کے اگلے روز کو بحرینی عوام نے ’’یوم الغضب‘‘ کے طور پر منایا ہے۔ بدھ کے روز پورے ملک میں مکمل شٹر ڈائون ہڑتال رہی۔ بحرینی فوج نے میدان اللؤلؤ(پرل اسکوائر) میں موجود مظاہرین پر حملہ کر دیا اور فائرنگ کی۔ بہت سے مظاہرین شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔
ادھر بحرین کے اپوزیشن رہنمائوں نے سعودی قیادت میں خلیجی افواج کے بحرین میں داخلے کی مذمت کی ہے، بحرینی پارلیمان کے سابق رکن جواد فیروز نے اپنے ایک انٹرویو میں سعودی فوجی مداخلت کو ایک آزاد ملک پر قبضے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بحرین میں علماء کی کونسل (جسے 14فروری کی علماء کونسل کہتے ہیں) کے ترجمان عقیل الموسوی نے کہا ہے کہ بحرین کے عوام فوج کی گولیوں کی بوچھاڑ اور ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہیں اور حکمرانوں کے ایجنٹوں کے مقابل ہر روز نئی کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بحرینی حکمرانوں کی حمایت میں غیر ملکی فوجوں کی مداخلت سے عوام کے پایۂ استقلال میں لغزش پیدا نہیں ہو گی۔
بحرین کی جمعیتِ حقوقِ انسانی کے سربراہ محمد مسقطی نے اس موقع پر اپنے ردعمل میں کہا کہ میدان اللؤلؤ سے خواتین اور بچوں کو نکال لیا جائے گا اور مرد اور جوان اس میدان میں موجود رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بحرینی جانتے ہیں کہ سعودی فوج مظاہرین کے خلاف کارروائی کے لیے آئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بحرین میں کسی بھی طرف سے کی جانے والی فوج مداخلت بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور ایک آزاد ملک پر ناجائز قبضے کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحرین کے مسائل کامل طور پر داخلی ہیں، کوئی بین الاقوامی یا علاقائی تنظیم یا فوج بحرین کے امور میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔
دوسری طرف دنیا کے مختلف ملکوں میں بحرین میں سعودی فوجی مداخلت پر عوام اور رہنمائوں کی طرف سے مذمت جاری ہے۔ بعض ملکوں میں اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
دراصل سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر بحرین میں فوجی مداخلت سے بہت غلط مثال قائم کی ہے، جس کے بہت برے نتائج برآمد ہوں گے جس سے خود سعودی حکمران بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں غیر ملکی فوجوں کو مداخلت کی دعوت دے کر بحرینی حکمرانوں نے اپنی فوج اور پولیس پر عدم اعتماد یا نااہلیت کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب قبل ازیں یمن میں حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے اپنی بری افواج کے علاوہ فضائیہ کو بھی استعمال کر چکا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق گذشتہ دنوں سعودی فوج کے سربراہ نے پاکستان کا جو دورہ کیا تھا اور پاک فوج کے سربراہ سے جو ملاقات کی تھی وہ بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر تھی۔ اس میں سعودی جنرل نے پاک فوج سے مدد کی درخواست کی تھی۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ پاک فوج عرب عوام کی اس موجودہ عوامی تحریک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی، چونکہ زود یا بدیر یہ آمر حکمران اور استعماری ایجنٹ ضرور ختم ہو جائیں گے اور خطے میں عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم ہوں گی۔ لہٰذا ہمیں امید ہے کہ پاک افواج عرب عوام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 60172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش