0
Friday 22 Jun 2012 00:05

بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات شروع کئے جائیں، سیاسی رہنمائوں کا مطالبہ

بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات شروع کئے جائیں، سیاسی رہنمائوں کا مطالبہ
اسلام ٹائمز۔ ادارہ استحکام شراکتی ترقی کے زیر اہتمام کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں سیمینار بعنوان ''وسائل کی فراہمی سے مسئلہ بلوچستان کا حل ممکن ہے'' سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبد المالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اورنگزیب کاسی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ، پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیار توال، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء جمال شاہ کاکڑ، مسلم لیگ ق کی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی، سینیٹر میر حاصل بزنجو، جماعت اسلامی کے قیوم کاکڑ، ڈاکٹر شمع اسحاق، امان اللہ شادیرزئی اور ادارہ استحکام شراکتی ترقی کے چیئرمین ڈاکٹر طفیل، عابد رضوی اور مختار چھلگری نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 64 سالوں سے استحصالی پالیسیاں رواں رکھی گئی ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً جمہوریت کا گلا گھونٹ کراقتدار پر قابض ہونیوالی آمرانہ حکومتوں نے بھی بلوچستان میں موجود تباہی اور حالات کی خرابی میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ 

انہوں نے کہا کہ پانچ مرتبہ بلوچستان میں آپریشن کیا گیا۔ یہاں کے وسائل کو ملک کی ترقی میں تو استعمال کیا گیا۔ مگر ان وسائل سے کھبی بھی بلوچستان کے عوام نے استفادہ نہیں کیا۔ جب تک ملک کی مقتدر قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ کے طرز فکر میں تبدیلی نہیں آتی بلوچستان کامسٔلہ حل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد پیکجز اور غیر ضروری اعلانات سے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش اب دم توڑ چکی ہے۔ بلوچستان کے مسٔلے پر ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ آج بھی بلوچستان کے مسٔلے کے حل کے لیے وہی پرانی روش اختیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے آغاز حقوق بلوچستان کا اعلان کیا گیا مگر یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ 63 سالوں کے بعد آج بلوچستان کو حقوق دینے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے کا بھی آغاز کردیا گیا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے طول عرض میں پھینکی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو ماورائے آئین و قانون لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے۔ لیکن لاپتہ افراد گھر تو نہ پہنچے تاہم ان کی لاشیں ان کے لواحقین کو تسلسل کے ساتھ ملتی رہیں۔ در حقیقت آغاز حقوق بلوچستان بھی یہاں کے محکوم عوام کے ساتھ ایک گھناونا مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقتدر قوتوں اور پالیسی سازوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ بلوچستان میں جتنے گھرانے ہیں پنجاب میں اتنے کارخانے ہیں۔ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ مسخ شدہ لاشوں، فرقہ وارنہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے صوبے میں انار کی کی صورتحال پیدا کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلٰی برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ بلوچستان میں جمہوریت، قانون اور انصاف کا فقدان ہے۔ آج بھی بلوچ علاقوں میں ایف سی کے قوانین نافذ العمل ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں انجام دینے والوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ چار سو سے زائد لاشیں پھینکی گئی ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد طلباء اور سیاسی کارکنوں کی ہیں۔ ایسے حالات میں پیکجز اور اعلانات کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بلوچستان میں قیام امن کی خواہاں ہے تو سب سے پہلے ملک کے اداروں کے کام کی حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ کیونکہ اداروں کی بلاجواز مداخلت کے باعث آج بلوچستان کے حالات اس نہج تک پہنچتے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیکجز اور اعلانات سیاسی رشوت ہیں۔ جو بلوچستان کے وسائل کو فروخت کرکے یہاں کے عوام کو دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ، پشتون عوام میں دراڑیں پیدا کی جارہی ہیں۔ بلوچ عوام پر امن اور پارلیمنٹ پر یقین رکھنے والے ہیں، مگر غیر سنجیدہ رویوں اور ناقص طرز حکومت نے آج لوگوں کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بے اختیار ہیں۔ درپردہ قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہے۔ بلوچستان میں حالات کی بہتری قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہاں لاپتہ افراد کا مسٔلہ حل کیا جائے، مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئیے۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کا عمل سنجیدگی سے شروع کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 173173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش