0
Monday 12 Sep 2011 12:09

11 ستمبر اور 11 ستمبر کے بعد

11 ستمبر اور 11 ستمبر کے بعد
تحریر:محمد علی نقوی
  گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کو دس سال کا عرصہ پورا ہو رہا ہے ایک عشرہ گزرنے کے باوجود امریکہ کا خفیہ ادارہ سی آئی اے گیارہ ستمبر کے واقعے سے متعلق حقائق کے منظر عام پر آنے کی روک تھام کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئي اے نے ایف بی آئی کے ایک سابق اہلکار علی صوفان کی یادوں پر مبنی کتاب کے متعدد حصے اس کتاب سے نکلوا دیۓ ہیں۔ علی صوفان نے اپنی کتاب
The Black Banners: The Inside Story of 9/11 and the War Against Al- Qaeda میں گیارہ ستمبر کے واقعے میں ملوث عناصر کی جانب سے لاحق خطرات سے سی آئي اے کی بے اعتنائی کے بارے میں معتبر ثبوت و شواہد پیش کۓ ہیں مثلاً یہ کہ گيارہ ستمبر کے دہشتگردانہ حملوں سے قبل سی آئي اے کو طیاروں کی ہائی جیکنگ میں ملوث سن دیہ گو میں رہنے والے دو افراد کے بارے میں معلومات حاصل تھیں۔ لیکن اس نے یہ معلومات ایف بی آئي کو فراہم نہیں کی تھیں۔ جس کے نتیجے میں گیارہ ستمبر کے واقعات کی روک تھام کا ایک اہم موقع ہاتھ سے نکل گيا۔
 اس کتاب کے مصنف نے سی آئی اے کے تفتیش کاروں کے ہاتھوں قیدیوں پر تشدد کۓ جانے پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ البتہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ کے خفیہ اور جاسوسی اداروں پر گیارہ ستمبر کے واقعے کی روک تھام کے سلسلے میں کوتاہی اور ناتوانی کا الزام لگایا گيا ہو۔ امریکہ کی حکومت کے مطابق گیارہ ستمبر کے واقعات میں القاعدہ ملوث ہے۔ لیکن اس سلسلے میں بہت سے شکوک و شبہات پاۓ جاتے ہیں کہ مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والے انیس افراد کس طرح امریکہ کے سیکورٹی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہو کر چار طیاروں کو ہائي جیک کر کے اس ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا دہشتگردانہ حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
 ایک تجزیئے میں کہا جا رہا ہے کہ اس وقت کے امریکی حکام القاعدہ جیسی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ براہ راست تعاون کر کے گیارہ ستمبر کے واقعے میں ملوث تھے۔ اور پھر انہوں نے تین ہزار افراد کی ہلاکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ افغانستان اور عراق پر قبضہ کر لیا۔ لیکن دوسرا گروہ اس تجزیۓ سے قدرے اختلاف کرتے ہوۓ اس بات کا قائل ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کا پلان تیار کرنے والوں نے امریکہ کے خفیہ اداروں کی کوتاہی اور ان کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھایا۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ اگر سی آئي اے القاعدہ کے عناصر کی سرگرمیوں کے بارے میں ایف بی آئی کو بروقت اطلاعات فراہم کر دیتی تو اس بات کا امکان تھا کہ طیاروں کی ہائی جیکنگ سے پہلے ہی القاعدہ کے عناصر کو گرفتار کر لیا جاتا۔ لیکن اب تک اس بات کا جواب نہیں دیا گیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا اور سی آئی اے نے دو اصل ملزموں سے متعلق اطلاعات ایف بی آئی کی تحویل میں کیوں نہیں دیں۔؟
بعض افراد کا خیال ہے کہ سی آئی اے اور ایف بی آئی کے درمیان جاری دیرینہ چپقلش کی وجہ سے امریکہ کے خفیہ ادراروں کے درمیان بہت ہی اہم معلومات و اطلاعات کا تبادلہ عمل میں نہیں آتا۔ جبکہ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس وقت کی امریکی حکومت نے گیارہ ستمبر کے واقعات سے فائدہ اٹھانے کے لۓ القاعدہ کے عناصر کے گرفتار نہ کۓ جانے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ تمام تر قیاس آرائیاں اپنی جگہ پر، اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی موجودہ اور سابقہ حکومت نے بڑے شد و مد کے ساتھ گیارہ ستمبر کے واقعات سے متعلق حقائق کی اشاعت کی روک تھام کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی تیس سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ کو انتہائی خفیہ قرار دے دیا اور اب ایف بی آئی کے ایک سابق اہلکار کی کتاب سے گیارہ ستمبر سے متعلق حقائق کو نکال دیا گيا ہے۔ ان امور کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا ہے کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں پر منتج ہونے والے امریکی تاریخ کے سب سے بڑے دہشتگردانہ واقعے کے حقائق کئی عشروں تک منظر عام پر آ سکیں گے۔
آج امریکی عوام ایک ایسے وقت میں گیارہ ستمبر کے واقعات میں ہلاک ہونے والے تین ہزار سے زائد افراد کی یاد منا رہے ہیں کہ جب امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں نے دہشت گردانہ حملوں کے امکان کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ ایسی غیرمصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ گيارہ ستمبر کے موقع پر دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران امریکہ کے اندر اور باہر اس کے مفادات پر حملہ اور دہشت گردی کا مسئلہ امریکی سیاستدانوں، میڈیا اور عوام کے لیے پریشانی کا باعث بنا رہا ہے۔ لیکن امریکہ ایک ایسا ملک ہے کہ کہ جس کے اندر تشدد آمیز واقعات اور دہشت گردی کے خطرات موجود رہتے ہیں۔ اس ملک میں آتشیں اسلحہ رکھنے کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تیس کروڑ کی آبادی والے ملک امریکہ میں بیس کروڑ آتشیں ہتھیار موجود ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی ثقافت میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ تشدد کا عنصر رچ بس گیا ہے اور تشدد اور خونریزی ایک سرگرمی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ اس ملک میں بڑی تعداد میں ملیشیا گروپ سرگرم عمل ہیں کہ جن میں سے بعض نے تو مسلح کارروائیوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسرے ملکوں میں امریکی حکام کی مداخلت، تسلط پسندی اور جنگ افروزی نے اس ملک کو امریکہ مخالف گروہوں کی جانب سے حملہ کرنے اور نقصان پہنچانے کے لیے ایک مناسب ہدف میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس دوران ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ کے بعض پالیسی سازوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کے خطرات کے مسئلے کی ضرورت ہے اور اگر ایسے حقیقی خطرات موجود نہ بھی ہوں وہ انہیں مصنوعی طور پر وجود میں لاتے ہیں۔ دورے لفظوں میں امریکہ کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی خطرات کی موجودگی کے بغیر مشکل سے دوچار ہو جاتی ہے۔
ایک زمانے میں کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کرنا امریکی حکومتوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو چلانے کا کام دیتا تھا اور اس کے بعد نام نہاد ریڈیکل اسلام کی باری آئي اور آخرکار دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کے لیے سب سے بڑا ایشو بن گئی۔ دہشت گردی کے خطرات اور اس کے خلاف جنگ کا ڈھول پیٹنے سے امریکہ کی بعض سیاسی و سکیورٹی اور حتٰی اقتصادی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ داخلی مشکلات پر پردہ ڈالنا، شہری آزادی کی خلاف ورزیوں کو ضروری ظاہر کرنا، امریکہ کی سرحدوں سے باہر دوسرے ملکوں میں جنگ کو جائز قرار دینا اور دنیا کے گوشہ و کنار میں لشکرکشی اور کئی سو ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کا جواز پیش کرنا، امریکہ میں خوف کی صنعت کے مقاصد کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے کہ جس میں گزشتہ برسوں کے دوران کافی ترقی ہوئی ہے۔
گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعات میں تین ہزار کے لگ بھگ افراد موت کی گھاٹ اترے تھے، لیکن اس کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی کارروائیوں میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں اور لاکھوں لوگ معذور ہو چکے ہیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا گیارہ ستمبر کے واقعے سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج گیارہ ستمبر کو افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی فوجی کارروائیوں میں مرنے والے لاکھوں افراد کی بھی کوئی یاد منائے گا، یا صرف نیویارک میں ہی موم بتیاں روشن کی جائیں گی۔؟
خبر کا کوڈ : 98168
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش