0
Friday 30 Nov 2012 14:51

حلقہ بندیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس متعصبانہ ہیں، الطاف حسین

حلقہ بندیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس متعصبانہ ہیں، الطاف حسین
اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ کراچی بدامنی عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کے ریمارکس جو کہ اخبارات اور میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں کہ ’’ کراچی کی حلقہ بندیاں اس طرح کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو ‘‘، سراسر غیرآئینی، غیر جمہوری، متعصبانہ ہیں اور یہ کھلی کراچی دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس میں فل بیچ نے یہ بات کہی تھی کہ حلقہ بندیاں قانون کے مطابق ہونی چاہئیں مگر سپریم کورٹ کی بینچ ایک جج صاحب کی جانب سے دیا جانے والا ریمارکس Delimitation of Constituencies، ایکٹ 1974ء کی سیکشن 9 کی صریحاً نفی ہے کیونکہ اس ایکٹ میں لفظ ’’ اجارہ داری ‘‘ کا استعمال سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔ مزید براں بغیر نئی مردم شماری کے نئی حلقہ بندیاں کرنا آئین اور قانون کی روح کے خلاف ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صدر آصف زرداری، وفاق پاکستان، حکومت، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کے دیگر غیر جانبدار و غیرمتعصب ججز بھی اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور سپریم کورٹ کے جن ججوں نے ایسے متعصبانہ ریمارکس جاری کیے ہیں ان کے خلاف آئین کے تحت کارروائی کی جائے۔ الطاف حسین نے ان خیالات کا اظہار ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو عزیز آباد پر رابطہ کمیٹی، ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، وکلاء، آئینی و قانونی ماہرین اور مختلف شعبہ جات کے ارکان کے ایک اجلاس سے فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

الطاف حسین نے کہا کہ پوری دنیا کے جمہوری ممالک کی عدالتی تاریخ میں آج تک ایسے نرالے، انوکھے اور متعصبانہ ریمارکس نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری اور وثوق سے یہ کہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی بینچ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے کہ ایسی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو۔ یہ کسی عدالت کا نہیں بلکہ عوام کا جمہوری حق ہے کہ وہ کسی بھی حلقہ میں کس جماعت کو اپنا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کے اس حق کو چھینے۔ ایسے عدالتی ریمارکس کے ذریعے عوام سے ان کا جمہوری حق چھیننے کا عمل آمرانہ ہے۔ جمہوری نظام میں ہر شہری کو بالغ رائے دہی کے تحت یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور سوچ سمجھ کے مطابق جس جماعت کو پسند کرے اسے ووٹ دے اور وہ جماعت اگر اکثریت حاصل کرے تو جمہوری اصولوں اور آئین کا تقاضہ یہ ہے کہ عوامی اکثریت کے اس فیصلے کو بخوشی اور باالرضا تسلیم کیا جائے جبکہ اکثریت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا عمل نہ صرف غیر جمہوری بلکہ آمرانہ ہوگا۔ لہٰذا کراچی میں حلقہ بندیوں سے متعلق سپریم کورٹ کی اس مخصوص بینچ کے یہ ریمارکس سراسر غیر جمہوری، غیر آئینی ہی نہیں بلکہ امتیازی اور متعصبانہ بھی ہیں۔

الطاف حسین نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے Observations کا جواز بدامنی ہے تو کراچی سے زیادہ صورتحال تو بلوچستان کی خراب ہے کہ جہاں آدھے سے زیادہ حصہ میں پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا وہاں کے بارے میں تو سپریم کورٹ نے ایسا حکم جاری نہیں کیا جبکہ کراچی میں تو ایسی کوئی صورتحال نہیں کہ یہاں پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا ہو۔ اسی طرح پورا خیبر پختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، وہاں آئے دن خودکش حملے اور دھماکے ہورہے ہیں، وہاں لڑکے لڑکیوں کے سینکڑوں اسکول، مزارات، مساجد، امام بارگاہیں، دیگر عبادت گاہیں، پولیس چوکیاں اور سرکاری عمارتیں بموں سے اڑائی جاچکی ہیں مگر وہاں کے بارے میں تو ایسے ریمارکس جاری نہیں کیا گیا۔ پھر صرف کراچی کے بارے میں ہی ایسے ریمارکس کیوں دیئے گئے؟ الطاف حسین نے کہا کہ گزشتہ 25 برسوں سے کراچی کے عوام کی اکثریت ایم کیو ایم کو اپنا مینڈیٹ دیتی چلی آرہی ہے اور اب سپریم کورٹ کی ایک بینچ کا یہ Observation دینا کہ ایسی حلقہ بندیاں کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو، دراصل ایم کیو ایم کے اکثریتی مینڈیٹ کو توڑنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔
خبر کا کوڈ : 216509
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش