0
Sunday 19 May 2013 12:15

خیبر پختونخوا میں امن کی بحالی نئی صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی، اسرار اللہ خان

خیبر پختونخوا میں امن کی بحالی نئی صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی، اسرار اللہ خان

اسرار اللہ خان ایڈووکیٹ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات اور ترجمان کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انتہائی خوش اخلاق صفت کے مالک اسرار اللہ خان پیشے کے لحاظ سے وکیل رہ چکے ہیں۔ آپ 11 مئی کے الیکشن میں پشاور کے حلقہ این اے 3 سے جماعت اسلامی کے نامزد امیدوار بھی تھے۔ آپ کا شمار جماعت اسلامی کے متحرک رہنماوں میں ہوتا ہے، اور مختلف مکاتب فکر میں اچھی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ اسرار اللہ خان ایک میڈیا دوست شخصیت بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کی خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کے حوالے سے تحریک انصاف کی حمایت اور نئی حکومت کے قیام کی مناسبت سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اسرار اللہ خان کیساتھ مختصر گفتگو کی۔ جو انٹرویو کی صورت میں قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا کی حکومت سازی کے عمل میں جے یو آئی کی بجائے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کو کیوں ترجیح دی۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: دیکھیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اکثریتی عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا ہے۔ وہ ایک بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہئے اور تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع ملنا چاہئے۔ پھر یہ کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ صوبہ میں کرپشن اور لوٹ مار ختم ہو۔ یہاں پر ایک مضبوط لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ ہو۔ یہاں پر عوام کے بنیادی مسائل حل ہوں۔ اس کے علاوہ بعض ایشوز پر ان کیساتھ ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہاں پر تحریک انصاف کیساتھ ملکر حکومت بنائی جائے۔ 

اسلام ٹائمز: صوبہ میں وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے کیا فارمولہ طے پایا ہے۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: وزارتوں کا معاملہ اتنا زیادہ اہم نہیں ہے۔ اہم بات کچھ اصول اور مقاصد تھے۔ جن پر زیادہ تر ہماری بات ہوئی ہے۔ مثلاً یہاں پر ہم میرٹ کی بالادستی کو قائم کریں، قانون کی حکمرانی کو یقنی بنائیں، یہاں پر آپ دیکھیں کہ کتنی بدامنی ہے، اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اس کے علاوہ یہاں صحت اور تعلیم کے حوالے سے سہولیات ناپید ہیں۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو صحت اور تعلیم کے حوالے سے سہولیات ملیں۔ یہاں پر انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ نوجوان بڑے پیمانے پر بے روزگار ہیں۔ ہماری ان مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے بھی معاملات زیر بحث آئے، کیونکہ مضبوط لوکل گورنمنٹ سسٹم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھی ہم نے بات چیت کی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مقاصد کے حوالے سے ان کیساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ وزارتوں کا جو معاملہ ہے وہ بھی آسانی سے حل ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: صوبہ کے بعض اضلاع میں جماعت اسلامی کی جانب سے بھی انتخابی دھاندلی کے الزامات سامنے آئے، کیا آپ کی جماعت ان علاقوں میں دوبارہ انتخابات کرانے کی حامی ہے یا پھر دیگر جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: جو عمومی انتظامات تھے ہم ان سے مطمئن تو نہیں تھے، بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے کی جانب بڑھے اور چونکہ یہاں مسائل بہت زیادہ ہیں، اور ہمارے صوبہ پر 2001ء سے اب تک مسلسل امریکی مداخلت اور افغانستان کی وجہ سے براہ راست اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کسی صورت بھی امن بحال ہوجائے اور یہ صوبہ خود ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑے۔ لہذا ہمارا زیادہ تر فوکس اب اس طرف ہے، تاکہ اب آگے کی جانب دیکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ میں امن کی بحالی کے حوالے سے اتحادیوں کیساتھ کیا معاملات طے پائے ہیں، طالبان سے مذاکرات کئے جائیں گے، آپریشن یا پھر ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے کوئی بات ہوئی ہے۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: یہ سب باتیں ڈسکس ہوئی ہیں، اس حوالے سے شروع دن سے ہمارا بھی یہ موقف ہے کہ سب معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہونے چاہئیں، بلکہ گذشتہ پارلیمنٹ کی جو قرارداد تھی اور اے پی سی میں جو طے پایا تھا وہ یہی تھا کہ قبائلی علاقوں میں جو آپریشنز ہیں وہ ختم کئے جائیں اور قبائل کیساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی ہمارا یہی موقف تھا کہ اس پر مضبوط اسٹینڈ لیا جائے۔ تحریک انصاف والے بھی کہتے ہیں کہ ڈرون حملے رکنے چاہیئں اور اگر نہیں رکتے تو انہیں مار گرایا جائے اور ہمارا بھی یہی موقف ہے۔ ان باتوں پر ہمارا ان کیساتھ موقف ملتا جلتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ انشاءاللہ حکومت سازی کا یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوجائے گا تو ہم دیگر مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔ 

اسلام ٹائمز: جب یہ کہا جاتا کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی تک یہاں حالات بہتر نہیں ہوسکتے تو پھر امن کی بحالی کیسے ممکن ہوسکے گی۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: اب ان (امریکیوں) کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2014ء تک امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا اور میرے خیال میں اب ان کے پاس نکلنے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں رہا، کیونکہ اب وہ جنگ ہار چکے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں جتنا زیادہ رہے گا وہ اس کیلئے گھاٹے کا سودا ہوگا اور جب امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا تو یقیناً خیبر پختونخوا میں بھی امن بحال ہوجائے گا۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے جن مسائل کا ذکر کیا یہ کب تک حل کر دیئے جائیں گے، اور نئی صوبائی حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی۔؟
اسرار اللہ ایڈووکیٹ: سب سے اہم بات امن کا قیام ہے، جب امن نہ ہو تو آپ کی کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہاں پر ہمارا کاروبار تباہ ہوچکا ہے، یہاں پر انڈسٹریز بند ہیں، یہاں پر تعلیم اور صحت کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہماری تو یہ کوشش ہے کہ صحت اور تعلیم کا بجٹ ہم ڈبل کر دیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ جب امن ہوگا تو کاروبار کی بھی ترقی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کیلئے ایسی سکیمیں شروع کی جائیں جس کے نتیجے میں انہیں بڑے پیمانے پر روزگار میسر آسکے، کیونکہ جب لاکھوں نوجوان بے روزگار پھریں گے تو امن کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ اس لئے ہماری کوشش ہے کہ جوانوں کو روزگار ملے۔ اس کے علاوہ انفراسٹریکچر بحال کیا جائے، پھر تعلیم اور صحت کا معاملہ بھی ہے، لیکن سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صوبہ میں لوگوں کو امن ملے۔ لہذا ہماری کوشش ہوگی کہ سب سے پہلے امن بحال کیا جائے کیونکہ یہ بہت اہم ضرورت ہے۔

خبر کا کوڈ : 265137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش