1
0
Wednesday 20 Mar 2013 02:42
ہم By Choice پاکستانی بنے ہیں

گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن عوام کو دیگر پاکستانی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں، دیدار علی

گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن عوام کو دیگر پاکستانی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں، دیدار علی
دیدار علی ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا شمار گلگت بلتستان کی نامور سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپکا تعلق گلگت شہر سے ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گلگت ہی میں حاصل کی اور میٹرک کے بعد تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد چلے گئے، جہاں سے ایف اے اور بی ایس سی کیساتھ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ دیدار علی صاحب قائد گلگت کے نام سے پہنچانی جانے والی معروف سماجی شخصیت جوہر علی خان مرحوم کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ آپ طویل عرصے سے ملت جعفریہ کی قومی مذہبی جماعت تحریک جعفریہ پاکستان سے وابستہ رہے اور تحریک جعفریہ گلگت بلتستان کے کلیدی عہدوں پر کام کرتے رہے، آپ نے 1999ء کے انتخابات میں تحریک جعفریہ کے ٹکٹ پر گلگت حلقہ نمبر 1 سے قانون ساز اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔ آپ نے پچھلے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیکر حلقہ نمبر 2 گلگت سٹی سے کامیابی حاصل کی ہے۔ دیدار علی کا شمار شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کے بھی قریبی رفقاء میں ہوتا ہے اور آپ شہید کی جانب سے اٹھائی گئی تحریک اصلاح نصاب تعلیم میں انکے شانہ بشانہ رہے۔ آپ مرکزی انجمن امامیہ گلگت کے دو مرتبہ صدر رہ چکے ہیں۔ آپ سیاسی مصروفیات کے علاوہ اس وقت اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی سیاسی سیل کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے دیدار علی صاحب سے حالات حاضرہ پر ایک انٹریویو لیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
اسلام ٹائمز : دیدار علی صاحب، آپ گذشتہ طویل عرصے سے گلگت بلتستان کے سیاسی منظر نامے میں اہم عہدوں پر رہے ہیں، شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے قریبی رفقاء میں آپکا شمار ہوتا ہے اور اس وقت قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے ممبر بھی ہیں۔ گلگت بلتستان کے مخصوص حالات اور فرقہ واریت کے حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
دیدار علی صاحب: گلگت بلتستان کا خطہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس جنت نظیر خطے کو قدرت نے بیش بہا قدرتی نعمات سے نوازا ہے اور اس کیساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی جیو پولیٹکل اور اسٹرٹیجک اہمیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چین، بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کی سرحدیں اس خطے سے منسلک ہیں۔ لہٰذہ یہ خطہ طویل عرصے سے بین الاقوامی قوتوں کی نظروں میں ہے اور یہاں رونما ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھی وہی قوتیں ملوث ہیں جو اس حساس خطے میں بدامنی و انارکی پھیلا کر اور فرقہ واریت کو ہوا دیکر استحکام پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔ 

گلگت بلتستان میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے، درحقیقت چند مٹھی بھر شدت پسند گروہ ہیں جن کے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے مراسم ہیں اور ماضی میں ہمارے بعض ریاستی اداروں کی بھی انہیں سرپرستی حاصل رہی ہے۔ لہٰذہ یہی مقامی شدت پسند عناصر بین الاقوامی قوتوں کے آلہ کار بن کر اس خطے میں شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر الحمداللہ ابتک وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوچکے ہیں، کیونکہ گلگت بلتستان کے غیور اور باشعور عوام اب یہ جان چکے ہیں کہ انکا مشترکہ دشمن کون ہے اور انکے کیا مقاصد ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اپنے فرائض نیک نیتی کیساتھ انجام دیں اور ملک دشمن عناصر کیخلاف ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت، موجودہ سیاسی پیکج اور ایک طبقے کی جانب سے اس پیکچ کی مسلسل مخالفت اور گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دینے کی مہم کے حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟

دیدار علی صاحب: دیکھئے جی، یہ یقیناً ایک المیہ ہے کہ نصف صدی سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن عوام کو دیگر پاکستانی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں، ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی نمائندگی نہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کے عوام بالخصوص نوجوان نسل میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہمارے آباو و اجداد نے بغیر کسی بیرونی امداد کے ڈوگرہ راج کیخلاف قیام کرکے اور جنگ آزادی لڑ کر اپنی مدد آپ کے تحت اس خطے کو آزاد کرایا تھا اور 15 دنوں تک ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود رہنے کے بعد باہمی مشاورت سے یہاں کے غیور اور محب وطن عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھ کر الحاق پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور میں یہ جملہ اکثر دہراتا رہتا ہوں کہ ’’پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ تو شاید By Chance پاکستانی بنے ہوں مگر گلگت بلتستان کے محب وطن عوام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم By Choice پاکستانی بنے ہیں۔
 
مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج تک ہمیں مسئلہ کشمیر کیساتھ نتھی کرکے مکمل قومی دھارے میں شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ زمینی حقائق اس تاثر کی سختی کیساتھ نفی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا کشمیر کیساتھ کوئی بھی تعلق ہے؟ ہمارا کلچر، تہذیب و تمدن، زبان اور معاشرتی روایات کا دور دور تک کشمیریوں سے کوئی تعلق نہیں اور ہماری علیحدہ پہچان اور تشخص ہے اور یہاں کی اکثریتی آبادی اپنے آپ کو کشمیر کا حصہ تصور نہیں کرتی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے کہ ہمارا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ رہی بات موجودہ سیاسی پیکج کی تو ہم اسے ایک مثبت پیش رفت ضرور سمجھتے ہیں، مگر ہمارا اصل ہدف گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنوانا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے آئندہ ملکی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، جبکہ ماضی میں گلگت بلتستان میں تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم نے انتخابات میں حصہ لیکر بھرپور کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں، اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے اور کیا گلگت بلتستان کی سطح پر بھی اسلامی تحریک پاکستان ماضی کی طرح آئندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیگی۔؟
دیدار علی صاحب: ملت جعفریہ پاکستان کی بانی ملت ہے اور محافظ ملت بھی اور جن حالات میں تحریک جعفریہ نے سیاست میں قدم رکھا، تب پورے ملک میں مذہبی بنیادوں پر مسائل موجود تھے اور قانون سازی یا ترامیم میں فقہ جعفریہ کو سرکاری طور پر نظر انداز کیا جانے لگا، ایسے میں ملت جعفریہ کی نمائندگی ایوانوں میں ناگزیر ہوچکی تھی اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے سیاسی پلیٹ فارم کا اعلان کیا جو فرقہ پرستوں کی ناکامی تھی اور فرقہ پرست سازشوں میں تیز ہوئے اور دانستہ طور پر ہمیں ملک میں فرقہ پرستی کی ٹھیکیدار تنظیم کے برابر میں لایا گیا اور ملت جعفریہ کو ہر سطح پر محروم رکھنے کے خواہشمندوں نے تحریک جعفریہ پر پابندی لگوا دی۔ تحریک جعفریہ نے پورے ملک میں بالعموم اور گلگت بلتستان میں بالخصوص ملت جعفریہ کو سیاسی بیداری کے ساتھ ایوانوں اور گلگت بلتستان کی کونسل تک رسائی دی اور یہ اعزاز بھی ہمیں حاصل رہا کہ 1999ء کے انتخابات کے بعد تحریک جعفریہ پاکستان نے قائد محترم علامہ ساجد نقوی اور شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی کی سرپرستی اور راہنمائی میں عمدہ سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور بعض آزاد اراکین کیساتھ اپنی حکومت بنائی اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹو (اس وقت کا وزیراعلٰی) بھی تحریک جعفریہ کا امیدوار منتخب ہوا۔ 

گذشتہ انتخابات میں قومی جماعت پر پابندی اور چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر ہم اگرچہ جماعتی بنیادوں پر طور انتخابات میں حصہ تو نہ لے سکے مگر ہمارے موثر ووٹ بنک کی بدولت گلگت شہر کے دونوں حلقوں، 1 اور 2 سے ہمیں آزاد حیثیت سے کامیابی ملی اور میں نے اور رضی الدین رضوی صاحب (سابق مرکزی سیکرٹری جنرل تحریک جعفریہ) نے حلقہ 1 اور 2 گلگت سے بالترتیت آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو بھاری مینڈیٹ سے شکست دیکر ثابت کر دیا کہ ملت جعفریہ گلگت اب بھی سیاسی طور پر بیدار اور اپنا موثر ووٹ بنک رکھتی ہے اور بلاشبہ اس کامیابی میں ہمارے مخلص کارکنان، قائد محترم، علماء کرام، بزرگان اور ملت کی ماوں، بہنوں اور بالخصوص نوجوانوں کی انتھک محنت اور کوششیں شامل تھی۔ انشاءاﷲ آئندہ الیکشن میں بھی ملت جعفریہ اپنے قومی پلیٹ فارم اسلامی تحریک پاکستان سے بھرپور حصہ لے گی اور مرکزی پالیسی کے تحت ملت کی ترجمانی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے بھی عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے، کیا اسلامی تحریک پاکستان اور ایم ڈبیلو ایم کے ایک ساتھ الیکشن میں حصہ لینے سے شیعہ ووٹ بنک تقسیم ہونے کا خدشہ نہیں؟ اور کیا ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک کا انتخابی اتحاد ممکن نہیں۔؟
دیدار علی: مجلس وحدت مسلمین کے حوالے سے جہاں تک میری معلومات ہیں، گلگت بلتستان کی سطح پر تو ابھی تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی کہ وہ باقاعدہ سیاسی عمل میں شریک ہیں کہ نہیں، اس لئے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 247850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
mashallah khuda aap ko salamat rakhe
ہماری پیشکش