0
Thursday 20 Sep 2012 22:44

پاکستان میں امریکی سفیر سفارتکاری سے زیادہ جاسوسی کیلئے تعینات ہوتے ہیں، حافظ کاظم رضا نقوی

پاکستان میں امریکی سفیر سفارتکاری سے زیادہ جاسوسی کیلئے تعینات ہوتے ہیں، حافظ کاظم رضا نقوی
علامہ سید حافظ کاظم رضا نقوی ممتاز شیعہ عالم دین، بزرگ معلم، شیعہ علماء کونسل کے سینئیر نائب صدر اور جامعہ قرآن و اہلبیت لاہور کے پرنسپل ہیں، حافظ صاحب میڈیا میں ملت جعفریہ کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتے رہتے ہیں، ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ان کی قومیات کے حوالے سے گفتگو کو ملت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں حفاظ کرام کی کثیر تعداد ان کی شاگرد ہے اور ان کی زندگی کا مقصد بھی شیعہ قوم میں حفاظ کرام کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے، اس مقصد کیلئے وہ دن رات سرگرم عمل ہیں۔ حافظ صاحب کی ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی گہری نظر ہے، آپ کی اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بھی نمایاں خدمات ہیں۔ آپ کی شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے کوششوں کو بھی معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ ایک عرصہ تک پاکستان کی عظیم درسگاہ جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، آج کل جامعہ قرآن و اہلبیت لاہور کے پرنسپل اور ناظم اعلٰی ہیں۔ ملک میں فرقہ واریت کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہراتے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کے تمام مسائل اور پریشانیوں کا باعث صرف امریکا ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے ایک نشست کی جس میں ان سے کیا جانے والا انٹرویو قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے(ادارہ)
                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: آج کل گستاخانہ امریکی فلم کا ایشو چل رہا ہے، آخر اس فلم کے مقاصد کیا ہیں۔؟
علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: استعماری قوتیں آزادی اظہار کے نام پر ایسے معاملات اٹھاتی ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں، ان کے عقائد و نظریات کی توہین ہو، ان کے مقدسات کی توہین ہو، ان کے ایسے اقدامات سے مسلمان مشتعل ہوں اور وہ مثبت کام کرنے کی بجائے ان کے خلاف احتجاج میں اپنی توانائی ضائع کر دیں۔ قرآن کے اوراق کا معاملہ ہو یا ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، یہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹویسٹ کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں سے محبت قرآن، محبت اہل بیت (ع)، محبت خدا اور محبت رسول (ص) کو ختم کر دیا جائے۔

یہ محبت ہمیں اسلام سے والہانہ عقیدت کا درس دیتی ہے، یہی محبت ہمیں اسلامی احکامات جن میں سرفہرست جہاد ہے، اس کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ استعمار جہاد سے بہت خائف ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمارے حکمرانوں کو خرید کر ہمارے تعلیمی نصاب سے جہاد کے ابواب ہی ختم کروا دیئے ہیں۔ دشمنان اسلام خصوصاً امریکا کو برداشت نہیں کہ مسلمان غیرت مند ہوں، ان کے وجود میں روح محمدی رہے، وہ ہمارے اجسام سے روح محمدی نکالنے کے لئے گاہے بہ گاہے ایسی گھناؤنی اور ناگفتہ بہہ حرکات کرتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں امت مسلمہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، انہیں باہمی اتحاد سے ان شازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر امت متحد رہی تو استعمار کی تمام سازشیں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔ وہ فرقہ واریت کی آگ بھی اسی لئے بھڑکاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے۔؟

علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مقدسات اور شعائر کا احترام کریں اور اسلامی احکامات میں چند اختلافی امور کے علاوہ زیادہ اجتماعی امور جو موجود ہیں ان میں مل جل کر کردار ادا کریں اور معمولی سے چند اختلافی امور کو زیربحث لانے سے پرہیز کریں، افسوس کہ موجودہ دور میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ دراصل پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ لگانے والے پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں، انہوں نے یہاں کے چند مولویوں کو خریدا اور انہیں یہ ہدف دیدیا کہ آپ نے مسلمانوں کو آپس میں دست وگریباں کروانا ہے، مسلمانوں میں ایسے سقم موجود تھے، جن کا انہوں نے فائدہ اٹھایا اور بھائی کو بھائی سے لڑوا دیا۔

حالانکہ شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں، آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں، لیکن استعمار نے ایک دوسرے سے انہیں دور کیا، ادھر طالبان کے نام پر ایک ایسا گروہ وجود میں آیا، جنہوں نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا، ظاہر ہے وہ امریکا کی پیداوار ہیں تو امریکا نے ان کے ذہین میں شروع سے ہی ڈال دیا تھا کہ آپ کا پہلا ہدف روس اور دوسرا ہدف شیعہ ہوں گے۔ اس بات سے بھی فرقہ واریت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ علماء کرام اپنا کردار ادا کریں، ہر مکتب فکر کے جید علماء اپنے اپنے پیروکاروں کو بتائیں کہ ہمارے اختلافات اتنے نہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کر دیا جائے، یوں علماء کرام کے کردار کی وجہ سے فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کون ہیں اور انہیں اب کون استعمال کر رہا ہے۔؟
علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: بھائی صاحب طالبان کا تو اب صرف لفظ استعمال ہوتا ہے، کوئی واقعہ ہو جائے، بیان جاری ہو جاتا ہے کہ طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ یہ طالبان اب ہمارے سکیورٹی اداروں کے پاس بہترین حل ہے کہ کسی بھی واقعہ کی ذمہ داری طالبان پر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو جاتے ہیں، اس واقعہ کی تفتیش ہی نہیں ہوتی کہ یہ تو طالبان نے کیا ہے، اس کے ذمہ دار طالبان ہیں، یوں واقعہ کا چالان داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ طالبان خیبر پختونخوا کے ایک مدرسہ کے طالب علم ہیں، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں افغانستان میں بھی موجود ہیں۔ اس مدرسہ کے مہتمم کو امریکا نے ضیاءالحق کے ہاتھوں بے بیش بہا ڈالر دیئے، ان مولانا صاحب نے اپنے طالبعلموں کو ’’امریکی جہاد‘‘ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ان میں مذہبی شدت پسندی کا عنصر غالب ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ان کی تربیت میں یہ بات شامل ہے کہ ان کا پہلا ہدف روس اور دوسرا ہدف شیعہ تھے تو انہوں نے روس کو تو افغانستان سے نکال دیا، وہاں سے واپس آ کر انہوں نے شیعہ کشی شروع کر دی۔ ان کا عقیدہ اسلامی نہیں، امریکی ہے۔ یہ قرآن کے اس اصول ’’لااکراہ فی الدین‘‘ کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ طالبان خوارج کی طرح شدت پسندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ انداز اسلام کے سراسر خلاف ہے۔ قرآن تو فرماتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اس میں قرآن نے کسی ہندو یا مسلمان کے قتل کی قید نہیں لگائی، بلکہ انسان کی بات کی ہے۔ لیکن یہ لوگ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر بے رحمی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور پھر اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

یہ کہاں کا اسلام ہے اور کونسا اسلام ہے۔؟ اسلام محمدی کی تعلیمات تو یہ نہیں ہیں، یہاں تو ہمارے اہلسنت بھائیوں نے بھی کہا کہ طالبان کا نظریہ اسلامی ہے نہ اس کے اعمال اسلام کے مطابق ہیں، ظاہر ہے اسلامی نہیں یہ سب کچھ امریکی ہے، جو امریکا نے ان کو سبق دیا، یہ سب کچھ وہی ہے، ان کو مسلمان یا اسلام کے سپاہی کہنا اسلام سے زیادتی ہے۔ آج کل طالبان کے ٹھیکیدار یا کہا جائے کہ طالبان کے ’’گارڈ فادر‘‘ دفاع پاکستان کونسل کے نام سے ایک جماعت بنا کر ’’تباہ پاکستان کونسل‘‘ کے مقصد کی تکمیل میں مصروف ہیں۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل کی آپ نے بات کی، اس کے قیام کی اچانک کیوں ضرورت پیش آ گئی اور اس میں شیعہ حضرات کو کیوں نظرانداز کیا گیا۔؟

علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: دفاع پاکستان کونسل بنیادی طور پر ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو شیعہ دشمنی رکھنے والے اور پاکستان کے معاملات میں ریاسی احکامات کی کھلم کھلا مخالفت کرنے والے ہیں۔ یہ کونسل پاکستان کے دفاع کے لئے نہیں بنائی گئی، بلکہ اس کے مقاصد استعمار کی معاونت ہے۔ انہوں نے اہل تشیع کو صرف اس لئے نظرانداز کیا کیوں کہ شیعہ پاکستان کی بات کرتے ہیں، پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف کوئی سازش برداشت نہیں کرسکتے۔

اگر شیعوں کو اس کونسل میں شامل کر لیا جاتا تو شیعہ ان کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن جاتے، اسی وجہ سے انہوں نے اہل تشیع کی نمائندگی نہیں رکھی اور آپ نے دیکھا کہ بہت سی محب وطن جماعتوں نے جب ان کے کردار کو دیکھا تو دفاع پاکستان کونسل سے الگ ہوگئیں۔ اس کے علاوہ ملی یک جہتی کونسل اور ایم ایم اے جیسے پلیٹ فارم پہلے سے موجود تھے، اگر یہ لوگ وطن کے ساتھ مخلص ہوتے تو یہ انہی پلیٹ فارمز سے ملک کی دفاع کی بات کرتے، ضیا دور میں بھی یہی کونسل امریکی مفادات کے دفاع کے لئے بنی تھی اور آج بھی یہ امریکی مفادات کے لئے معرض وجود میں آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یک جہتی کونسل کی تنظیم نوء کر دی گئی ہے، یہ قوم کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔؟

علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: ملک میں فرقہ واریت، گروہ بندی اور شدت پسندی کے خاتمہ کے لئے دوبارہ ملی یک جہتی کونسل کو فعال کیا گیا ہے۔ ماضی میں جے یو آئی (ف) جیسی مفاد پرست جماعتوں کی وجہ سے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی، ملی یک جہتی کونسل کے سربراہ قاضی حسین احمد نہایت روادار، معتدل اور محب وطن شخص ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں سے نبرد آزما ہونا ان کا مقصد حیات ہے۔ قاضی صاحب کی خواہش ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں، وہ اپنے گروہی مفادات کی بجائے ملکی مفاد کی بات کریں، فرقہ کی بجائے مذہب کی بات ہو، اسلام کی بات ہو۔ قاضی صاحب چاہتے ہیں کہ ملی معاملات کو اسی پلیٹ فارم سے سلجھایا جائے، قوم کو امریکا کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا جائے اور ان امریکی سازشوں کے سامنے پاکستان میں بند باندھا جائے۔

کچھ لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ ملی یک جہتی کونسل پھر ناکام ہو جائے، اس کے لئے وہ کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ ملی یک جہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر کشیدگی پھیلا دی جائے، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملے گی، میڈیا کا دور ہے، عوام باشعور ہوچکے ہیں اور اب لوگ کھوکھلی باتوں میں نہیں آتے، بلکہ لوگ حقائق کا ادراک رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کون کس کے مفادات کے لئے مصروف عمل ہے۔ تو ملی یک جہتی کونسل اتحاد امت میں کامیاب ہوگی، امت کا شیرازہ بکھیرنے والوں کو انشاء اللہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں امریکا کے کیا مفادات ہیں۔؟
علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: امریکا ہر اسلامی ملک میں اپنا اثرونفوذ رکھے ہوئے ہے، کیوں کہ پاکستان مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے لئے ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ محور و مرکز بھی ہے، پاکستان اسلامی دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے، اسی وجہ سے امریکا پاکستان پر زیادہ توجہ دیتا ہے، اس کے علاوہ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ اس کے ایک طرف بھارت، دوسری طرف ایران، ایک طرف چین تو دوسری طرف افغانستان ہیں، ایک جانب سمندر ہے۔ پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں سے ان ممالک کے ساتھ ساتھ پورے ایشیاء کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

اسی وجہ سے امریکا پاکستان میں دلچسپی رکھتا ہے، آپ حیران ہوں گے کہ امریکا دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ پاکستان پر انویسٹ کر رہا ہے۔ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے وہ یو ایس ایڈ کے نام پر کروڑوں روپے عوامی منصوبوں پر لگا رہا ہے، حکومت کو الگ ترقیاتی مقاصد کیلئے ایڈ دے رہا ہے، انہیں کمیشن الگ دیا جا رہا ہے۔ یہاں وہ اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ یہاں بیٹھ کر وہ چین اور ایران کے خلاف سازشیں کرنا چاہتا ہے۔ امریکا بلوچستان میں اس لئے بدامنی پھیلا رہا ہے کہ اس سے ایران اور چین متاثر ہوں۔ ایران اس لئے کہ اس کی سرحد ہے، زائرین کی اچھی خاصی تعداد آتی جاتی ہے، اس کے علاوہ تجارت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے، بلوچستان میں گوادر بندرگاہ ہونے کی وجہ سے چین کی تجارت متاثر ہوگی۔ امریکا بلوچ سرداروں کو خرید کر اپنے مفادات و مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، الگ اور گریٹر بلوچستان کا جو منصوبہ امریکا نے سوچ رکھا ہے اس میں ایرانی بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان شامل ہے۔

اس سے وہ ایک وقت میں ایران کے اندر اور پاکستان کے پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ایران میں جو بلوچ ہیں وہ بہت خوش حال ہیں اور حکومت ایران سے مطمئن ہیں۔ وہ کبھی امریکی آلہ کار نہیں بنیں گے، ہاں کچھ لوگ تھے جو امریکی ایما پر بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے، جن میں ریگی وغیرہ پچھلے دنوں ایران نے پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا، یہ ہے عدالتی نظام، مجرم کو فوری سزا دی جاتی ہے، تو اب وہاں کوئی سر نہیں اٹھاتا، دوسرے لفظوں میں امریکا کا ایجنٹ نہیں بنتا۔

ادھر ہمارے بلوچستان میں کچھ لوگ ہیں، جن سے امریکا کے روابط ہیں، امریکی سفیر ان سے ملتا رہا ہے، ان کو اپنا ایجنڈا دیتا رہا ہے اور وہ اس پر کام کرتے ہیں، عمان میں باقاعدہ امریکا نے تربیتی کیمپ بنا رکھے ہیں، جہاں بلوچوں کو تربیت دی جاتی ہے اور وہ پھر بلوچستان میں آ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ تو امریکا اصل میں چین اور ایران سمیت ایشیاء کی تھانیداری کے لئے پاکستان میں بدامنی پھیلا کر اسے اللہ نہ کرے توڑنے کے لئے کوشاں ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے امریکی سفیر کی بات کی، تو ایسے سفیر کو ملک بدر نہیں کر دینا چاہیے جو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو۔؟

علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: دیکھیں جی کسی بھی ملک کا سفیر اس ملک کے سفارتی امور کی بجاآوری کے لئے ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور مضبوطی کے لئے سفیر تعینات ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں تک امریکی سفیر کی بات ہے تو یہ موصوف سفارتی سے زیادہ جاسوسی معاملات پر تعینات لگتے ہیں۔ آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ ترکی، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، چین ، ایران، عراق، شام یا کسی بھی ملک کا سفیر گلگت، کوئٹہ، کراچی، سرگودھا جیسے شہروں میں منہ اٹھائے پھر رہا ہو اور وہاں کے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہا ہو، سفیر کا کام سفارتی معاملات ہوتے ہیں اور سفارتی معاملات ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں عام شہریوں کے ساتھ نہیں، لیکن امریکی سفیر گلگت کے شہریوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں اکساتا پھر رہا تھا کہ آپ بغاوت کریں، الگ ریاست کا مطالبہ کریں، ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کے لئے تیار ہیں۔

اسی طرح بلوچستان کے سرداروں کو کہا جاتا ہے کہ آپ الگ آزاد ریاست کا مطالبہ کریں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ یہ کہاں کی سفارت کاری ہے، وہ تو بھلا ہو ہمارے میڈیا کا جس نے کیمرون منٹر کی ان سرگرمیوں کو نمایاں کرکے شائع اور نشر کیا تو امریکی حکومت نے بے نقاب ہو جانے پر کیمرون منٹر کو واپس بلا لیا کہ آپ کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ تو میرے خیال میں اگر امریکی سفیر کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کی حدود و قیود بھی اسے بتائی جائیں کہ جناب آپ نے یہاں تک رہنا ہے، عوام میں بغاوت نہیں پھیلانی اور اگر وہ باز نہ آئے تو ناپسندیدہ قرار دے کر نکال دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: غیر وابستہ ممالک کی تہران میں ہونے والی کامیاب کانفرنس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: نام کانفرنس کی کامیابی میں ایران نے مثبت کردار ادا کیا ہے اور یہ امریکا اور اس کے حواریوں کے منہ پر ایسا تھپڑ ہے جس کی ٹیسیں امریکا ایک عرصے تک محسوس کرتا رہے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ میڈیا میں اس کی کوریج نہ آئے، اس کانفرنس کو اس نے جتنا چھپانے کی کوشش کی یہ اتنی ہی شدت کے ساتھ منظر عام پر آئی اور کامیاب ہوئی۔ آپ نے دیکھا کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی دنیا کے 120 ممالک نے بھرپور انداز میں تائید کر دی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امریکا کا ایک عرصے سے جاری پروپیگنڈا ایران نے ایک دن میں ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔

اس کے علاوہ نام کانفرنس کے موقع پر بہت سے ممالک نے ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے بھی کئے ہیں، ادھر امریکا اس پر اقتصادی پابندیاں لگا رہا ہے، ادھر کئی ملک ایران کے ساتھ معاہدے کرکے امریکا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ کی ہماری نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ تو نام کانفرنس کی کامیابی نے امریکا کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے۔ پاکستان کو بھی امریکی دباؤ مسترد کرکے ایران کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہیے، اسی میں ہمارا فائدہ ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکی دباؤ ہے، یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔؟
علامہ حافظ کاظم رضا نقوی: پاک ایران تعلقات پاکستان کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کو قیام کے وقت سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہے۔ ابتداء سے لے کر آج تک ایران کی پاکستان سے دوستی مثالی ہے، جس پر دونوں ملکوں کے عوام کو فخر ہے۔ جہاں تک گیس پائپ لائن کا تعلق ہے تو امریکا کون ہوتا ہے اس میں مداخلت کرنے والا یا پاکستان پر دباؤ ڈالنے والا؟ قوم توانائی بحران کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے، ہماری صنعتیں تباہ ہو رہی ہیں، کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں اور امریکا کہتا ہے ہم ایران سے گیس نہ لیں۔

ارے بھائی ہم گیس یا بجلی نہیں لیں گے تو ہمارے یہ بحران تو ہمیں کھا جائیں گے، ہمارے ہاں غربت اور مہنگائی حد سے بڑھ چکی ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ بحران قابو نہ ہوئے تو ہم تو مر جائیں گے۔ امریکا ہمیں ایران سے گیس لینے سے روک کر ہمیں مارنا چاہتا ہے؟ ہماری معیشت تباہ کرنا چاہتا ہے، ہماری صنعتوں کو تالے لگوا کر لاکھوں کروڑوں مزدوروں کو بیروزگار کرنا چاہتا ہے، لعنت ہے ایسے دوست پر جو پیاس سے مرتے ہوؤں کو خود پانی دے رہا ہے اور نہ دوسروں کو دینے کی اجازت دے رہا ہے، اس سے تو واضح ہوگیا کہ یہ (امریکا) ہمارا دوست نہیں بلکہ ایران ہمارا دوست ہے جو ہمارے مسائل پر غمگین ہے اور ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔

امریکا اور ایران کے بارے میں ہماری پوری قوم آگاہ ہے کہ کون دوست اور کون دشمن ہے۔ بھارت کیساتھ ہماری ہونے والی جنگوں میں امریکا نے ہمیں صرف دلاسہ دیا تھا کہ اسلحہ آ رہا ہے، اسلحہ نہیں دیا تھا جبکہ مشکل کی کھڑی میں ایران ہمیشہ ہمارے ساتھ عملی طور پر شریک رہا ہے۔ سیلاب اور زلزلہ کے دنوں میں ایرانیوں کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تو ہمیں گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکی دباؤ کو کسی طور بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ فوری طور پر اس منصوبے کو مکمل کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ ہمارے لئے روٹی پانی کی طرح اہم ترین ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل پر اگر امریکا ناراض ہوتا ہے تو ہوتا رہے، قوم اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہے۔

حکمران امریکا کے سامنے ڈٹ جائیں، قوم پشت پر ہوگی۔ یہ منصوبہ جلد ازجلد مکمل کیا جائے، اس کے علاوہ ایران سے پٹرول بھی منگوایا جائے اور جتنی یہاں غیرملکی (مغربی) کمپنیاں ہیں، ان کی چھٹی کروا دی جائے اور ایرانی کمپنیوں کو یہاں پٹرول پمپ لگانے کی اجازت دی جائے۔ وہ ہمیں سستا اور معیاری پٹرول فراہم کریں گے، جس سے ہماری معیشت ترقی کرے گی۔ یہ جو ہر ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا بم عوام کے سر میں مار دیا جاتا ہے اس سے ہم بچ جائیں گے۔
                                * * * * *
خبر کا کوڈ : 197114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش