1
0
Tuesday 14 Aug 2012 17:16

ہمارے حکمرانوں نے بیت المقدس کی آزادی کی طرف اس شدت سے توجہ نہیں دی جو اسکا حق تھا، مولانا گل نصیب

ہمارے حکمرانوں نے بیت المقدس کی آزادی کی طرف اس شدت سے توجہ نہیں دی جو اسکا حق تھا، مولانا گل نصیب
مولانا گل نصیب خان جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی نائب امیر ہیں، آپ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ منجھے ہوئے سیاست دان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، آپ کا بنیادی تعلق خیبر پختونخوا کے علاقہ تحصیل دینزئی لوئر دیر سے ہے، دینی تعلیم وفاق المدارس عربیہ ملتان اور جامعہ امداد العلوم پشاور سے حاصل کی، اور پھر مفتی محمود کے قافلہ کا حصہ بن گئے، آپ نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے، سینیٹ رکن کی حیثیت مئی 2012ء میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں، آپ اتحاد بین المسلمین پر یقین رکھتے ہیں اور اکثر عالمی استکباری قوتوں کے خلاف آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں، مولانا صاحب گزشتہ چند دنوں سے شدید علیل ہیں، تاہم اس کے باوجود انہوں نے عالمی یوم القدس کی مناسبت سے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیا، جس پر ادارہ ان کا مشکور ہے، مولانا گل نصیب خان کی ناساز طبعیت کے باعث ان سے یوم القدس کے حوالے سے زیادہ طویل گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا، مولانا صاحب کے ساتھ ہونے والی بات چیت قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے 27 رمضان المبارک کو یوم آزادی پاکستان اور جمعتہ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کے اعلان کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا گل نصیب: بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، یہ ہمیشہ سے مسلمانوں اور اسلام کی ایک مقدس جگہ رہی ہے، عالمی قوتیں اپنے مذہب اور مذہبی روایات کو بھول چکی ہیں، اور وہ ننگی تہذیب کی طرف چل پڑی ہیں، اور مذہبی زندگی کو چھوڑ چکی ہیں، مسلمانوں کو تکلیف دینے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں سب سے بڑا کردار امریکہ ادا کر رہا ہے، اور اسرائیل کو اس نے ایسے پالتو کے طور پر رکھا ہوا ہے، جس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، وہاں انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، اور فلسطین کے مسئلہ کی وجہ سے پوری دنیا کیلئے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے، چونکہ پاکستان کے عوام اسلام سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں، اور پھر خاص کر جو مذہبی جماعتیں ہیں، جو اس عنوان کے حوالے سے سیاسی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں، نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

ملی یکجہتی کونسل مذہبی جماعتوں کا ایک غیر سیاسی اتحاد ہے، جو مسلمانوں کی تمام مشکلات پر نظر رکھے ہوئے ہے، اسی بنیاد پر 14 اگست (27 رمضان المبارک) جو کہ ملک کی آزادی کا دن ہے، اور یہ دن مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے ایک خوشی کا دن ہے، اس خوشی کے ساتھ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بیت المقدس کو بھلا نہیں سکتے، لہٰذ فلسطینی مسلمانوں کیساتھ اظہار یکجہتی اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے جمعتہ الوداع کو اس حوالے سے نامزد کیا گیا ہے، اور اس روز ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں گے اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے آواز اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی اپنے فلسطینی اور کشمیری بھائیوں کے ساتھ بہت جذباتی وابستگی ہے، اور ہر نماز جمعہ میں بھی اپنے ان مظلوم بھائیوں کے حق میں دعائیں مانگی جاتی ہیں، کیا اس قسم کے جذبات کا اظہار آپ حکومتی سطح پر بھی دیکھتے ہیں۔؟
مولانا گل نصیب: میرے خیال میں کشمیر کے حوالے سے تو ہمارے حکمران ہمیشہ سے حساس رہے ہیں، اور انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے 5 فروری کا دن مقرر بھی کیا ہوا ہے، سرکاری سطح پر اس دن کو منایا جاتا ہے اور کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے، فلسطین کے معاملہ پر بھی ہمیشہ سے پاکستان عالمی سطح پر مسلمانوں کا اتحادی رہا ہے، اس مسئلہ پر پاکستان خاص طور پر عرب ممالک کے موقف کی حمایت کرتا چلا آیا ہے، لیکن وہ شدت جو ایک مسلمان ملک کیلئے ہونی چاہئے ہمارے حکمران اس طرح سے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دے رہے۔ 

اسلام ٹائمز: ملک کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے بیت المقدس کی آزادی کیلئے ادا کئے جانے والے کردار سے اس آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
مولانا گل نصیب: میرے خیال میں تمام مذہبی جماعتوں کے جو بنیادی دستور ہیں، اس میں یہ درج ہے کہ بیت المقدس کی آزادی ہماری جدوجہد کا حصہ رہے گی، لیکن چونکہ دنیا اس وقت تقسیم ہے، ممالک کی سرحدیں متعین ہیں اور ہر ملک کی اپنی فوج ہے، اسی وجہ سے یہ حمایت اور جدوجہد اخلاقی اور سیاسی بنیاد پر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں کیا مسلم ممالک کے اتحاد او آئی سی نے قبلہ اول کی آزادی کیلئے وہ کرداد ادا کیا جو کرنا چاہئے تھا۔؟
مولانا گل نصیب: سیاسی طور پر اور خارجہ امور کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو او آئی سی اس حوالے سے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، خارجہ بالادستی ہمیشہ عالمی استکباری قوتوں کے ہاتھوں میں رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کی اس نمائندہ تنظیم کو مسلمانوں کی نمائندگی کرنے میں اب تک ناکامی ہوئی ہے، او آئی سی نے اپنا کوئی کردار ادا کرنے کے حوالے سے اب تک کوئی رپورٹ تک نہیں بنائی۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی میں رکاوٹیں ڈالنے اور انہیں حماس اور الفتح کے نام پر تقسیم کرنے کی کوششوں پر کیا کہیں گے۔؟
مولانا گل نصیب: میرے خیال میں عالمی قوتوں اور امریکہ کی ہمیشہ سے ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی رہی ہے، قوموں کو تقسیم کرنا، مسلمانوں کو تقسیم کرنا، ممالک کے اندر انتشار پیدا کرنا، ان کی سیاست کا حصہ رہا ہے، میرے خیال میں فلسطینی بھائی اب تک اس میں کامیاب رہے ہیں کہ انہیں تقسیم نہیں کیا جا سکا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان عالمی قوتوں کا کردار منفی ہے اور ہمیں ان کی نیتوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اب میں پوچھنا چاہوں گا کہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے جمعیت علماء اسلام کی جانب سے کیا کوششیں کی گئیں۔؟
مولانا گل نصیب: جمعیت علماء اسلام روز اول سے ملک کی سیاست میں اپنا رول ادا کر رہی ہے، ہم پارلیمنٹ میں جاتے ہیں، آئین اور قانون سازی میں بھرپور حصہ لیا جاتا ہے، اور اس حوالے سے پوری دنیا میں کہیں بھی سیاسی جدوجہد میں ان تمام مظلوم اقوام کے ساتھ ہمیشہ سے آواز اٹھانے میں جے یو آئی کامیاب رہی ہے، اگرچہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مظلوم ہوں اور غریب ممالک ہوں، ان کا اقتصادی اور معاشی قتل کیا جا رہا ہو، جمعیت علماء اسلام ہمیشہ سے اخلاقی اور سیاسی طور پر ایسے مظلوموں کیساتھ رہی ہے۔
 
فلسطین کے معاملہ میں آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران جب اوجڑی کیمپ کا واقعہ ہوا تو جمعیت علماء اسلام نے امریکی سفارتخانہ کے سامنے احتجاج کیلئے پورے ملک سے لوگوں کو بلایا اور حکومت نے اس موقع پر بہت تشدد بھی کیا، لیکن وہ واقعہ اس وجہ سے ہائی لائٹ نہ ہو سکا کہ اسی دن اوجڑی کیمپ کا واقعہ بھی پیش آیا۔ ہماری صفوں میں ہمیشہ فلسطین، فلسطینی بھائیوں اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے جذبات رہے ہیں اور رہیں گے، انشاءاللہ اس حوالے سے وہ تمام قوتیں جو آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں، ان کی پشت پناہی کرنے میں ہی ہم اپنی نجات سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت ملی یکجہتی کونسل کا حصہ ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان اس اتحاد کے احیاء سے لیکر اب تک اس کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، کہیں انہیں کوئی تحفظات تو نہیں۔؟
مولانا گل نصیب: انشاءاللہ وہ ملی یکجہتی کونسل کے آئندہ متوقع اجلاسوں میں شرکت کریں گے، اور اس حوالے سے موجود تمام خدشات پھر ختم ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 187480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Alhamdullilah Aj digar masalik k log bhi Qudas ki Ehmiat ko jaan gaye Hain
ہماری پیشکش