0
Saturday 17 May 2014 01:38
لیاری میں جنداللہ کی موجودگی سکیورٹی فورسز کی نااہلی ہے

متحدہ قومی موومنٹ میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے لوگ فعال ہیں، حبیب جان

پاکستان بچانے کیلئے مصلحت پسندی کا شکار ہونے کا نہیں بلکہ فیصلے کرنے کا وقت ہے
متحدہ قومی موومنٹ میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے لوگ فعال ہیں، حبیب جان
اسلام ٹائمز: شہر قائد کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے حبیب جان سولہ سترہ سال کی عمر سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو گئے تھے، موجودہ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور لیاری کے معاملات پر ان کے رویئے کی وجہ سے دو برس قبل آپ پیپلز پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کراچی شہر کے حالات کی خرابی کے باعث بارہ تیرہ سالوں سے لندن میں مقیم ہیں، جہاں انہوں نے فرینڈز آف لیاری انٹرنیشنل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہوئی ہے جس کے وہ سربراہ بھی ہیں، خواہش رکھتے ہیں لیاری سمیت شہر کراچی کا امن اور رونقیں دوبارہ سے بحال ہو جائیں۔ اسلام ٹائمز نے حبیب جان کے ساتھ اسکائپ پر آن لائن ایک خصوصی انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کی دعوت پر متحدہ قومی موومنٹ نے ایکبار پھر سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
حبیب جان:
دنیا بھر میں کسی بھی سطح پر اتحادی حکومتوں کے قیام کا مقصد ذاتی یا جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر اس شہر، صوبے یا ملک کی تعمیر و ترقی ہوتا ہے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اتحاد کا مقصد ذاتی مفاد کا حصول ہے نہ کہ کراچی اور سندھ کی تعمیر و ترقی۔ پھر ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ کراچی آپریشن کو روکا جا سکے یا اس کا رُخ اپنی جانب سے موڑا جا سکے یا اس میں کمی لائی جا سکے، اگر ایسا ہوتا ہے تو وفاقی حکومت، عدلیہ، میڈیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے سب شریک ہونگے کہ انہوں نے جمہوریت کے نام پر اس ڈرامہ کو قبول کر لیا کہ جس کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ دونوں جماعتیں براہ راست مالی کرپشن میں، زمینوں پر قبضے میں ملوث ہیں۔ وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کو جمہورریت کے نام پر ہونے والے اسے ڈرامہ کا نوٹس لینا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: کراچی بدامنی کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟ نیز حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کراچی بدامنی خصوصاً میڈیا کیلئے خطرہ کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ اور کالعدم سپاہ صحابہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔؟
حبیب جان:
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پچھلی تین دھائیوں سے ایم کیو ایم کراچی پر قابض ہے، بلدیہ کراچی ہو یا کے ایم سی، واٹر بورڈ ہو یا کے ڈی اے، کے ای ایس سے یا دیگر شہری ادارے سب پر ایم کیو ایم مسلط ہے۔ کراچی سے حاصل ہونے والی روزانہ کی بنیاد اربوں روپے کی آمدنی میں ایم کیو ایم کسی کو شریک کرنا نہیں چاہتی، بلکہ اب تو ایم کیو ایم کے اندر بہت سے گروپس اربوں روپے کی آمدنی میں سے اپنا اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے آپس میں لڑ رہے ہیں جو کہ ایم کیو ایم کے اندر چند عناصر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اب یہ گروپس میں ان اربوں روپے میں اپنا حصہ چاہتے ہیں، اس لئے ان کے اندر بہت سے گروپس بن گئے ہیں، عمران فاروق گروپ، سلیم شہزاد گروپ، مصطفیٰ کمال گروپ، انیس قائم خانی گروپ، تو یہ سارا جھگڑا اربوں روپے مال کا ہے۔ دوسری بات آپ نے صحافیوں کو درپیش خطے کے حوالے سے کہی تو سب سے پہلے میں کہنا چاہوں گا کہ آج بھی کراچی میں صحافیوں کے روپ میں کچھ کالی بھیڑیں زرد صحافت کر رہی ہیں تو کچھ صحافی اپنی جانوں پر کھیل کر حق و صداقت کی بات کر رہے ہیں، اس کے ساتھ کچھ صحافی یزید سے بھی مراسم رکھنا چاہتے ہیں اور حسین (ع) کو بھی سلام کہنا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ میرا تعلق لیاری سے ہے ایم کیو ایم کی ایماء پر کبھی بھی میڈیا نے لیاری کی اچھی چیزوں کو پیش نہیں کیا بلکہ متحدہ کی خواہش پر گینگ وار، دہشت گرد وغیرہ کے القابات سے بدنام کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ حقیقت پر مبنی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کو اس رپورٹس کے بعد اپنی صفوں کو درست کرنا پڑے گا، وہ صحافی حضرات جو یزید کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اور حضرت امام حسین (ع) پر بھی سلام بھیجنا چاہتے ہیں، انہیں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ دیکھیں آج ہر چیز صاف شفاف اور عیاں ہو چکی ہے کہ کون محب وطن ہے، کون ملک کے چاہنے والے ہیں یا ملک کے وفادار ہیں اور کون ملک دشمن، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہماری عدلیہ سے لیکر میڈیا، میڈیا سے لیکر ہماری اسٹیبلشمنٹ سب ہی مصلحت کا شکار ہیں۔ دیکھیں برطانوی حکومت نے حکومتِ پاکستان سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث دو قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جن کے نام کاشف اور محسن ہیں، یہ دونوں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں براہ راست ملوث ہیں۔ پہلے ہم زرداری صاحب اور رحمان ملک کو برا بھلا کہتے تھے لیکن آج موجودہ نواز حکومت کو ایک سال ہو چکا ہے نواز شریف صاحب اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بھی وہی رویہ ہے جو ماضی میں زرداری اور رحمان ملک کا تھا۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر کوئی مصلحت کا شکار ہے، جسے پس پشت ڈال کر سب کو قیام امن کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوگی۔ کراچی کا امن، ماضی میں بھی اور آج بھی حکومت بھی اور سرکاری ایجنسیاں بھی بار بار کہتی ہیں کہ کراچی بدامنی میں ایم کیو ایم براہ راست ملوث ہے، اور اب یہ بات بھی چھپی نہیں رہی کہ متحدہ کے اندر سپاہ صحابہ بھی ہے، لشکر جھنگوی بھی ہے، یہ دونوں عناصر ایم کیو ایم میں فعال ہیں، ایم کیو ایم کے ان سے تعلقات ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے کچھ شیعوں کو بھی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کرنے کی اطلاعات ہیں اور یہی وجہ بنی کہ مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، تو اب یہ باتیں عیاں ہو چکی ہیں مگر نہیں پتہ کہ نواز حکومت بھی زرداری حکومت کی طرح کر رہی ہے، اب پاکستان کو بچانے کیلئے کسی مصلحت پسندی کا شکار ہونے کا نہیں بلکہ فیصلے کرنے کا وقت ہے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کے سابق رہنماء و سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی سے پیپلز پارٹی نے استعفیٰ لے لیا، اس فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
حبیب جان:
فیصل رضا عابدی میرے اچھے دوست اور بھائی ہیں، ہم نے انہیں چار سال پہلے کہا تھا کہ فیصل صاحب جب کراچی ڈویژن کے صدر تھے کہ معاملات صحیح نہیں ہیں، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ دیر آئے درست آئے، انہیں اب یہ ساری باتیں سمجھ آ گئی ہیں جو کہ انہیں چار سال پہلے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کراچی کے حالات ایسے نہیں جیسے آپ کو نظر آتے ہیں، جو آپ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، اب انہوں نے بھی ہماری آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فیصل رضا عابدی اکیلے نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ شہر میں آپکے ساتھ کوئی ہو نہ ہو آپکا ضمیر آپ کے ساتھ ہو، آپکا ضمیر مطمئن ہو۔ فیصل رضا عابدی صاحب کے ساتھ تو یہ ہونا ہی تھا، کیونکہ اس وقت اقتدار کی محبت اور ہوس میں پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم سب کے سب اپنے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے ملک و قوم کے مفادات کو قربان کر رہے ہیں، لہٰذا ہماری طرح اور فیصل رضا عابدی کی طرح کے لوگ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے، میں فیصل رضا عابدی صاحب کیلئے دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ انکی حفاظت فرمائے، لوگوں کو بھی فیصل رضا عابدی کا ساتھ دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حساس اداروں کی رپورٹس کے مطابق لیاری میں جند اللہ اور لشکر جھنگوی کے ٹھکانوں کی موجودگی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
حبیب جان:
بالکل میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں یہ اطلاعات ہمارے پاس بھی ہیں لیکن یہ صورتحال آج سے پہلے کبھی نہیں تھی لیاری میں، اور جیسا کہ آپ نے لیاری میں جنداللہ کی موجودگی کی بات کی تو یہ تو ہماری سکیورٹی فورسز کی نااہلی ہے کہ جنداللہ لیاری میں کیسے داخل ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی لیاری میں ان کا کوئی اتنا بڑا گروپ نہیں بن پایا ہے، ہاں مگر ان کی لیاری میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ دوسری وجہ جو میں سمجھتا ہوں ان عناصر کی موجودگی اور کام کرنے کی وہ یہ ہے لیاری کی عوام، وہاں کے نوجوان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں، محرومی کا شکار ہیں، روزگار نہیں، شہر کی طرف جا نہیں سکتے، ایم کیو ایم ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہو یا وفاق میں نواز حکومت ہو، دونوں نے لیاری کی عوام کو دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے، تو اس صورتحال میں وہاں جنداللہ وغیرہ مال و زر کا لالچ دیکر لوگوں کو خرید سکتی ہے جیسا کہ ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں میں دہشت گرد عناصر کر رہے ہیں، اس میں سب سے بڑی ذمہ دار حکومت ہے۔ جب ایک گروہ کو خوش کرنے کیلئے دوسرے کو دیوار سے لگانے کر ان کو حقوق سے محروم کریں گے تو اس قسم کی صورتحال کا پیدا ہونا یقینی ہو جائے گا۔ بہت سارے معاملات ہیں جنہیں دیکھنا ہوگا کیونکہ کل بھی لیاری کی عوام امن پسند اور جمہوریت پسند تھی اور آج بھی ہے۔ صیاءالحق کا دور ہو یا مشرف کا انہوں نے کبھی بھی کسی کے تلوے نہیں چاٹے جیسا کہ دوسرے لوگوں نے چاٹے، جو سب کے سامنے ہے، لیاری کی عوام نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت و بقاء کی بات کی، میں سمجھتا ہوں کہ عارضی طور پر جند اللہ اور اس جیسے دیگر عناصر سرایت کر گئے ہیں تو اگر ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری کی تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: لیاری میں جنداللہ جیسے عناصر کی موجودگی کی ذمہ داری آپ نے ریاستی ادارے پر ڈال دی ہے، تو کیا حل ہے، کیا کرنا چاہیئے ریاستی اداروں اور حکمرانوں کو؟
حبیب جان:
دیکھیں صورتحال یہ ہے ریاستی ادارے ایم کیو ایم کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، رینجرز پر جب بات آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ گورنر سندھ کے کنٹرول میں ہیں جو کہ متحدہ کا ہے، یہی گورنر پچھلے بارہ سالوں سے سندھ پر حکمرانی کر رہا ہے، پہلے انہوں نے لیاری میں کچھی رابطہ کمیٹی تشکیل دی کہ کسی طرح لیاری ان کے کنٹرول میں آ جائے تاکہ یہ امریکا اور برطانیہ کو کہہ سکیں کہ یہ پورے کراچی کے مالک ہیں، جھگڑا ہے کراچی پر قابض ہونے کا، کراچی کے سمندر پر قبضے کا اور متحدہ کی اس ناجائز خواہش کی تکمیل میں لیاری کی محب وطن عوام سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ بہرحال لیاری میں دہشت گرد عناصر کے نفوذ کے خاتمہ کیلئے ریاست وہاں کی عوام کے حقوق کی ادائیگی کرے، یہی اس مسئلے کا حل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ لیاری پر قبضے کیلئے ایم کیو ایم نے کچھی رابطہ کمیٹی بنائی، ریاستی ادارے ایم کیو ایم کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ ہمیشہ اس حوالے سے انکار کرتی نظر آئی ہے، کیا کہیں گے؟
حبیب جان:
دیکھیں ایم کیو ایم اس وقت صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے، اگر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تو پاکستان بھر میں تمام دہشت گرد عناصر کے پیچھے ایم کیو ایم نظر آئے گی، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے دشمن ممالک کی انہیں مکمل حمایت حاصل ہے، افسوسناک بات یہ ہے ریاستی ادارے انکوائری تو کرتے ہیں مگر یا تو اس کو روک دیتے ہیں یا پھر منظر عام پر نہیں لاتے، نہ ہی اس حوالے سے عمل درآمد کرتے ہیں، یہ کراچی میں جہاں اہل سنت کو مذہبی، سیاسی و دیگر حوالوں سے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں وہیں اہل تشیع کو بھی کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں، لیکن مولا کا کرم ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کو، لوگوں کو ایم کیو ایم کی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی اور انہوں نے اس حوالے سے قدامات کئے، ہم تو بہت پہلے سے یہ بات کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم سنی شیعہ دونوں عناصر کو استعمال کر رہی ہے، آپس میں لڑانے کی سازش کر رہی ہے کیونکہ جب تک شہر میں بدامنی نہیں ہوگی تو متحدہ کی حکمرانی قائم نہیں رہے گی۔
 
مجھے نہیں پتہ کہ ایم کیو ایم واضح ملک دشمن پالیسی اور اقدامات پر ریاستی ادارے، مقتدر قوتیں چاہے وہ افواجِ پاکستان ہو، آئی ایس آئی ہو یا ملٹری انٹیلی جنس یہ کس مصلحت کا شکار ہیں، تمام صورتحال انتہائی واضح اور ثبوت کے ساتھ ہے۔ متحدہ کا گرفتار دہشت گرد ماسٹر مائنڈ صولت مرزا ان تمام باتوں کا اعتراف کر چکا ہے، اجمل پہاڑی یہ تمام باتیں کر چکا ہے، ولی بابر کے قتل کے بعد بہت سی چیزیں سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے کس طرح جال پھیلا کر ہر چیز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے، ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے ونگز بنائے ہوئے ہیں، کوئی اہل تشیع کو کنٹرول کرتا ہے، کوئی اہل سنت کو کنٹرول کرتا ہے، کوئی سپاہ صحابہ کو کنٹرول کرتا ہے، کوئی لشکر جھنگوی کو کنٹرول کرتا ہے کوئی ونگ لیاری کے بلوچوں کو کنٹرول کرتا ہے کوئی کچھیوں کو۔ متحدہ کے سینکڑوں دہشت گردوں کی جے آئی ٹی رپورٹس چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ایم کیو ایم کا ملک دشمن تنظیم ہے اور غیر ملکی ایماء پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ لیکن اس تمام صورتحال کو کون سامنے لا کر کارروائی کرے گا، ہمارے ریاستی ادارے تو مصلحت کا شکار ہیں، ان کے سامنے گھوم پھر کر ایک لیاری رہ جاتا ہے یا چھوٹے موٹے کچھ گروہ۔ تمام تر برائیوں کی اصل جڑ ایم کیو یم پر یہ ہاتھ نہیں ڈالتے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے مختصراً کیا کہنا چاہیں گے؟
حبیب جان:
برطانیہ نے قتل کے محرکات اور مقاصد سب تلاش کر لئے ہیں اسی سبب اور منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے ایم کیو ایم انتہائی بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے لیکن پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پاکستانی حکومت اور مقتدر ادارے اس حوالے سے بھی مصلحت کا شکار ہیں، پچھلے سات آٹھ مہنیوں سے برطانیہ مسلسل پاکستانی حکومت سے کہہ رہا ہے کہ عمران فاروق کے دو قاتل جو کسی طرح قتل کرنے کے بعد پاکستان پہنچ چکے تھے وہ پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں، انہیں برطانیہ کے حوالے کیا جائے تاکہ اس کیس کو انجام تک پہنچایا جا سکے۔ قاتل حکومت پاکستان کے پاس ہیں، لہٰذا ملکی سلامتی اور بقاء کی خاطر حکومت کو اپنی ذمہ داری بغیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے ادا کرنی چاہئیے، میں آپ کے ادارے کے توسط سے بھی یہی حکومت سے یہ کہنا چاہوں گا کہ قاتلوں جلد از جلد برطانیہ کے حوالے کیا جائے تاکہ کراچی و ملک دشمنوں کے چہرے عوام اور دنیا کے سامنے آشکار ہو سکے کہ کون ناصرف کراچی اور پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی دہشت گردی کے ذریعے اپنے مخالفین کے قتل میں ملوث ہے، آج بھی کراچی کی عوام کے کانوں میں یہ دہشت گردانہ نعرہ گونج رہا ہے کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔ بہر آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ برطانوی حکومت اور اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اپنا کام کر لیا ہے مگر پاکستانی حکومت مصلحت پسندی کا شکار ہو کر ایمانداری سے اپنی ذمہ داری انجام نہیں دے رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 383030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش