0
Saturday 7 May 2011 17:48

سانحہ ایبٹ آباد۔۔۔پاک سرزمین شاد باد

سانحہ ایبٹ آباد۔۔۔پاک سرزمین شاد باد
تحریر:ثاقب اکبر
جو لوگ ضرورت کی شادی کو محبت کی شادی سمجھ لیتے ہیں ان کا آخر کار یہی حال ہوتا ہے جو آج کل ہمارا ہے۔ معاملہ صرف امریکہ کا ہی نہیں کسی طرف سے بھی ”شادی“ کا پیغام آتا ہے تو ہمارے ”مائی باپ“ اسے اسی طرح سے جواب دیتے ہیں۔ ”امن کی آشا“ کا پیغام ہو یا ”امریکی پتلی تماشا“ کا اظہار محبت، ہم ہر کسی کو سنجیدہ لے لیتے ہیں۔ ان کی ضرورت کو بھول جاتے ہیں اور ماضی کی کدورت کو بھی۔ ایسی سنجیدگی کا انجام رنجیدگی ہی ہوتا ہے۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ایبٹ آباد کا سانحہ بقول کسے سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے کم نہیں البتہ پاکستان کی حدود خود مختاری کی پامالی کے تناظر میں۔ کیا یہ ایک عذر لنگ نہیں کہ کہا جائے کہ ہمیں صرف ملک کی مشرقی سرحدوں سے خطرہ تھا، شمال مغربی سرحدوں سے کوئی خطرہ نہ تھا کہ آسمان کو گھورنے والی ہماری آنکھیں بند تھیں۔ خدا جانے یہ نادیدہ نگاہیں سیاچین پر بھارتی قبضے کی کیا تاویل کریں گی۔ ہماری عقابی ذہانتوں نے پاک امریکہ تعلقات کے ماضی پر نظر رکھی ہوتی تو ایسی بات کہنے کی نوبت نہ آتی۔ کیا امریکی ڈرون حملے پاک سرزمین پر نہیں ہو رہے؟ کیا یہ حملے پاک فوج کے احتجاج کے باوجود جاری نہیں ہیں؟ کیا امریکی اہلکار کوئٹہ پر ڈرون حملوں کی بات نہیں کرچکے؟
امریکی راہنما جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں انھیں اب سامنے رکھ کر آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے بہت ہی بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایبٹ آباد جیسا دوسرا واقعہ برداشت نہیں کریں گے اور مس ایڈوینچر کا جواب دیں گے، لیکن یہ جواب بہت سے دیگر فیصلوں کا متقاضی ہے۔ جب تک عسکری اور سیاسی قیادت میں امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے کامل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو جاتی اس وقت تک ایسا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ سانحہ ایبٹ آباد کے بعد صدر مملکت اور وزیراعظم کے ابتدائی بیانات سے امریکی حمایت ہی ظاہر ہوتی ہے۔ تین چار روز بعد سیکرٹری خارجہ اور آرمی چیف کی طرف سے آنے والے بیانات میں قومی و ریاستی موقف کو نسبتاً جرا ت مندانہ طریقے سے بیان کیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ”ڈومور کا راگ الاپنا بند کیا جائے، قومی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔“ ان بیانات کے بعد وزیراعظم کے بیانات میں نسبتاً حوصلہ مندی کے اشارے ملنا شروع ہوئے ہیں لیکن صدر صاحب تو صدر صاحب ہیں، جرا ت مندی نے ان سے کوئی ایسا رخ پھیرا ہے کہ فراز کا ایک شعر کچھ ترمیم سے صادق آتا ہے
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنی تو ”ضرورت“ تھی کہ آتے جاتے
دوسری طرف ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے پہلے درجے کی قیادت کو بھی ابھی تک اظہار جرات کی سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے قائد کو ”قاعد“ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ قاعد کا معنی ہے بیٹھا ہوا یا بیٹھ رہنے والا۔ قرآن مجید کی ایک آیت یاد آ رہی ہے۔
فَضَّلَ اللّٰہُ ال ±مُجٰھِدِی ±نَ عَلَی ال ±قٰعِدِی ±نَ اَج ±رًا عَظِی ±مًا (نساء۵۹)
اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت عطا کی ہے، اجر عظیم کے ساتھ۔
البتہ میاں صاحب کے ناراض ہونے سے ڈر لگتا ہے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے دور آمریت کے سب سے بڑے مجاہد اور جمہوریت کے جرات مند ہیرو جاوید ہاشمی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے البتہ ان کے چھوٹے بھائی کچھ عرصے سے ڈرون حملوں کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں اور ان کی کچھ لاج قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار بھی رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن پر پاکستان نہیں امریکہ کو چارج شیٹ کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں پاکستان کی خود مختاری کے پرخچے اڑائے گئے۔
سب سے زیادہ دباﺅ امریکا نے آئی ایس آئی پر ڈال رکھا ہے اور جب امریکہ کسی حکومت، ادارے یا فرد پر بہت زیادہ ناراض ہو جائے تو ہمیں خیال گزرنے لگتا ہے کہ ضرور اس میں کوئی ہنر ہے۔ آج کل امریکی توپوں کا رخ آئی ایس آئی کی طرف ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی امداد کے لیے پیش کیے گئے بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان یہ ثابت کرے کہ اسامہ بن لادن کو محفوظ پناہ گاہ فراہم نہیں کی گئی۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن رکن کانگریس ٹیڈپو نے بل میں موقف اختیار کیا ہے کہ انھیں اس بارے میں شبہ ہے کہ پاکستان کو اسامہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ سی آئی اے کے چیف لیون پینٹا کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے پاکستانی حکام کو اس لیے پیشگی اطلاع نہیں دی گئی کہ اگر پاکستان کو بتاتے تو اسامہ کے خلاف آپریشن ناکام ہو سکتا تھا۔ جبکہ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستان آپریشن میں شریک نہیں تھا لیکن امریکہ ہماری مدد سے اسامہ تک پہنچا۔ یاد رہے کہ جس رات امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد میں کارروائی کی اسی کی صبح امریکی صدر اوباما نے سات بجے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو فون کیا اور واقعے سے آگاہ کرنے کے علاوہ انھوں نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ سی آئی اے کو اسامہ کی رہائش کے بارے میں ابتدائی معلومات پاکستان نے فراہم کیں۔
صدر اوباما نے جن معلومات کی طرف اشاہ کیا اطلاعات کے مطابق ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ 2009ء میں کسی وقت آئی ایس آئی نے عربی میں ہونے والی گفتگو جو سم کارڈ کے ذریعے نوشہرہ سے سعودی عرب کی جا رہی تھی، کو ٹیپ کیا۔ یہ گفتگو مختصر اور کچھ مالی معاملات کے بارے میں تھی۔ اس کا ترجمہ سی آئی اے کو پیش کر دیا گیا۔ تین ماہ بعد، 2010ء میں، یہی سم دوبارہ ایکٹو ہوئی، ایک مرتبہ پھر عربی میں سعودی عرب گفتگو ہو رہی تھی اور اس مرتبہ شہر تھا پشاور۔ دوبارہ اس کا ترجمہ سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی سال یہ سم چار مرتبہ مختلف مقامات سے استعمال کی گئی، ایک مرتبہ فاٹا سے اور ایک مرتبہ ایبٹ آباد کے اسی احاطے سے۔ یہ تمام ریکارڈ سی آئی کے حوالے کر دیا گیا۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد کے مذکورہ احاطے تک سی آئی اے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے پہنچی ہے۔ اس کے بعد اس نے ان اطلاعات کی بنیاد پر جو منصوبہ بنایا اور جو کارروائی کی اس میں پاکستان کی فوج اور اس کے خفیہ ادارے کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئی ایس آئی ہی نے ایبٹ آباد کے اس مقام پر اسامہ بن لادن کو”محفوظ ٹھکانا“ مہیا کر رکھا تھا تو پھر اس”محفوظ ٹھکانے“ کی اطلاع وہ کس طرح سے امریکی سی آئی اے کو مہیا کر سکتی تھی۔ لہٰذا امریکہ اس وقت پاکستان کے اوپر جو دباﺅ بڑھا رہا ہے اور امریکی حکام اور تجزیہ کار جس طرح سے پاکستانی اداروں پر الزامات، سوالات اور اشکالات کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہیں، اس کا مقصد کچھ اور ہے۔ وہ پاکستانی جو امریکیوں کو ان کا جواب دینے کے درپے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ اس وقت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی پاکستان سے کیا چاہتے ہیں۔ ہم ان تجزیہ کاروں کی بھی تائید نہیں کرپا رہے جو سانحہ ایبٹ آباد کو امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات میں صدر اوباما کی سیاسی ضرورت سے جوڑتے ہیں۔ امریکا جیسی ریاست اتنے بڑے واقعات اس سطح کی ضروریات کے لیے جنم نہیں دے سکتی۔ فیصلہ پاکستان کی ہیئت حاکمہ کو کرنا ہے، بقول اقبال
ع فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا امریکی فرمانبرداری اور پاکستان کی معاشی ضرورت کے نام پر جھکنے کی کوئی حد ہے یا نہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی ضروریات کے نام پر یا ”ہم امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے“ کے خیال سے کسی نہ کسی صورت میں امریکہ کی رضا مندی ضروری ہے، وہ اپنے آپ کو آئندہ بھی ایک آزادانہ ملک کا آزاد شہری ہونے کی آرزو سے محروم ہو چکے ہیں۔ جب فکر و نظر اور روح غلامی پر راضی ہو جائے تو انسان اپنی چند روزہ زندگی کے لیے ایسی ہی تاویلوں کا سہارا لیا کرتے ہیں۔ امریکہ کبھی بھی پاکستان کو معاشی طور پر آزاد نہیں ہونے دے گا اور اسے ہر صورت میں ایک طفیلی ریاست بنائے رکھنے کے درپے رہے گا۔ اس مقصد کے راستے میں پاکستان کے طاقتور ادارے اور پاکستان کی جوہری صلاحیت ابھی تک حائل ہیں۔ 
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر موجود امریکی افواج اپنے انخلا سے پہلے پاکستان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں جو جرات مندی سے جینے کے ارمان سے بھی محروم ہو جائے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ہیئت حاکمہ کے لیے فیصلہ کن موڑ آپہنچا ہے۔ اگر ہم نے آج ایک مشکل فیصلہ کر لیا تو وہ دن دور نہیں کہ جب یہی سانحہ ایبٹ آباد ”پاک سرزمین شاد باد“ کی”منزل مراد“ تک پہنچا دے گا لیکن یہ ”سایہ خدائے ذوالجلال“ کے نیچے آئے بغیر ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 70331
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش