6
0
Sunday 20 May 2012 23:39

علامہ ساجد نقوی کی قرآن وسنت کانفرنس میں شرکت پر اُنکے تمام پروٹوکولز کا خیال رکھا جائیگا، علامہ امین شہیدی

علامہ ساجد نقوی کی قرآن وسنت کانفرنس میں شرکت پر اُنکے تمام پروٹوکولز کا خیال رکھا جائیگا، علامہ امین شہیدی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی کا تعلق گلگت سے ہے، علامہ صاحب کا شمار پاکستان کے متدین علماء میں ہوتا ہے اور قومی معاملات میں ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کیلئے آپ کی کاوشیں لائق تحسین ہیں، علامہ صاحب پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیئے جانے والے حالیہ کامیاب احتجاجی دھرنے میں مسلسل شریک رہے اور حکومت کیساتھ کامیاب مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے سانحہ چلاس سمیت ملک میں بڑھتی ہوئی شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص وزیر داخلہ رحمان ملک سے ہونے والے مذاکرات اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ چلاس اور گلگت کی صورتحال پر مجلس وحدت مسلمین کا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک ہفتے تک دھرنا جاری رہا، اسی طرح ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجات کیے گئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی مک مکا ہوا، جس کے باعث دھرنا ختم کیا گیا۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: گزشتہ 25 سالوں سے گلگت مختلف حالات کا شکار رہا ہے لیکن اس دفعہ جو بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے مقابلے میں جب تمام جماعتیں اور سٹیک ہولڈر خاموش رہے۔ ایسے موقع پر وہاں پر کرفیو لگا دیا گیا، پرامن شہریوں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا اور سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ وہاں کی آواز باہر نہیں آ رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں مجلس وحدت مسلمین نے وہاں کے مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا اعلان کیا اور آٹھ روزہ دھرنے کا اعلان کیا۔ 

جمعہ کے روز باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ ہم ایک ہفتے تک یہاں دھرنا دیں گے، لیکن اس میں اہم بات یہی تھی کہ ہم وہاں کے مظلوموں اور شہداء کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچائیں اور بتا سکیں کہ کس کس طرح مظالم ڈھائے گئے اور پوری دنیا میں ایک احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکے۔ خدا نے توفیق دی کہ مجلس وحدت مسلمین کے دوستوں اور ہماری دیگر تنظیموں نے اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا اور پاکستان کے 80 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور دھرنے دیئے گئے۔ اس کیساتھ ساتھ کینیڈا، امریکہ، واشنگٹن، برطانیہ، نیویارک، سوئیزرلینڈ، آسٹریلیا، انڈیا، عرب ممالک اور ایران کے اندر بھی مظاہرے کیے گئے اور دھرنا دیا گیا۔ ان تمام ممالک میں آواز بلند ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورنمنٹ کے اوپر ایک زبردست قسم کا پریشر بڑھا۔

آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ اس میں ایجنسیاں جس طرح سے کام کرتی ہیں، انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کے اندر موجود جوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور ان کے اندر قوم پرستی کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ ایجنسیوں کے نمائندے وہاں پر آتے رہے اور پٹیاں پڑھاتے رہے، لیکن اس کے باوجود جوانوں نے حوصلے سے کام لیا اور عقل مندی کا ثبوت دیا اور اپنے اتحاد کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ گلگت میں کرفیو تھا، ایسی صورت میں پاکستانی میڈیا اور عالمی میڈیا میں بھی یہ آواز اٹھی اور ان لوگوں کو ایک بہت بڑا سہارا ملا کہ ان کی آواز کو دنیا تک پہنچانے والے باغیرت اور باضمیر انسان موجود ہیں۔ 

اسی کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ لوگوں نے پاکستان بھر میں مختلف قسم کے پروپیگنڈے شروع کر دیئے اور وہ اس وقت تک پروپیگنڈا کرتے رہے جب تک یہ دھرنا جاری رہا۔ یہ انتہائی اہم باتیں ہیں۔ جب ایک معاشرے میں کچھ فعالیت شروع ہوتی ہے تو کچھ لوگ دین کے لباس میں دین کی پشت میں خنجر گھونپنے والے ہوتے ہیں، وہ ایسی فعالیت کو سبوتاژ کرنے کے اس طرح کے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں اور اس تحریک کو مشتعل کرنے کے لیے مختلف قسم کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس میں تمام قسم کے لوگ ہوتے ہیں، حکومتی نمائندے بھی ہوتے ہیں، ایجنسیوں کے نمائندے بھی ہوتے ہیں اور کچھ ان کے زرخرید ہمارے اپنے لباس میں لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں دھرنے کو کامیاب بنانے میں مدارس اور دیگر تنظیموں کا کیا کردار رہا۔؟

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں دھرنے کو کامیاب بنانے میں جامعہ اہل بیت اور جامعہ کوثر کے بزرگوں، اساتذہ اور طلباء نے بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ علمائے کرام، ماتمی تنظیموں نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کا جذبہ بہت زیادہ بلند ہوا اور اس تحریک کی وجہ سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ اب ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کہیں پر ظلم ہو اور اس ظلم کے اوپر پردہ ڈالا جائے اور لوگوں کو اس سلسلے میں بے خبر رکھا جائے۔
 
اسی حوالے سے ٹی وی چینلز نے انٹرویو بھی کئے۔ یورپ میں نشر ہونے والے ہمارے متعدد پروگرام براہ راست دکھائے گئے، جس کا پوری دنیا میں بہت گہرا اثر پڑا اور بیداری کا پیغام لوگوں تک پہنچا۔ اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس مشن کے لیے انہوں نے طاقت کا استعمال بھی کرنا چاہا اور باقی ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے چاہے، لیکن مجلس وحدت مسلمین میں جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے دبنے والے نہیں۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ جتنا حکومت اور ایجنسیوں نے زور لگایا، ادھر لوگوں میں استقامت اور حوصلہ بڑھا۔

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دیئے جانے والے دھرنے نے عوام پر کیا اثرات مرتب کیے اور سنا ہے کہ اسے ناکام بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔؟

علامہ امین شہیدی: جب جمعہ کی نماز کا اعلان کیا گیا تو راولپنڈی اور اسلام آباد کی تمام نماز جمعہ کو معطل کر کے ایک ہی جگہ نماز جمعہ کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ اس کو بھی سبوتاژ کرنے کی بہت کوشش کی گئی، ایجنسیوں نے اور اُن کے شیعہ غلاموں نے ہر ممکن کوشش کی یہ جمعہ نہ ہو، لیکن قوم دیکھ چکی تھی کہ کون لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے ہوئے ہیں، لہٰذا عوام نے خود ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اس کے علاوہ یہ کوشش بھی کی گئی کہ اس دھرنے کے مقابلے میں بعض دہشتگرد جماعتوں کو سامنے لا کر فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، دوستوں کے مدبرانہ اور دوراندیشانہ رویے نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ یہاں تک کہ نماز جمعہ کا بہت بڑا، مودب اور شان و شوکت والا اجتماع منعقد ہوا۔

اسلام ٹائمز: قوم جاننا چاہتی ہے کہ دھرنے ختم کرنے کے حوالے سے جو مطالبات رکھے گئے تھے کیا وہ پورے ہوئے اور اُن پر عمل درآمد ہوا۔؟

علامہ امین شہیدی: اس کے دوران چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری اور قمر زمان کائرہ نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، لہٰذا ان کے درمیان میں آنے کے بعد گفتگو ہوئی اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم ہر صورت میں آپ کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے آپ وزارت داخلہ سے بات کریں اور ہم ضمانت دیتے ہیں کہ اس پر عمل ہو گا، تب جا کر ہم نے وزارت داخلہ سے گفتگو اور مذاکرات کو قبول کیا، ورنہ اس سے پہلے پچاس دفعہ ان کے بندے آئے اور ہماری منتیں کیں کہ آپ دس منٹ نکالیں اور وزیر داخلہ سے ملاقات کریں، لیکن ہم اس بات پر کبھی بھی تیار نہیں تھے، ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو ایک فون پر فوراً وزیر داخلہ کے پاس جا کر کھانا کھا کر فقط اسی بات پر ہی اکتفاء کر لیتے کہ اب چمچہ گیری ہو گئی ہے اور بس اب ان کی ساری باتیں مان لو بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارے پیچھے پڑے رہے اور ہم ان کو انکار کرتے رہے کہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے کہ جن کے قول اور فعل میں تضاد ہو۔
 
جب حکومت اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں جن میں خورشید شاہ بھی شامل ہیں، نے جب ضمانت دی کہ اس پر عمل ہو گا، تب ہم جا کر مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں۔ مسلسل چار گھنٹے گلگت چلاس کی صورتحال اور مطالبات پر بحث جاری رہی، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جو مطالبات دیئے گئے تھے یہ ہمارے نہیں بلکہ یہ گلگت بلتستان کے قائدین نے پیش کیے تھے اور ہم نے ان کو سپورٹ کیا۔ یہ وہ مطالبات تھے کہ جس میں درج تھا کہ گلگت کو پرامن بنایا جائے۔ اس کے لیے گورنمنٹ نے ہم سے وعدہ کیا اور وعدے کے بعد ہمارے سامنے رینجرز کے سربراہوں اور پولیس کے سربراہوں کو آرڈر جاری کیے کہ اب آپ نے کس حکمت عملی کے تحت روڈ کو محفوظ بنانا ہے۔ 

دوسرا مطالبہ شہداء کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے جس طرح ماضی میں شہداء کے لواحقین کو پیسے دیئے ہیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ہے، اس دفعہ بھی پیسے دیں گے اور انشاءاللہ بیس بیس لاکھ روپے دیں گے۔ نصاب کے حوالے سے فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، نصاب کا مسئلہ ہمارے ایجنڈے میں نہیں تھا لیکن ہم نے کہا جب مطالبات پیش کر رہے ہیں تو اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ لہٰذا جب بات ہوئی تو انہوں نے قبول کر لیا اور انہیں وہ خطوط دیئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وفاق العلماء، تنظیم المدارس شیعہ اور تنظیم المدارس اہل سنت اور بریلویوں سے ہم نے عرض کی ہے کہ آپ نصاب تشکیل دیں اور نصاب کو نافذ کرنے کے لیے نوٹیفکیشن ہم اسی وقت جاری کر دیں گے۔ اب یہ ساری گیم تنظیم المدارس کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کب تک نصاب مکمل کر کے وزارت داخلہ کو دے گی اور وہ اسی وقت اس کی منظوری دے دیں گے۔

اگلی بات چلاس میں آپریشن کی تھی۔ اس کے لیے جب وزیر اعلٰی گلگت بلتستان سے بات ہوئی تو اس نے یہ کہا کہ ہم نے جرگے کو دو دن کا ٹائم دیا ہے کہ اگر دو دن تک دس مطلوبہ بندے ہمارے حوالے نہیں کیے گئے تو ہم آپریشن کریں گے، یہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کی بات ہے، لہٰذا ہم نے منگل تک انتظار کیا۔ منگل والے دن جرگے نے آٹھ افراد گورنمنٹ کے حوالے کر دیئے، اور اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ باقی دو افراد بھی حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا یہ مطالبہ بھی پورا ہو گیا۔ 

ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ کاغان روڈ کی تعمیر کے آرڈر جاری کرائے جائیں، اس کے آرڈر جاری ہو چکے ہیں اور ہم تک جو بات پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ جب گرمیوں میں کاغان سے برف پگھلے گی تو اس روڈ پر کام شروع ہو جائے گا، تاکہ یہ متبادل روٹ کے طور پر استعمال ہو سکے۔ یہ سارے وہ مطالبات تھے کہ جو گلگت بلتستان کے لوگوں نے پیش کیے تھے اور ہم نے اس کی حمایت کی اور اس پر عملدارآمد کے لیے وزارت داخلہ سے مذاکرات کیے۔

عینی شاہدین اور گورنمنٹ کی باتوں میں تضاد تھا اور اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ گم شدہ لوگوں کے لیے ایک جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے اور اس کمیشن میں سپریم کورٹ کے دو ججز ہوں، ایک شیعہ اور ایک سنی عالم دین ہو، ایک سینئر وکیل ہو اور ایک چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ہو، ان سب پر مشتمل ایک جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے، اس کمیشن کا باقاعدہ میڈیا پر اعلان کیا گیا اور اس کے نوٹیفکیشن کی کاپی ہمارے پاس تین صفحوں پر مشتمل موجود ہے۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے قضیئے میں فریق کون ہے۔؟ فریق ہم نہیں ہیں بلکہ فریق گلگت بلتستان کے لوگ ہیں، جب وہ کھڑے ہوں گے تو ہم ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے اور ہم ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ اس واقعہ کے بعد ایک ستم یہ بھی ہوا کہ ایک شیعہ اور ایک اہل سنت کی مسجد کو سیل کر دیا گیا، تاکہ امن قائم ہو سکے اور ان دونوں مسجدوں کے آئمہ جمعہ کو بھی وہاں سے گرفتار کیا گیا اور علاقہ بدر کیا گیا۔ ہنزہ نگر میں فوج نے جانا تھا، تاکہ جن لوگوں نے 33 بندوں کو غیر قانونی اپنی تحویل میں لیا ان کو گرفتار کریں۔ یہ ہمارے مذاکرات کرنے کے بعد چوتھے دن کا واقعہ ہے۔ 

اس کے بعد ہم نے گورنمنٹ سے دوبارہ بات کی اور ہنزہ نگر سے فوج کو واپس بلایا جائے کیونکہ وہاں پر کسی بھی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ آغا راحت حسینی کا کبھی بھی دہشتگردی سے تعلق نہیں رہا، یہ صرف بیلنس کرنے کے لیے ان کے ملا کے مقابلے میں اس پاکیزہ کردار کے عالم دین کو گرفتار کیا اور ہم نے ان کے لیے ایک مظاہرہ کیا اور اس کے بعد گلگت میں ایک پریس کانفرنس کی گئی اور اس میں یہ باتیں گورنمنٹ سے کہی گئیں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کے نتائج آپ ہی بھگتیں گے۔ جب یہ پریس کانفرنس ہو چکی تو نتیجہ یہ نکلا کہ گورنمنٹ نے فوج واپس بلا لی۔ گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ دونوں مسجدوں کو اوقاف کی تحویل میں دیا جائے۔
 
ہم نے فوری طور پر اس کے مقابلے میں ردعمل دکھایا اور کہا کہ ہماری طرف سے اوقاف کو مسجد دینے کا کوئی جواز نہیں۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی گنجائش نہیں اور اس کے نتائج بہت ہی خطرناک نکل سکتے ہیں۔ اس گفتگو کے نتیجے میں انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ خود اپنی کمیٹی بنا لیں۔ آغا راحت حسینی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی، وہ کونسل ہے اور اس کونسل کو یہ اختیارات دے دیئے گئے کہ مسجد کمیٹی کا تعین کرے گی اور مسجد کمیٹی آغا راحت حسینی کی سربراہی میں کام کرے گی نہ یہ کہ گورنمنٹ کے اشاروں پر کام کرے گی، لہٰذا ہم نے ہر وہ سازش ناکام بنائی ہے، جس کے تحت قوم کو غلام بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔

اب جہاں تک پروپیگنڈوں کا تعلق ہے، جنہوں نے کام نہیں کرنا ہے، وہ لوگ جنہوں نے قوم کی عزت کو بیچنا ہے، وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور صرف کام کرنے والوں کی کردار کشی کرتے ہیں، ایسے لوگوں کی معاشرے میں بھرمار ہے، کبھی میسج کے ذریعے سے، کبھی ای میل کے ذریعے سے اور کبھی کسی طریقے سے۔ ایسا تاریخ میں ہوتا رہا ہے اور ہمیں ایسی چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جو بھی کام کرے گا، اس کے خلاف ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: علماء کانفرنس میں آپ نے شرکت کی اور خطاب کیا، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے وہاں اتحاد اور وحدت پر بات کرنے کی بجائے ایم ڈبلیو ایم کی فعالیت گنوائی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: ہم نے اس پروگرام میں چند اصولی باتیں کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ وحدت کی فضاء کو پھیلانا چاہیے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس ماحول کو مزید آگے بڑھانا چاہیے اور مشترکہ جلسے ہونے چاہیں، اجتماعات ہونے چاہیں اور ان میں اسی طرح وحدت کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ تیسری بات جو ہوئی وہ یہ تھی کہ آخر مجلس وحدت مسلمین کے قیام کی ضرورت کیوں پڑی؟ ایسے دور میں جب معاشرہ مایوس ہو چکا تھا اور ہر جگہ پر شیعہ نسل کشی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور آواز نہیں اٹھتی تھی، ایسے دور میں مجلس وحدت مسلمین بنائی گئی اور اس لیے بنائی گئی کہ ہم قومی دھارے میں اسی طرح سے وارد ہوں کہ قوم کے اندر مایوسی کا خاتمہ ہو۔
 
ہم پر لازم تھا کہ ہم اپنی پوزیشن واضح کریں۔ اگلی بات یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے حوالے سے مسئلہ تھا، ہم بھی اس نعرے کے پابند ہیں اور دل و جان سے چاہتے ہیں، لہٰذا ہم نے دعوت دی کہ آئیے ولی فقیہ اور ولایت فقیہ کے ساتھ ہم متحد اور اکٹھے ہو کر ایک مٹھی بن کر دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں۔ ہماری دعوت یقیناً مثبت تھی، منفی بات کوئی نہیں تھی۔ ہم نے گروپ بندیوں کی مخالفت کی۔ ہم نے شیعی، قومی وحدت کی دعوت دی۔ ہم نے ان بزرگوں اور علمائے کرام کو آئندہ آنے والے تمام اجتماعات کی دعوت بھی دی اور ہم خود بھی ان کے ہاں حاضر ہوں گے اور ان کو دعوت دینے اور ان کی قدم بوسی کے لیے جاتے رہیں گے۔ اس میں بھی یقیناً کوئی شدت نہیں تھی۔

ہم نے ان بزرگوں اور علمائے کرام سے اپیل کی کہ اس اجتماع کو صرف اجتماع کی حد تک نہ رکھیں بلکہ ایک مستقبل کا لائحہ عمل دیں اور اس لائحہ عمل میں قوم کو آواز دیں گے تو ہم قوم کے ایک مضبوط اور پراثر حصہ کے طور پر آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے بزرگ علمائے کرام مل کر آگے بڑھیں، ہم ان کے دست و بازو بنیں گے اور ان کا ساتھ دیں گے۔ اس میں بھی یقیناً کوئی منفی بات نہیں تھی۔ 

اس کے بعد میں نے یہ بھی عرض کیا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مینار پاکستان کے سائے تلے ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا ہے اور اس اجتماع میں انشاءاللہ تعالٰی پوری قوم آئے گی اور وہاں پر بھرپور طور پر اپنی قوت کا اظہار کرے گی اور وہ مومنین، پاکستانی محبان وطن کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو گا، آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی اس میں ضرور تشریف لائیں۔ یقینی طور پر یہ بھی انتہائی مثبت بات تھی۔ جب یہ ساری باتیں ہو چکیں تو اس کے بعد بعض بچوں نے منفی تقرریں کیں اور ان تقریروں میں گندی زبان استعمال کی اور گالیوں تک کے سلوک کو اس علمائے کرام کے مقدس اجتماع میں روا رکھا گیا اور مجلس وحدت مسلمین کو امیر شام قرار دے دیا گیا۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ تھا کہ ایسی چیزوں کی ممانعت کرتے، لیکن یکے بعد دیگرے دو دفعہ یہ واقعات رونما ہوئے۔ وہ تقریریں گواہ ہیں کہ شدت کن کی طرف سے آئی۔ ہم نے اس کا کوئی ردعمل نہیں دکھایا اور اس کا کوئی منفی جواب نہیں دیا۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کا اعلان کر رکھا ہے اور یقیناً آپ لوگ علامہ سید ساجد نقوی کو بھی دعوت دیں گے، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مجلس وحدت اُن کے تمام پروٹوکولز کا خاص خیال رکھے گی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: علامہ ساجد علی نقوی صاحب شیعہ علماء کونسل کے سربراہ ہیں، اس جماعت کے طور پر ہم انہیں باقاعدہ دعوت دیں گے اور ان کی خدمت میں حاضر بھی ہوں گے۔ ہم اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ علامہ صاحب کے پروٹوکول کا پوری طرح سے خیال رکھا جائے گا۔ جتنے بھی لوگ اس پروگرام میں شامل ہوں گے، ہم ان کو پوری طرح سے پروٹوکول دیں گے اور ان کا احترام کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی طرف سے کسی کو کسی بھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔

اسلام ٹائمز: اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ علامہ سید ساجد علی نقوی شریک ہوں اور اس اجتماع میں کوئی ردعمل سامنے نہ آئے یا اسٹیج کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جو اُن کے شایان شان نہ ہو۔؟
علامہ امین شہیدی: ہمارے پروگرام میں اس طرح کی زبان کوئی بھی استعمال نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ اسٹیج ہمارے ہاتھ میں ہو گا، کیونکہ اسٹیج کو اس طرح سے بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا اور بد زبانوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ ہم بزرگوں کا احترام چاہتے ہیں اور انشاءاللہ علامہ صاحب کو کوئی شکایت کا موقعہ نہیں دیں گے۔ جب یہ ساری چیزیں مل جائیں گی تو انشاءاللہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا الیکشن کمشن میں ایم ڈبلیو ایم کو رجسٹرڈ کرانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔؟
علامہ امین شہیدی: ظاہر ہے ہم ایک سیاسی جماعت بھی بننا جا رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کروانا ہماری ذمہ داری ہے اور ضرورت بھی، اس کے لیے قدم اٹھ چکا ہے، اور انشاءاللہ جلد ہی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: یکم جولائی کو ہونیوالی قرآن و سنت کانفرنس کے حوالے سے کتنی تیاری ہے۔؟
علامہ امین شہیدی: میرے خیال میں 25 مارچ کو نشتر پارک کراچی میں منعقد ہونے والا ہمارا عظیم الشان اجتماع بعنوان قرآن و اہل بیت (ع) کانفرنس میں ایک شوق، امید، ولولہ، روشن اور تابناک مستقبل کے حوالے سے جو کرن روشن ہوئی ہے اور جو نور لوگوں کو ملا ہے، انشاءاللہ تعالٰی یکم جولائی کا اجتماع اس کی تکریم کا باعث بنے گا۔ ہم ثابت کریں گے کہ ہم ایک زندہ، سربلند، محب وطن اور دیندار فورس ہیں اور اس ملک کو بچانے کے حوالے سے ہماری جو جدوجہد ہے اس سے کے سامنے اور کوئی کچھ بھی نہیں۔ جب شیعہ ہوں گے تو پاکستان بچے گا اور یہی پیغام لے کر ہم انشاءاللہ تعالٰی نکلیں گے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ ایم ڈبلیو ایم کے فعال ہونے سے شروع ہوئی ہے، کیا کہیں گے۔؟ دوسرا یہ کہ دفاع کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔؟
علامہ امین شہیدی: اگر قتل و غارت گری کے مقابلے میں قتل و غارت گری ہو تو یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ خون سے خون کو دھویا نہیں جاتا اور نہ آج تک دھویا جا سکا ہے، لیکن جب ظلم ہو تو ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی جائے تو یہ قوموں کی موت کا باعث بنتی ہے۔ بدن کے کٹنے سے قوم مرتی نہیں لیکن آرزؤں کے مرنے سے، حوصلے کے مرنے سے، عزم اور استقلال کے مرنے سے، شجاعت اور سربلندی کے مرنے سے قومیں مر جاتی ہیں۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ قوم کو جمع کرو، قوم کو یکجا کرو اور اس کی قوت کا اظہار کرو، بدن اگر ایک ہزار کٹتے ہیں تو اس طرح کے عمل کے نتیجے میں ایک کڑور لوگوں کے اندر وہ ہمت اور سربلندی پیدا ہوتی ہے، لہٰذا قوم کو بیدار اور میدان میں حاضر رکھنے کی ضرورت ہے۔
 
یہ ان لوگوں کی تھیوری ہے جو امریکی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، یہ ان لوگوں کی تھیوری ہے جو وہابی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں کہ ایک طرف ایک بندے کو مارو اور دوسری طرف لوگوں کو مارو جبکہ ہم کہتے ہیں کہ سر کٹے کوئی حرج نہیں، لاشیں پامال ہوں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے مقابلے میں اس خون کا پیغام چپے چپے تک پہنچنا چاہیے، گھر گھر تک پہنچنا چاہیے اور اس کے ردعمل میں شیعوں کے اندر اتحاد پیدا ہونا چاہئے۔ شیعوں کے اندر قوت، ایثار و قربانی کا جذبہ آنا چاہیے۔ شیعوں کے اندر میدان میں اترنے اور مصائب کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہونا چاہیے اور یہ سب انہی اجتماعات کے ذریعے سے ہو گا۔

اسلام ٹائمز: قاضی حسین احمد کی جانب سے بلائی جانیوالی بین الفقہی کانفرنس فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے سود مند ثابت ہو گی۔؟ سننے میں آیا ہے کہ کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کو بھی دعوت دی گئی ہے، ایسی صورت میں ایم ڈبلیو ایم وہاں بیٹھے گی کہ نہیں۔؟
علامہ امین شہیدی: رواں سال فروری کے مہینے میں میری قاضی حسین احمد صاحب سے تفصیلی نشست ہوئی اور اس میں ان کے سامنے میں نے یہ تھیم رکھا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کا تجربہ کر لیا، آپ نے ایم ایم اے کا تجربہ کر لیا اور اب ذرا آ کر ایک اور تجربہ کر لیں اور وہ یہ ہے کہ انتخابی سیاست کی جگہ ہم اقدار اور دینی اقدار پر ایک اتحاد قائم کریں اور اس کے لیے تمام ایسے لوگوں کو کہ جن کے اندر یکجہتی پیدا ہو سکتی ہے، ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے، میرے اس خیال کو انہوں نے بہت سراہا۔ 

میں نے وہاں ان سے یہ بھی کہا کہ آپ واحد شخص ہیں جو ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں، اس معاملے میں کسی اور کے بارے میں مجھے کم از کم امید نہیں۔ انہوں نے اس کو قبول کیا، جو ان کی کرم نوازی ہے۔ اس کے بعد بھی اور اس کے خدوخال کے حوالے سے کئی ایسی نشستیں ہوئیں اور آخر میں فیصلہ ہوا کہ ہم ان کو کچھ نام دیں گے جو کہ ہم نے ان کو دیئے۔ ان ناموں میں سے کچھ کو انہوں نے بہت سراہا اور کچھ میں اور اضافہ کیا گیا۔ آخر میں فیصلہ ہوا کہ 5 مئی کو یہ پروگرام کیا جائے، لیکن بعد میں قاضی حسین احمد صاحب کی منور حسن صاحب سے ایک نشست ہوئی۔ منور حسن صاحب کی تجویز یہ تھی کہ اس پروگرام کو جماعت کی میزبانی میں انجام دیا جائے، بے شک قاضی حسین احمد صاحب ہی اس کی صدارت کریں، لہٰذا قاضی حسین احمد صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس پروگرام کو جماعت کی بنیاد پر کریں گے۔ 

اس حوالے سے جو شدت پسند اور تکفیری گروہ تھے ان کے حوالے سے پہلے دن ہمارا موقف یہی تھا کہ وہ چونکہ تکفیری ہیں اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو مفاہمتی اور یکجہتی کے اداروں میں بیٹھنا نہیں چاہیے۔ اس پر بہرحال یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو ہٹا کر باقی لوگوں کو جمع کیا جائے اور مل کر ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائے اور یہ انشاءاللہ 21 مئی کو ہونے جا رہا ہے اور میری مشکل یہ ہے جو کہ میں نے اس وقت قاضی حسین احمد صاحب کو بھی بتائی ہے کہ میں چونکہ باہر جا رہا ہوں، تو انہوں نے کہا کہ ایک دن بعد میں یہ پروگرام کرا لیتے ہیں۔
 
بہرحال میں نے ایک خط لکھا ہے اور اپنی تمام تر تجاویز کو خط میں لا چکا ہوں اور یہ خط آج انشاءاللہ قاضی حسین احمد صاحب کی خدمت میں بھیج رہا ہوں اور اس میں وہ تمام تجاویز ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایسے فورم کو مضبوط بنیاد پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ تعالٰی ایک مضبوط پروگرام منعقد ہو گا اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی طرف سے وہاں پر بھرپور نمائندگی ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 163764
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

qoom main in ki baaton se eak umeed paida ho gayei hain inshaallah hamaray ulma muttahid hon gay tu koi bi taqat hamara kuch nhe bigar sakay ga
Pakistan
masha allah bahot khoob agha sahab ap ny wahdat ka haq ada kar dia ab dushman chahy jitny propegandy kar ly wo nakam ho ga insha allah
Pakistan
Khuda raha-e-wadat par qaim rakhay or tofeeq day mazeed.
Pakistan
قوم امید رکھتی ہے کہ انشاء شیعہ علماء کونسل کی طرف سے بھی مثبت جواب آئے گا علامہ سید ساجد نقوی کسی وفد یا نمائندہ بھیجنے کی بجائے خود بنفس نفیس قرآن سنت کانفرنس میں تشریف لائیں گے۔
United Kingdom
ایک طرف تو ایم ڈبلیو ایم والے پورے پروٹوکول کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے اس بیان سے واضح هو رها هے که نه اس نے قائد ملت جعفریه کہا اور نه ہی نمائنده ولی فقیه کہا! پهر پورا پروٹوکول کسے کہا جاتا هے؟
سلام، انٹرویو بہترین تھا لیکن بیچ میں سی کئ جگہ پوری لائین ھی حذف تھی۔
ہماری پیشکش