0
Sunday 15 Jan 2012 14:23

بلوچستان کے بارے میں چند بنیادی حقائق

بلوچستان کے بارے میں چند بنیادی حقائق
اسلام ٹائمز۔ ہمارے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ انگریزوں کے قبضے سے پہلے بلوچستان ریاست قلات کے نام سے ایک آزاد اور خودمختار ملک تھا، جسکی سرحدیں ایک دور میں ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلی ہوئی تھیں اور موجودہ ایران اور افغانستان میں شامل کئی اہم علاقے بھی اس کا حصہ تھے، یہ ریاست کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہی نہ برصغیر کی آزادی کے وقت اسے پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کا حصہ بننا تھا، مگر قائداعظم کے ایماء اور بعض دوسرے عوامل کی بنا پر اسے مکمل داخلی خودمختاری کی شرط پر پاکستان سے الحاق کرنا پڑا۔ موجودہ بلوچستان ریاست قلات کے بلوچ علاقوں کے علاوہ افغانستان سے انگریزوں کے چھینے ہوئے پشتون علاقوں پر مشتمل ہے، جنہیں برٹش بلوچستان کا غیر منطقی نام دیا گیا تھا، مغربی پاکستان کا ون یونٹ ٹوٹنے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اسے باقاعدہ صوبے کا درجہ دیا گیا۔ اسکی پہلی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے بھاری اکثریت حاصل کر لی، سردار عطاء اللہ مینگل صوبے کے وزیراعلٰی اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بنے، مگر ان کی حکومت کو چلنے نہ دیا گیا اور اسے برطرف کر کے مرکز کی مرضی کی حکومت قائم کر لی گئی۔
 
پشتون تو پیچ و تاب کھا کر خاموش ہو گئے، مگر بلوچ علاقوں میں احتجاج اور بدامنی کی لہر دوڑ گئی اسے کچلنے کے لئے صوبے میں سب سے بڑا فوجی آپریشن کیا گیا، اس سے انتہا پسندی میں اور اضافہ ہوا اور قوم پرستی کی تحریک مزید مضبوط ہوئی، قوم پرست ایک بار پھر انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے، اس بار سردار اختر مینگل وزیراعلٰی بنے، مگر ان کا انجام بھی اپنے والد کی طرح برطرفی کی صورت میں سامنے آیا۔ وفاق کی دراصل ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان میں صرف اسکی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگوں کو اقتدار دیا جائے، جو اس کے اشاروں پر چلتے رہیں۔ بلوچ بنیادی طور پر تقریباً سارے کے سارے قوم پرست ہیں اور وفاق سے ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ انہیں قائداعظم اور خان قلات کے درمیان ہونے والے معاہدے اور قرارداد پاکستان کے مطابق اپنے صوبے پر کسی قدغن کے بغیر حکمرانی کا حق اور اپنے بیش بہا قدرتی وسائل پر اختیار دیا جائے۔ تاکہ وہ غربت اور پسماندگی سے نجات حاصل کر سکیں، مگر اسلام آباد کی تقریباً ہر حکومت نے ان کی اس خواہش کو بغاوت اور سرکشی پر محمول کیا اور ان کے خلاف فوج اور دوسرے مسلح اداروں کو استعمال کیا۔
 
بلوچ علاقوں میں مزاحمت کاری کی موجودہ تحریک اسی ناروا عمل کا شدید ردعمل ہے اور مطالبہ صوبائی خودمختاری اور شہری حقوق سے بڑھ کر مکمل آزادی تک جا پہنچا ہے۔ مزاحمت کاروں نے ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اپنی کارروائیوں کا آغاز بلوچستان میں آباد پنجابیوں اور دوسرے آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ سے کیا اور اب ان بلوچوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں، ساتھ ہی سکیورٹی فورسز کے ٹھکانوں اور قافلوں پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں مزاحمتی گروپوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو اغواء کر کے تشدد کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ویران مقامات پر پھینکنے کا عمل جاری ہے۔ بلوچ اس کی ذمہ داری سرکاری ایجنسیوں پر ڈال رہے ہیں، جبکہ حکومت اسکی تردید کر رہی ہے، اس قتل و غارت کا ملکی عدالتوں کے علاوہ بین الاقوامی اداروں نے بھی نوٹس لیا ہے، مگر حکومت اسے روکنے میں ناکام رہی ہے۔
 
حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے نام سے عوام کا احساس محرومی دور کرنے اور اقتصادی تعمیر و ترقی کے ایک پروگرام کا اعلان کیا تھا، ایک تو یہ پروگرام معروف بلوچ قیادت سے مشورے کے بغیر جاری کیا گیا، دوسرے اسکے کسی بھی نکتے پر ابھی تک موثر عملدرآمد نہیں ہوا، مزاحمت کاروں یا ”ناراض بھائیوں“ اور بلوچ سیاسی قائدین کو مذاکرات کی پیشکشیں بھی کی جا رہی ہیں، جو میڈیا تک محدود ہیں، کسی سے عملی رابطہ نہیں کیا گیا، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور اعلان کیا کہ ان کی پارٹی بلوچستان کے مسئلہ پر جلد اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرے گی، جس میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
 
ملک کا جو بھی بڑا لیڈر کوئٹہ جاتا ہے وہ بلوچستان کی صورتحال پر ضرور تشویش میں مبتلا ہوتا ہے اور اصلاح احوال کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کا اعلان کرتا ہے، مگر وہاں سے واپس آ کر سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن میاں صاحب سے ایسی توقع نہیں، تاہم وہ اپنے ارادے میں کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں سیاسی کشیدگی اور اداروں میں محاذ آرائی کا ماحول یقیناً ان کے آڑے آئے گا، لیکن ملک کو کسی اور صدمے سے بچانے اور قوم کے وسیع تر مفاد کے لئے انہیں اس سمت میں ضرور قدم اٹھانا چاہئے اور دوسری پارٹیوں خصوصاً حکمران اتحاد کو ان سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے، تاکہ بلوچ و پشتون قیادت کے مشوروں سے بلوچستان کے بحران کا تسلی بخش حل نکالا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 130459
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش