0
Tuesday 24 Apr 2012 15:20

توہین عدالت کیس، وزیراعظم پھر طلب، فیصلہ جمعرات 26 اپریل کو سنایا جائیگا

توہین عدالت کیس، وزیراعظم پھر طلب، فیصلہ جمعرات 26 اپریل کو سنایا جائیگا
اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر استغاثہ کی حیثیت سے دلائل دے رہے ہیں۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ عرفان قادر نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی غلط قانون کے تحت ہو رہی ہے۔ بنچ وزیراعظم کا معاملہ 16 رکنی بنچ کو بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں توہین عدالت کا کوئی قانون نہیں اور چیف جسٹس سے بدسلوکی کیس میں سزا پانے والے پولیس افسران کی سزائیں بھی اس لیے معطل ہوئیں کہ کوئی قانون ہی نہیں ہے اور ان کی انٹرا کورٹ اپیل اب بھی زیر سماعت ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں اور آئین میں تضاد ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ عدالت سیاسی مقدمات کی سماعت سے گریز کرے اور میرٹ پر فیصلہ کیا جائے کہ پہلے کس کیس کو سننا ہے۔ این آر او مقدمہ دنیا کا عجیب مقدمہ ہے۔ 300 صفحات پر مشتمل فیصلے کے صرف ایک پیرے پر زور دے رہی ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف جارج شیٹ بے بنیاد ہے۔ وزیراعظم کے خلاف ثبوتوں‌ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے۔ اس لیے وزیراعظم کو اس کیس سے بری کر دیا جائے۔ انہوں ‌نے کہا کہ این آر او فیصلے پر عملدر آمد کے لیے وزیراعظم کو براہ راست حکم نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم کو آئین کے تحت عدالتوں‌ میں‌ نہیں‌ بلایا جا سکتا، انہیں‌ استثنیٰ حاصل ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ جمعرات تک محفوظ کرتے ہوئے وزیراعظم کو بھی طلب کر لیا ہے۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق سپريم کورٹ نے وزيراعظم يوسف رضا گيلاني کيخلاف توہين عدالت کيس کي سماعت مکمل کر کے فيصلہ جمعرات 26 اپريل تک کيلئے محفوظ کر ليا ہے اور فيصلے کے موقع پر وزيراعظم کو بھي طلب کر ليا ہے۔ مقدمہ کے استغاثہ اٹارني جنرل نے کہا ہے کہ وزيراعظم کيخلاف کوئي ثبوت موجود ہے نا ہي خط لکھنے سے بند سوئس کيسز کھل سکتے ہيں جبکہ جسٹس آصف کھوسہ دے ريمارکس ديئے کہ ملک قيوم کا خط ہي سوئز مقدمات کے خاتمے کا سبب بنا۔ آج جسٹس ناصر الملک کي سربراہي ميں 7رکني بينچ نے کيس کي سماعت کي۔ دوران سماعت اٹارني جنرل عرفان قادر نے کہا کہ نيب کے تمام معاملات عدالت نے اپنے ہاتھ ميں لے لئے ہيں، عدالت يہ بھي خيال رکھے کہ اين آر او کيس ميں نيب کو اپيل کرنے کا اختيار ہے، جب ملک قيوم نے خط لکھا تو اس وقت اين آر او نافذ تھا، موجودہ مقدمہ کي بنياد، ملک قيوم کي فراہم کردہ ہيں، سيکريٹري قانون کي اجازت کے بغير چيئرمين نيب کے خط کا قانون جواز نہيں بنتا۔
 
توہين عدالت ارتکاب پر وزيراعظم کيخلاف کوئي ثبوت نہيں ہے، ان کے خلاف چارج شيٹ بے بنياد ہے، عدالت نے سوئس حکام کو خط کا براہ راست حکم نہيں ديا تھا۔ انہوں نے مزيد کہا کہ سيف الرحمن نے سياسي بنياد پر قابل شرم عمل کيا، حسن وسيم افضل کو بطور اٹارني جنرل کوئي قانوني اختيار نہيں تھا، وزيراعظم کو بھي آئين کے آرٹيکل 248 کے تحت عدالتوں ميں آنے سے استثني ہے، اٹارني جنرل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سوئس عدالتوں ميں ايک بار ختم مقدمات، خط لکھنے سے نہيں کھليں گے، عدالت کو درست قانوني معاونت نہيں مل سکي، وزيراعظم کيخلاف ايسا کچھ موجود نہيں کہ توہين عدالت کارروائي ہوسکے۔ اس پر جسٹس ناصرالملک نے ريمارکس ديئے کہ اين آر او پر حتمي فيصلہ آچکا ہے، نظرثاني نہيں ہو سکتي۔
 
اس کے بعد وزيراعظم کے وکيل اعتزاز احسن نے جوابي دلائل شروع کئے اور کہا کہ فوجداري اور عملدرآمد کيس، ايک ہي بنچ ميں چلنے سے کنفيوژن آئي، عدالتي فيصلے پر عمل ہونا چاہيے، ليکن في الحال عدالت سوئس حکام کو خط لکھنے پر اصرار نہ کرے، کيونکہ خط لکھنے سے وفاق کے تصور کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے اپنے جوابي دلائل ميں مزيد کہا کہ صدر وفاق کا حصہ ہے، وہ مسلح افواج کے سپريم کمانڈر ہيں، جب تک آصف زرداري صدر ہيں، خط لکھنے کا اصرار نہ کيا جائے اور وزيراعظم کو توہين عدالت کيس سے بري کر ديا جائے۔ اس کے بعد عدالت نے کيس کا فيصلہ محفوظ کر ليا، جو جمعرات 26اپريل کو سنايا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 156181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش