0
Wednesday 4 Mar 2009 14:55

عالمی فلسطین کانفرنس سے رہبر انقلاب اسلامی ایران کا تاریخی خطاب

عالمی فلسطین کانفرنس سے رہبر  انقلاب اسلامی ایران کا تاریخی خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ تمام معزز مہمانوں، علماء، مفکرین، سیاسی شخصیات اور مجاہدین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ فلسطین کی حمایت اور دفاع کے حوالے سے تشکیل پانے والی چوتھی کانفرنس میں شرکت کیلئے اسلامی جمہوریہ ایران تشریف لائے ہیں۔
چودہ سو ستائیس ہجری قمری {۲۰۰۶} میں پندرہ سے سترہ ربیع الاول تک تہران میں منعقدہ کانفرنس اور موجودہ اجلاس کے درمیانی عرصے میں کئ اہم اور فیصلہ کن واقعات رونما ہو چکے ہیں جنہوں نے مسئلہ فلسطین کے مستقبل اور اسلامی دنیا کے اس اہم ترین مسئلے کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ چودہ سو ستائیس ہجری {۲۰۰۶} میں، لبنان کی تینتیس روزہ جنگ کے دوران، اسرائیل کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے مقابلے میں حیرتناک سیاسی اور فوجی شکست اور غزہ میں فلسطینی عوام اور قانونی حکومت کے خلاف بائیس روزہ مجرمانہ لشکر کشی میں صیہونی حکومت کی شرمناک ناکامی، ان اہم واقعات میں سے ہیں۔
صیہونی حکومت جو کئی عشروں تک اپنی فوج، ہتھیار اور امریکہ کی سیاسی و فوجی حمایت کی بنیاد پر خود کو ایک نا قابل تسخیر ہوّا ظاہر کرتی آئی تھی، اب تک اسلامی مزاحمتی تحریک کے جانبازوں سے، جو اسلحے اور فوجی ساز و سامان سے زیادہ اللہ تعالی اور عوام پر بھروسہ کرنا پسند کرتے ہیں، دو بار شکست کھا چکی ہے۔ اور جنگي تیاریوں، فوجی مشقوں، لمبی چوڑی انٹیلیجنس ایجنسیوں، امریکہ اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بے دریغ حمایت و پشتپناہی، اسی طرح عالم اسلام کے کچھ منافقوں کی سازباز کے باوجود اسلامی بیداری کے مقابلے میں اس کی بے بسی، تیزرفتار سرنگونی اور شکست و ریخت ظاہر ہو گئی ہے۔
دوسری جانب غزہ کے تاریخی المناک واقعے میں صیہونی مجرموں کے ذریعے انجام دئے گئے جرائم، بے گناہ عوام کا وسیع پیمانے پر قتل عام، گھروں کی مسماری، شیرخوار بچوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا، مساجد اور اسکولوں پر جارحیت، فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ غیر روایتی اسلحے کا استعمال، تقریبا دو سال تک غذائی اشیاء، دواؤں، ایندھن اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزوں کی غزہ میں سپلائی سے ممانعت اور ایسے ہی دیگر بے شمار جرائم سے ثابت ہو گیا ہے کہ فلسطین کے ابتدائی المناک حوادث کے بعد ابھی تک اس خودساختہ صیہونی حکومت کے عہدہ داروں کی وحشیانہ اور مجرمانہ سرشت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہی سیاست، وہی درندگی اور بے رحمی والی روش جو دیر یاسین، صبرا اور شتیلا کے المیوں کا باعث بنی، ابھی بھی وقت کے ان طاغوتوں کے تاریک دل و دماغ پر حکمفرما ہے۔ بلکہ ٹکنالوجی کی ترقی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے بعد انکے جرائم کا دائرہ بہت زیادہ وسیع اور بھیانک ہو گیا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ وہ افراد جنہوں نے صیہونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کے ساتھ، "حقیقت پسندی" سے کام لینے کا بہانہ بناتے ہوئے، اس غاصب قوت سے ساز باز کا ارادہ کر لیا ہے، یا وہ افراد جو صیہونی سیاستدانوں کی دوسری اور تیسری نسل کو پہلی نسل کے جرائم سے مبرا سمجھ کر ان کے پڑوس میں پر امن باہمی بقا کے خواب دیکھ رہے ہیں، اپنی غلط فہمی سے واقف ہو چکے ہوں گے۔
اولاً، امت مسلمہ میں بیداری کی موج اور اسلامی مزاحمت کے پودے کا تناور درخت میں تبدیل ہو جانے نے اسرائیل کا جھوٹا دبدبہ ہوا کر دیا ہے اور اس کی بے بسی اور ناتوانی کو ظاہر کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ صیہونی حکام میں ابتدائی عشروں میں پائی جانے والی جارحیت پسندی اور بے شرمی سے جرائم کے ارتکاب کی خصلت بلا شک آج بھی نمایاں ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے، یا انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بس میں ہے، تو وہ کسی بھی مجرمانہ عمل کے ارتکاب سے باز نہیں آتے۔
فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو تقریباً ساٹھ سال کا عرصہ ہونے والا ہے۔ اس مدت میں غاصب قوتوں نے، دولت، ٹکنالوجی اور اسلحے سے لیکر تمام سیاسی و سفارتی حربوں اور وسیع نیوز چینلز تک، مادی طاقت کے تمام وسائل کو استعمال کیا ہے، لیکن ان وسیع اور حیرت انگیز شیطانی کوششوں کے باوجود، غاصب قوتیں اور ان کے حامی، صیہونی حکومت کو منوانے میں نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گيا ہے۔
فلسطین پر غاصبانہ قبضے کا بہانہ قرار پانے والے "ہولوکاسٹ" کے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ اور تحقیق کی بابت مغربی اور صیہونی ذرائع ابلاغ اور صیہونزم کی حامی حکومتوں کی برہمی اور عدم تحمل، اس کے ابہام اور تزلزل کی ایک علامت ہے۔
اس وقت عالمی رائے عامہ کے حوالے سے صیہونی حکومت کی پوزیشن اپنی تمام تر سیاہ تاریخ میں سب سے زیادہ بری صورت اختیار کر چکی ہے اور اب خود اس کی پیدائش اور تشکیل زیادہ سنجیدگی سے مورد سوال قرار پا رہی ہے۔ مشرقی ایشیا سے لاطینی امریکہ تک صیہونی حکومت کے خلاف ہونے والے بے مثال عوامی مظاہرے، اسی طرح دنیا کے ایک سو بیس ممالک منجملہ یورپ اور خود برطانیہ، جو اس "شجرہ خبیثہ" کے معرض وجود میں آنے کا سبب ہے، میں مظاہروں کا سلسلہ اور لبنان سے تینتیس روزہ جنگ کے دوران اسلامی مزاحمتی تحریک کے حق میں ہمدردی اور حمایت کا اظہار بتاتا ہے کہ صیہونزم کے خلاف عالمی سطح پر ایسی مزاحمت شروع ہو گئی ہے جو پچھلے ساٹھ برسوں میں کبھی بھی اتنی سنجیدہ، وسیع اور عمیق نہیں تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لبنان و فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریکیں دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
یہ امت مسلمہ کے دشمنوں کے لئے بھی ایک سبق ہے جو طاقت کے استعمال اور دھونس کی پالیسی کے ذریعے ایک خودساختہ قوم اور حکومت بنانے کے خواہاں تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے نا قابل تردید حقیقت بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے عالم اسلام کے ساتھ کئے جانے والے اس ظلم کو معمول کی بات قرار دینا چاہا۔ اسی طرح یہ امت مسلمہ، بالخصوص غیور نوجوانوں اور بیدار اذہان، کیلئے بھی (ایک سبق ہے) کہ وہ یاد رکھیں کہ چھنے ہوئے حق کو واپس لینے کیلئے کی جانے والی جد و جہد کبھی بھی رائگاں نہیں جاتی اور اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے ۔
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ. الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ.
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ،
اللہ تعالی نے فرمایا: وَ لَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ،
خدا وند عالم کا ارشاد ہے: وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ،
اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقامٍ۔
اس سے زیادہ واضح اور صریح وعدہ کیا ہو سکتا ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِی لا يُشْرِكُونَ بِی شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ.
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں متعلقہ افراد کو ایک بڑی غلط فہمی یہ ہو گئی ہے کہ اسرائیل نام کا ایک ملک ساٹھ سالہ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کر لینا چاہئے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ لوگ آنکھوں کے سامنے موجود دیگر حقائق سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ بالکان، قفقاز اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک نے اسی سال تک اپنے تشخص سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد کیا اپنی حقیقی شناخت دوبارہ حاصل نہیں کر لی؟ تو پھر فلسطین جو عالم اسلام کا پارہ تن ہے، اپنا اسلامی اور عربی تشخص دوبارہ کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟ اور فلسطینی نوجوان جو سب سے زیادہ ذہین اور مضبوط عرب نوجوان ہیں اس ظالمانہ حقیقت پر غلبہ کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟ ایک اور بڑا مغالطہ یہ کہنا ہے کہ ملت فلسطین کے لئے واحد راہ نجات مذاکرات ہیں! مذاکرات کس کے ساتھ؟ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئی اصولی بات نہ سمجھنے والی غاصب، منحرف اور جبر پسند صیہونی حکومت کے ساتھ؟۔
جن لوگوں نے خود کو اس بچگانہ خیال اور فریب سے مطمئن کیا، انہیں کیا ملا؟ صیہونیوں سے خود مختار انتظامیہ کی شکل میں انہیں جوکچھ ملا اس کی ذلت آمیز اور توہین آمیز اصلیت سے قطع نظر ہو کر بھی دیکھا جائے تو اول یہ کہ اس کیلئے تقریبا پوری فلسطینی سرزمین پر غاصب اسرائیلی حکومت کی مالکیت کے اعتراف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ دوسرا یہ کہ اس آدھی ادھوری اور غیر حقیقی حکومت کو بھی مختلف مواقع پر الگ الگ بہانوں سے کچلا جاتا رہا۔ رام اللہ میں یاسر عرفات کو انتظامیہ کی عمارت میں محصور رکھنا اور ان کی طرح طرح سے توہین و تذلیل کوئی ایسا معمولی واقعہ نہیں جسے فراموش کیا جا سکے۔ تیسرا یہ کہ مرحوم عرفات کا زمانہ ہو یا ان کے بعد کا دور، خود مختار انتظامیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ (صیہونیوں نے) اپنے پولیس اسٹیشن کے عہدہ داروں جیسا برتاؤ کیا جن کا فریضہ فلسطینی مجاہدین کا تعاقب، انکی گرفتاری، جاسوسی اور ان کا محاصرہ کرنا ہے۔ اسی طرح فلسطینی گروہوں کے درمیان دشمنی کا بیج بو دیا اور انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ چوتھا یہ کہ {فلسطینی مسلمانوں کو} جو چھوٹی موٹی کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ مجاہدوں کے جہاد اور شسکت ناپذیر غیور عورتوں اور مردوں کی استقامت کی برکت سے ملیں۔ اگر انتفاضے شروع نہ ہوئے ہوتے تو فلسطین کے روایتی سربراہوں کی پے در پے پسپائی کے باوجود صیہونی انہیں اتنا بھی نہ دیتے۔
امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کیا معنی رکھتے ہیں کہ جنہوں نے اس سرطان کو وجود بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے عظیم گناہ کا ارتکاب کیا ہے؟ جو ثالثی سے پہلے خود فریق ہیں؟ امریکی حکومت نے کبھی بھی صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت، حتی غزہ جیسے حالیہ سانحہ اور اس کے آشکار جرائم کے باوجود، بند نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ نئے امریکی صدر بھی، جو بش انتظامیہ کی پالیسیوں میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، اسرائیلی سلامتی کے بے قید و شرط عہد کا دم بھرتے ہیں۔ یہ یعنی ریاستی دہشت گردی کا دفاع، ظلم و زیادتی کا دفاع، بائيس دنوں کے دوران سینکڑوں فلسطینی عورتوں، مردوں اور بچوں کے قتل عام کا دفاع، یہ وہی بش کے دور کی کجروی ہے، اس سے کم نہیں۔ اقوام متحدہ سے وابستہ اداروں سے مذاکرات بھی ایک اور بے نتیجہ روش ہے۔
فلسطین کی مانند شائد ہی کوئی اور ایسا مسئلہ ہو جو اقوام متحدہ کیلئے پول کھول دینے اور بدنامی سے دوچار کر دینے والا امتحان ثابت ہوا ہو۔ "سلامتی کونسل" نے گستاخ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو فورا تسلیم کر لیا اور اس تاریخی ظلم کے رونما ہونے اور جاری رہنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد کئی عشروں کے دوران اس (صیہونی) حکومت کے گوناگون جنگی جرائم، دیگر مجرمانہ اقدامات، نسل کشی کی کاروائیوں اور گھروں کو مسمار کرنے پر رضامندانہ سکوت اختیار کیا۔ یہاں تک کہ جب جنرل اسمبلی نے صیہونزم کو نسل پرست قرار دے دیا تو اس کی تائید کرنا تو درکنار عملی طور پر اس (فیصلے) سے ایک سو اسی درجے کا فاصلہ اختیار کر لیا۔ دنیا کے تسلط پسند ممالک جو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت رکھتے ہیں اس عالمی ادارے کو وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل نہ صرف یہ کہ دنیا میں قیام امن کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرتی بلکہ جب بھی انسانی حقوق، جمہوریت اور اس جیسی دیگر باتیں ان (ممالک) کے تسلط و غلبے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں یہ کونسل ان کا ساتھ دیتی ہے اور ان کے غیر قانونی کاموں پر دروغ اور فریب کا لبادہ ڈال دیتی ہے۔
اقوام متحدہ، یا تسلط پسند طاقتوں اور بالخصوص صیہونی حکومت کی چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعے فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ نجات کا واحد راستہ استقامت و پائيداری ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہے جو جہادی تحریک کی میراث ہے۔
اس استقامت و پائيدری کے ستون، ایک طرف فلسطین کے اندر اور باہر مجاہد فلسطینی تنظیمیں اور فلسطین کے مومن و مجاہد عوام ہیں تو دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم قومیں اور حکومتیں بالخصوص علماء ، دانشوران، سیاسی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد ہیں۔
اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنی جگہ پر قائم رہیں تو بلا شبہ وہ بیدار ضمیر، اذہان اور افکار، جو استکباری اور صیہونستی میڈیا سامراج کے مسحورکن پروپیگنڈوں سے محفوظ ہیں، دنیا کے ہر گوشے سے صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے آگے آئيں گے اور استکباری نظام کو ان کے افکار و نظریات، جذبات و احساسات اور عمل و اقدامات کے ایک طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس حقیقت کا ایک نمونہ غزہ کی حالیہ عظیم الشان استقامت و پائيداری کے ایام میں ہم سب نے دیکھا۔ ذرائع ابلاغ کے کیمروں کے سامنے ایک عالمی امداد رساں ادارے کے مغربی سربراہ کا گریہ، انسان دوستانہ امداد کی تنظیموں کے کارکنوں کے ہمدردی بھرے بیانات، یورپی دار الحکومتوں اور امریکی شہروں میں عوام کے عظیم پر محبت مظاہرے، لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں کے سربراہوں کے جرات مندانہ اقدامات۔
یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ غیر مسلم دنیا پر بھی ابھی فساد اور شر والی طاقتوں، جنہیں قرآن میں شیطان کہا گيا ہے، کا مکمل غلبہ نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ اب بھی حقیقت کی جلوہ نمائی کیلئے مواقع موجود ہیں۔ جی ہاں، فلسطین کے عوام اور مجاہدین کا صبر و تحمل اور استقامت و پائیداری اور تمام اسلامی ممالک کی ان کے ساتھ یکجہتی، امداد اور حمایت، فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو توڑ دے گا۔
امت اسلامی کی عظیم توانائیاں سب سے زیادہ اہم اور فوری مسئلے فلسطین سمیت عالم اسلام کی تمام مشکلات کو حل کر سکتی ہیں۔
میرا خطاب پوری دنیا کے مسلمان بھائيوں اور بہنوں، اسی طرح ہر ملک و ملت کے بیدار ضمیر افراد سے ہے۔ آپ ہمت سے کام لیجئے اور صیہونی مجرموں کے تحفظ کے طلسم کو توڑ دیجئے۔ غزہ کے المئے کے ذمہ دار صیہونی حکومت کے سول اور فوجی عہدہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھینچ لائیے اور انہیں اس کیفر کردار تک پہنچائیے جو عدل و عقل کا تقاضا ہے۔ یہ پہلا قدم ہے جو اٹھایا جانا چاہئے۔ صیہونی حکومت کے سول اور فوجی حکام پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ اگر مجرم کو سزا مل جائے تو جرم کا جنون رکھنے والوں کیلئے حالات ناسازگار ہو جائيں گے۔ بڑے جرائم کے ذمہ داروں کو آزاد چھوڑ دینا مزید جرائم کی ترغیب او حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اگر امت مسلمہ نے تینتیس روزہ لبنانی جنگ اور ان دہشت ناک واقعات کے بعد اس کے ذمہ دار صیہونیوں کی سزا کا پوری سنجیدگی سے مطالبہ کیا ہوتا، اگر افغانستان میں بارات کو خاک و خوں میں غلطاں کئے جانے، عراق میں بلیک واٹر کے جرائم کے (افشاء) ہونے اور ابو غریب نیز دیگر مقامات پر امریکی فوجیوں کے بدنامی کے بعد حق کا مطالبہ کیا ہوتا تو آج ہم غزہ میں کربلا کا منظر نہ دیکھتے۔ ہم مسلم حکومتوں اور قوموں نے ان واقعات کے سلسلے میں اپنے فریضے پر جو عقل و انصاف کا تقاضا تھا، عمل نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی بعض حکومتیں اور سیاسی شخصیات اخلاقی اصولوں اور انسانی ضمیر کے فیصلے کی بات کرتی ہیں۔ (لیکن) غزہ میں بائیس دنوں کے دوران ساڑھے تیرہ سو سے زائد افراد کا قتل عام اور تقریبا ساڑھے پانچ ہزار بے بس عوام اور بچوں کا زخمی ہو جانا، ان کیلئے کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے۔ قاتلوں اور مجرموں کو سزا دینا تو در کنار انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ ان کیلئے سفاک (صیہونی) حکومت کی سلامتی گویا کوئی بہت ہی قیمتی چیز ہے جس کا ہر حالت میں دفاع ضروری ہے۔ جبکہ مظلوم، خواہ وہ حکومت ہو جو عوامی انتخابات کے ذریعے بر سر اقتدار آئی ہے، خواہ وہ عوام ہوں جنہوں نے اسے منتخب کیا ہے، کو مورد الزام اور ملامت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ اس سیاست کی عدالت کا فیصلہ ہے جسے اخلاقیات اور ضمیر و جذبات سے کوئی نسبت نہیں ہے اور جو ان باتوں کی ہمراہی ہرگز نہیں کر سکتی۔ یہ حکومتیں جب رائے عامہ میں اپنے لئے شدید نفرت کا مشاہدہ کرتی ہیں تو اس کی نمایاں وجہ اور سبب پر نظر ڈالنے کے بجائے پھر سیاست بازی کی کوشش کرتی ہیں اور یہ معیوب سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔
تمام عالم اسلام میں آباد میرے بھائيو اور بہنو! آپ ماضی سے سبق حاصل کیجئے۔ اسلامی بیداری کی برکت سے اس وقت ہماری قوم عظیم قوت کی مالک بن چکی ہے۔ مسلم ممالک کے بے شمار مسائل کا حل اس حیرت انگیز مجموعے کے اتحاد اور بلند ہمتی پر مبنی ہے، جبکہ مسئلہ فلسطین اسلامی دنیا کا سب سے ہنگامی مسئلہ ہے۔
کبھی کبھار یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ فلسطین تو ایک عرب مسئلہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ اگر مراد یہ ہے کہ عربوں میں زیادہ قرابت داری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ زیادہ خدمت اور جدوجہد پر مائل ہیں تو یہ ایک پسندیدہ چیز ہے اور ہم اس کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہ فلسطینی عوام کی "اے مسلمانوں" کی فریاد پر کوئی توجہ نہ دیں اور غزہ کے المئے جیسے معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور دوسروں پر جو اپنی ضمیر کی آواز سن کر مضطرب ہیں، غرائیں کہ آپ غزہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کوئی مسلمان، غیور اور باضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرےگا اور اس کے کہنے والے کو سرزنش اور مذمت سے معاف نہیں رکھے گا۔ یہ تو وہی "اخزم" والی بات ہو گئی جو اپنے باپ کی پٹائی کرتا تھا اور اگر کوئی مداخلت کرتا تو اسے پھاڑ کھانے کو دوڑتا، اس کے بعد اس کا بیٹا اپنے دادا کو لاتوں اور مکوں سے مارتا تھا ۔ یہیں سے عربی زبان میں ایک مثل رائج ہو گئی۔
انَّ بَنيَّ رمّلونی بالدّم شِنشِنةٌ اَعرِفُها من اَخزَم
فلسطینی عوام کی ہر حوالے سے مدد و مکمل حمایت تمام مسلمانوں کے لئے واجب کفائی ہے۔
جو حکومتیں اسلامی جمہوریہ ایران اور بعض دیگر مسلمان ممالک پر فلسطین کی مدد کی وجہ سے اعتراض کرتی ہیں، وہ خود بڑھ کر امداد و حمایت کی ذمہ داری سنبھال لیں تاکہ دوسروں سے یہ اسلامی فریضہ ساقط ہو جائے۔ اور اگر ان میں اس کام کی ہمت، توانائی اور جرئت نہیں ہے تو بہتر ہوگا کہ دوسروں میں کیڑے نکالنے اور انکے کاموں میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے انکے ذمہ دارانہ اور جراتمندانہ اقدامات کی قدر و قیمت کو سمجھیں۔
حاضرین محترم، آپ لوگ، جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت فرمائی ہے، مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں صاحب نظر ہیں۔ آج ہمارا فریضہ ماضی کے ناکام نظریات اور باتوں کو دہرانا نہیں بلکہ ایسا حل پیش کرنا ہے جو فلسطین کو صیہونی حکومت کے ظلم و ستم سے نجات دلا سکے۔
ہماری تجویز جمہوریت کے تقاضوں پر پوری اترتی ہے اور عالمی رائے عامہ کا بھی مشترکہ مطمح نظر ہو سکتی ہے۔ وہ تجویز یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے تمام افراد بشمول مسلمان، عیسائی اور یہودی، ایک ریفرنڈم میں شریک ہوکر اپنے (مطلوبہ) نظام کی نوعیت طے کریں۔ اس ریفرنڈم میں وہ فلسطینی بھی شریک ہوں جنہوں نے سالہای سال جلا وطنی کی مشقتیں برداشت کی ہیں۔
مغربی دنیا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس راہ حل کو قبول نہ کرنا، جمہوریت کا پاس اور لحاظ نہ رکھنے کی علامت ہے۔ جس کا وہ ہر لمحہ دم بھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ان کی قلعی کھول دینے کے لئے ان کا امتحان ثابت ہوگا۔ اس سے پہلے بھی ان کا امتحان فلسطین میں ہوا۔ جب انہوں نے "غرب اردن" اور "غزہ" کے علاقے میں انجام پانے والے انتخابات کے نتایج کو، جو حماس کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں نکلے، قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جو لوگ جمہوریت کو صرف اس صورت میں مانتے ہیں جب اس کے نتائج ان کے حسب منشاء ہوں، تو وہ در حقیقت جنگ پسند اور مہم جو ہیں۔ اب اگر وہ امن و آشتی کی بات کرتے ہیں تو یہ ایک فریب اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اس وقت غزہ کی تعمیر نو کا مسئلہ فلسطین کے ہنگامی ترین مسائل میں ہے۔ حماس کی حکومت، جو واضح اکثریت سے اقتدار میں آئی ہے اورصیہونی حکومت کو شکست سے دوچار کر دینے والی واحد حکومت ہے جس کی استقامت کی داستان فلسطین کی گزشتہ سو سال کی تاریخ کا سب سے سنہری باب ہے، اسے تعمیر نو سے متعلق تمام سرگرمیوں اور اقدامات کا محور ہونا چاہئے۔
مناسب ہوگا کہ مصری بھائی امداد کے لئے راستوں کو کھول دیں اور مسلم ممالک اور قوموں کو اس اہم ترین عمل میں اپنا فریضہ پورا کرنے دیں۔ آخر میں بائیس روزہ جنگ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اپنے خون سے فلسطین کے (علاقے) غزہ کو اسلام اور عرب دنیا کے وقار میں تبدیل کر دیا۔ میں ان کے لئے رحمت و بخشش کی دعا کرتا ہوں۔ اور فلسطین، لبنان، عراق اور افغانستان کے شہیدوں، تمام شہدائے اسلام اور عظیم الشان امام (خمینی رہ) کی روح مطہر پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔ خداوند عالم کے حضور اسلام اور مسلمین کی عزت و وقار، مسلم اقوام کی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ قربت اور عالم اسلام کی روز افزوں بیداری کی دعا کرتا ہوں۔ والسلام عليكم و رحمة‌الله و بركاته




خبر کا کوڈ : 1317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش