ساجد حسین کا تعلق پاک افغان بارڈر سے متصل فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی سے ہے، اور وہ وہاں ہونے والے واقعات و تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد فاٹا بالخصوص کرم ایجنسی میں ہونے والے نقصانات اور تباہی کا انہوں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے، جسے اسلام ٹائمز کے قارئین کی دلچسپی کے لئے 9/11 کی سالگرہ کی مناسبت سے شائع کر رہے ہیں۔
تحریر:ساجد حسین
امریکہ میں نائن الیون ڈرامے کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں جو علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہ پاک افغان بارڈر پر واقع قبائلی علاقہ یا فاٹا ہے۔ جو نائن الیون کے بعد پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اگر دیکھا جائے تو نائن الیون کے 10 سال گزرنے کے باوجود بھی انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو جنگ پاک افغان بارڈر پر شروع کی ہے اس میں امریکی حکمرانوں نے فائدہ ہی فائدہ اٹھایا ہے، القاعدہ و طالبان امریکہ کے لئے ہر دور میں الفائدہ کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ جب تک القاعدہ و طالبان کی دہشت کا فرضی بخار اور دہشت گردی جاری رہی گی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے قدرتی وسائل پر قبضے اور جارحیت کا جواز مہیا رہے گا اور یوں امریکہ کے لئے الفائدہ کا ڈرامہ جاری رہے گا۔ اس بات کا برملا اظہار امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن و دیگر امریکی حکام کر چکے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کو امریکہ ہی نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے بنایا تھا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش دوسری مرتبہ امریکی صدارت کے انتخابی معرکے میں امریکی عوام میں غیرمقبول ہونے کی وجہ سے ہارنے والے تھے جب انتخابی معرکے کے آخر میں اس وقت الفائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے ایک آڈیو پیغام نشر کرکے امریکی عوام کو دھمکی دی کہ وہ (الفائدہ) امریکہ پر ایک اور نائن الیون کرنے جا رہے ہیں، جارج ڈبلیو بش نے اسامہ کے اس ٹیپ کو بہانہ بنا کر امریکی
مبصرین کے مطابق امریکہ کے لئے الفائدہ کے سربراہ اسامہ کے آڈیو ٹیپ کا ہی کمال تھا کہ جارج ڈبلیو بش نے دوسری بار بھی کامیابی حاصل کی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں امریکہ کے اشارے پر اسرائیل نے لبنان و فلسطین اور عربوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر حملے و جارحیت شروع کی تھی، لیکن عرب شہری ہونے کے باوجود اسامہ نے لبنان و فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت کی مذمت میں نہ ہی کوئی ٹیپ شائع کیا اور نہ ہی جہاد فلسطین میں حصہ لینے یا القاعدہ کو ایسا کرنے کا حکم دیا جو امریکہ و اسرائیل نوازی کی واضح دلیل ہے۔
امریکہ کے موجودہ صدر اوباما جو تبدیلی کے نام پر امریکی عوام کو عراق اور افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے خاتمے کی نوید سنا کر صدر بنے تھے، ایک بار پھر جارج بش کی طرح مصبیت میں پھنس چکے ہیں کیونکہ آئندہ سال کے صدارتی انتخابات سے پہلے مختلف سروے رپورٹوں کی روشنی میں صدر اوباما کی عوامی مقبولیت میں انتہائی کمی آ چکی ہے۔ لیکن نائن الیون کے دس سال گزرنے کے بعد صدر اوباما نے اپنے پیشرو جارج ڈبلیو بش کی طرح ایک بار پھر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو الفائدہ بناتے ہوئے ملٹری اکیڈمی کاکول کے عقب میں ایبٹ آباد آپریشن کی آڑ میں ایک بار پھر دنیا بالخصوص امریکہ کے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونک کر ۔۔۔۔ زندہ ہاتھی لاکھ کا، مردہ سوا لاکھ کا ۔۔۔۔۔۔ کے مصداق ایک تیر سے دو شکار کرکے نہ صرف آنے والے امریکی انتخابات میں اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی، بلکہ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کر کے ایٹمی اثاثوں اور پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ اگر ہمارے حکمران امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو سعودی سفیر کی مداخلت اور امریکی حکومت کے دباو پر رہا کرنے کی بجائے کڑی سزا دیتے تو یقین
9/11 سے پہلے ہو یا بعد، پاکستان کا قبائلی علاقہ فاٹا اور اس کی لگ بھگ سات ملین آبادی جو بغیر معاوضے کے اس ملک کے لئے سپاہیوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اپنی جغرافیائی خدوخال اور بین الاقوامی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر مسلسل امتحانات و مصائب کا شکار ہے۔ ایک طرف اگر فاٹا سے متصل افغانستان میں بین الاقوامی قابض قوتوں (چاہے روس ہو یا امریکہ) سے اس علاقے کے حالات پر اثر پڑا ہے، تو دوسری طرف اپنے مفادات کے حصول کی خاطر بین الاقوامی قوتوں کو نکالنے کے لئے بنائے جانے والی مختلف تنظیموں اور نام نہاد جہادی لشکروں کے ظلم و جبر کا نشانہ بھی فاٹا کے عوام ہی بنے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ سن 80 کی دہائی میں افغانستان پر قابض روس کے خلاف امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت کے گٹھ جوڑ پر مبنی نام نہاد مجاہدین اور عرب جنگجؤوں ہوں، یا روس کی انخلاء کے بعد اسٹرٹیجک گیپ پُر کرنے کے بہانے نصیر اللہ بابر کے بنائے جانے والے طالبان یا پھر نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے بہانے انہی مجاہدین اور طالبان کا محلول القاعدہ اور طالبان کی نئی یلغار ہو، بیچارے فاٹا کے عوام ہی ظلم و جبر کا نشانہ اور قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔
9/11 اور فاٹا کی تباہی کا عنوان دیکھ کر شاید کچھ لوگ حیرت میں پڑ جائیں، لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ عنوان فاٹا کے ناگفتہ بہ حالات کے عین مطابق ہے، جس طرح فاٹا سے متصل افغانستان میں امریکہ اور نیٹو طالبان کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نام پر وہاں کئی سالوں سے براجمان ہیں، اسی طرح کا کھیل عسکریت پسندی اور طالبان
بالکل اسی طرح افغانستان سے متصل فاٹا میں بھی نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کی پارٹنر اشرافیہ بالخصوص سول و ملٹری بیورو کریسی یہی کھیل کھیل کر فاٹا کے عوام کے مصائب و مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ طالبان کا خاتمہ کرنے کی بجائے افغانستان کی طرح انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کر کے فاٹا کے تمام علاقوں کو یکے بعد دیگرے متاثر کر رہی ہے۔ یقین جانئے اگر سنجیدگی اور خلوص سے فاٹا سے دہشت گردی اور طالبانائزیشن کا خاتمہ مقصود ہو تو یہ ہماری ملکی سلامتی کے اداروں کے لئے چند مہینوں بلکہ چند ہفتوں کا کام ہے۔ لیکن اگر فاٹا سے عسکریت پسندی دہشت گردی و طالبانائزیشن کا خاتمہ ہو جائے تو پھر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کی پارٹنر اشرافیہ بالخصوص سول و ملٹری بیوروکریسی کی عیاشیوں اور مراعات کا کیا ہو گا۔ جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نام پر کروڑوں ڈالرز کی شکل میں انکی جیبیں بھرنے اور عیاشیوں
یوں تو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ اور نائن الیون کی وجہ سے پورا فاٹا متاثر ہوا لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ارض پاکستان کا جنت نظیر اور انتہائی اہم اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل قبائلی علاقہ پاراچنار ہے جو افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، پکتیا، خوست) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و سٹرٹیجک خدوخال کی وجہ سے بین الاقوامی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ مشہور سپین غر پہاڑی سلسلے (کوہ سفید) کے وسط میں واقع عالمی شہرت یافتہ علاقہ تورا بورا جس کا ایک حصہ صوبہ ننگر ہار اور دوسرا حصہ پاراچنار کے مضافاتی دیہات زیڑان اور کڑمان سے ملا ہوا ہے پاراچنار سے صرف 12 کلومیٹر ہوائی فاصلے پر واقع ہے۔ نیز افغانستان کا صدر مقام کابل پاکستان کے کسی بھی علاقے (بشمول فاٹا) کے مقابلے میں، پاراچنار کرم ایجنسی سے کمترین فاصلے پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اسٹرٹیجک اہمیت کی اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ "Parrots Beak" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
در اصل کرم ایجنسی کے عوام پر ظلم و جبر اور ریاستی سرپرستی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا۔ جب سن 80 کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت کے گٹھ جوڑ سے دنیا بھر بالخصوص عرب ممالک و وسطی ایشیائی ممالک سے شدت پسندوں کو مجاہدین کے عنوان سے اس علاقے میں لایا گیا۔ چنانچہ امریکی سی آئی اے اور ضیاء کے گٹھ جوڑ پر مبنی اس منصوبے کے تحت افغانستان سے روس کی شکست کے لیے کرم ایجنسی کے علاقے صدہ نیز تری منگل کے قریب سپینہ شگہ کو مرکز (Base Camp) کے طور پر استعمال کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک طرف کرم ایجنسی کے علاقے صدہ (Sadda) جو کہ طوری و بنگش قبائل کی ملکیت تھا
(جاری ہے)