2
0
Saturday 16 Nov 2013 10:37
سانحہ راولپنڈی کے اصل حقائق

مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار کی چھت پر مامور پولیس اہلکار کی زبانی

مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار کی چھت پر مامور پولیس اہلکار کی زبانی
رپورٹ: این ایچ نقوی

شام کے وقت جب میں گھر پہنچا تو امی جان اور ابو جی کو بہت پریشان پایا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبر نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ خبر یہ تھی کہ راجہ بازار میں ہنگامہ، پتھراؤ، فائرنگ اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ مدینہ مارکیٹ کی خبر نے تو جیسے سب کو ہی بہت پریشان کر دیا۔ پریشانی کی اہم وجہ ہمارا چھوٹا بھائی ثاقب تھا۔ جو پولیس میں ہے اور اس کی ڈیوٹی مدینہ مارکیٹ کی چھت پر لگی ہوئی تھی۔ وہاں دیوبندی مسجد بھی تھی اور اسی مسجد میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔

فیصلہ کیا گیا کہ میں خود جا کر وہاں کا جائزہ لوں اور ثاقب کو کسی طرح گھر لے کر آؤں۔ جب میں گھر سے نکلا تو میرے بعد میرا چھوٹا بھائی عمر بھی چلا گیا۔ میں نے جب وہاں جا کر دیکھا تو سپاہ صحابہ کے دیوبندیوں کا ایک ہجوم تھا، یہ سب لوگ اہل تشیع کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ گنج منڈی والے پل سے آگے کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب کو تلاش کرنا تھا، اس لیے میں نے دوسرے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ باقی تمام اطراف کوئی ہنگامہ نہیں تھا، بس مدینہ مارکیٹ کی طرف جانے والے راستے پر ہی ہنگامہ تھا، باقی تمام اطراف میں اہل تشع ماتم کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو سکیورٹی فراہم کر رکھی تھی، لیکن راجہ بازار اور مدینہ مارکیٹ کی طرف بہت ہنگامہ تھا، وہاں لوگ دکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور پتھراو کر رہے تھے، اس طرف سے لوگوں کو پولیس اور آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ میں نے ہر طرف سے کوشش کی، لیکن میرا رابطہ کسی بھی طرح ثاقب سے نہ ہوسکا اور میں افسردہ خالی ہاتھ گھر کی طرف لوٹ آیا۔

گھر آکر میں والد صاحب کو تسلی دیتا رہا کہ وہاں کوئی ہنگامہ نہیں ہے، حالات ٹھیک ہیں، بس کچھ لوگ ہی پتھراو کر رہے ہیں، لیکن میں خود حالات دیکھ کر آیا تھا، جو کہ بہت خراب تھے۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب کا گھر کے نمبر پر فون آگیا کہ وہ خیریت سے ہے اور آفس پہنچ گیا ہے اور عمر بھی اس کے آفس میں ہے۔ سب کو تسلی ہوئی اور 9 بجے ثاقب گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلی خبر تو اس نے یہ سنائی کہ اس کا موٹر سائکل جلا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے اس سے تفصیل پوچھی کہ وہاں ہوا کیا تھا، یہ سارا مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تو اس نے کچھ یوں تفصیل سنائی۔

"مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، اس مسجد کے مولوی صاحب دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، مولوی صاحب اہل تشیع کے خلاف بہت نفرت انگیز تقریر کر رہے تھے، مسجد میں سپاہ صحابہ کے لوگ اسلحہ سمیت موجود تھے اور لاؤڈ اسپیکر پر کافر کافر شیعہ کافر، یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگوا رہے تھے، کچھ ہی دیر میں وہاں اہل تشیع کا جلوس آنا تھا اور مولوی صاحب انتہائی جوش سے شیعوں کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ جب جلوس وہاں پہنچا تو نفرت انگیز نعرے سن کر شیعوں نے پتھراو شروع کر دیا، لیکن مولوی صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ تقریر میں انہوں نے میلاد اور عاشورہ کے جلوسوں میں شرکت کرنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دے دیا، جس کی وجہ سے جلوس میں شامل سنی اور اہل تشیع کو بھی غصہ آگیا اور انہوں نے شدید احتجاج کیا، اس پر دیوبندی مسجد سے پتھراو شروع ہوگیا اور سپاہ صحابہ کے راجہ بازار کے صدر اور اس کے رشتہ داروں نے جلوس پر فائرنگ شروع کر دی اور انہوں نے پتھراو اور فائرنگ کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کھڑے موٹر سائکلز کو آگ لگانا شروع کر دی، جب آگ مارکیٹ میں لگنا شروع ہوئی تو سپاہ صحابہ کے مولوی حضرات نے پولیس سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی۔ اسی دوران باہر موجود شیعوں اور بریلویوں نے بھی پولیس سے اسلحہ چھین لیا اور اپنے دفاع میں فائرنگ شروع کر دی۔ ادھر ہم صرف دو پولیس والے تھے، اس لیے پھر ہم بڑی مشکل سے چھتوں سے چھلانگیں لگا کر وہاں سے نکلے اور آفس پہنچے۔” اس کے بعد کا جو ہنگامہ ہے وہ سب آپ کو سچی اور حھوٹی خبروں کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو مل گیا ہے۔

میرے خیال میں ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا ہے۔ اگر آج کے خطبہ میں دیوبندی مولوی صاحب اہل تشیع اور سنی بریلویوں کے خلاف تقریر نہ کرتے، جبکہ وہ جانتے تھے کہ آج ان کا جلوس بھی یہاں ہی آنا ہے اور یہاں آکر جلوس نے ختم ہونا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقریر کی اور خالص شیعوں کے خلاف تقریر کی تو پھر ایسا مسئلہ تو ہونا ہی تھا۔ پھر اس کے بعد سپاہ صحابہ کے مسلح لوگوں نے جلوس پر پتھراو اور فائرنگ شروع کر دی اور سنی بریلوی اور شیعہ کو اغوا کرکے دوبندی مسجد میں لے آئے، کچھ بے گناہ شیعہ اور سنی زندہ جلا دیئے گئے اور سپاہ صحابہ والے دیوبندی بھاگ گئے، ایک مسجد شہید ہوگئی۔ سو سے زیادہ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کتنے ہی انسانوں کی جان چلی گئی اور کتنے ہی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں اور اس پر یہ جھوٹی خبروں نے اور نقصان پہنچایا ہے۔

اس واقعے کی کوریج پر مامور اسلام آباد میں ایک ٹی وی کے رپورٹر نے بی بی سی کے نامہ نگار محمود جان بابر کو بتایا کہ وہ فوارہ چوک میں ڈیوٹی پر موجود ہیں اور ابھی کچھ دیر پہلے علاقے کے دیوبندی لوگوں نے ان کی گاڑیوں اور کیمروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں زبردستی یہ کہتے ہوئے رہائشی علاقے کے اندر لے گئے کہ لاشیں اندر پڑی ہیں، تباہی اندر ہوئی ہے اور میڈیا باہر سے کس چیز کی کوریج کر رہا ہے۔
یااللہ پاکستان کی خیر فرما، آمین
خبر کا کوڈ : 321397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

jo log zameen mein fasad karty hain woh insaniat k dushman hain zalimon per khuda ki laanat
Pakistan
salam
boht ajib bat hay dil my wehsaht pyda ho rhi hay Allah na kry Behrain jasi sorat e hal pakistan my bn rhi hya
ہماری پیشکش