0
Saturday 2 Apr 2011 17:51

پاکستان کی اہم شخصیات پر قاتلانہ حملے کب اور کہاں ہوئے۔؟؟

پاکستان کی اہم شخصیات پر قاتلانہ حملے کب اور کہاں ہوئے۔؟؟
لاہور:اسلام ٹائمز۔ پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دہشت گردی کا یہ ”جن “ اس دن پیدا ہو گیا تھا جب سابق صدر ضیاءالحق نے پاکستان اور اس کے عوام کو امریکی مفادات کے لئے افغانستان میں روس کے خلاف قربان کرنے کے لئے گروی رکھ دیا تھا۔ دہشت گردی میں بہت سے بےگناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دہشت گردی نے پاکستان کے قیمتی ترین ڈاکٹرز، بیوروکریٹس، دانشور، علماء، ذاکرین، سیاسی اور سماجی رہنما نگل لئے۔ مساجد اور امام بارگاہیں تک اس کے دائرہ اثر سے نہ بچ سکیں اور خون کی ہولیاں مقدس مقامات بھی بھی کھیلی جانے لگیں۔ ابتدائی ایام میں ان کا نشانہ اہل تشیع اور ان کے مقدس مقامات بنتے رہے، مگر پرویز مشرف کے دور میں جب ان جماعتوں پر پابندی لگائی گئی تو ان کا نشانہ اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہلسنت بھی بننے لگ گئے اور عید میلادالنبی ص کے جلوسوں، درباروں اورخانقاہوں پر بھی حملے ہونے لگے۔ اس وقت بھی امریکہ کے ان گماشتوں کا نشانہ اہلسنت ہی ہیں۔ عام شیعہ اور سنی کے ساتھ ساتھ اہم سیاسی اور حکومتی شخصیات پر بھی حملے ہوئے، جن کے بارے میں مبصرین کی آراء مختلف ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حملے ان شخصیات نے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے خود اپنے اوپر کروائے ہیں۔ 
حال ہی میں مولانا فضل الرحمان پر دو حملے ہو چکے ہیں جن کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ان کی اپنی ہی ”فلم“ ہے۔ کیوں کہ طالبان کے بہت قریبی دوستوں اور سرپرستوں میں مولانا کا شمار ہوتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان ان پر ہی حملہ کر کے اپنا نان نفقہ بند کر لیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جن اہم شخصیات کو حملوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں سرفہرست سابق صدر پرویز مشرف ہیں۔ چونکہ اہم شخصیات پر حملوں کا سلسلہ انہی کے دور حکومت میں شروع ہوا اور سب سے پہلے دہشت گردوں کا نشانہ بھی وہی بنے۔ چودہ دسمبر کو سابق صدر پرویز مشرف کے قافلے پر راولپنڈی میں بم حملہ کیا گیا۔ جس میں آٹھ افراد جاں بحق ہوئے، تاہم پرویز مشرف محفوظ رہے۔ گیارہ روز بعد پچیس دسمبر دو ہزار تین کو سابق صدر پرویز مشرف کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا۔ سابق صدر کے قافلے پر راولپنڈی میں دو خودکش حملے کیے گئے۔ حملے میں پرویز مشرف معمولی زخمی ہوئے، تاہم گیارہ افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اکتیس جولائی دو ہزار چار کے روز سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر اٹک میں جلسے کے دوران خودکش حملہ کیا گیا۔ جس میں شوکت عزیر محفوظ رہے لیکن چھ افراد ہلاک ہوئے۔ اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو پر کراچی میں خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں محترمہ محفوظ رہیں لیکن ایک سو چالیس افراد جاں بحق ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس پہنچیں تھیں۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ راولپنڈی میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں وہ شہید ہو گئیں۔ اس واقع میں تیس سے زائد افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ اسی روز الیکشن مہم کے دوران اسلام آباد میں میاں نواز شریف کی ریلی پر فائرنگ کی گئی جس میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
دو اکتوبر دو ہزار آٹھ کو اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کے گھر پر خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں اسفند یار ولی محفوظ رہے تاہم چار افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آٹھ اکتوبر دو ہزار آٹھ کو پنجاب کے ضلع بکھر میں رکن پنجاب اسمبلی رشید اکبر نوانی پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں وہ زخمی ہوئے۔ حملے میں اٹھارہ افراد جاں بحق ہوئے۔
چودہ جولائی دو ہزار دس کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما حبیب جالب پر کوئٹہ میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ فائرنگ کے اس واقع میں حبیب جالب جانبر نہ ہو سکے۔ چوبیس جولائی دو ہزار دس کو خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار احمد کے بیٹے پر نوشہرہ میں فائرنگ کی گئی جس میں وہ جاں بحق ہو گئے۔
دو اگست دو ہزار دس کو متحدہ قومی موومنٹ کے رکن سندھ اسمبلی رضا حیدر پر مسجد میں اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ وضو کر رہے تھے۔ نشانہ وار قتل کی اس واردات میں رضا حیدر جانبر نہ ہو سکے۔ تیئس اگست دو ہزار دس کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کی مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں سابق رکن قومی اسمبلی مولانا نور محمد سمیت بائیس افراد جاں بحق ہوئے۔ چار جنوری دو ہزار گیارہ کے روز پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان ہی کے محافظ نے گولیاں مار کر قتل کیا۔ دو مارچ دو ہزار گیارہ کو وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
تیس مارچ کو صوابی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل رحمن کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں مولانا فضل الرحمن تو محفوظ رہے البتہ نو افراد ہلاک اور اٹھائیس زخمی ہو گئے۔ جے یو آئی کے کارکن موٹروے انٹرچینج پر استقبال کے لئے جمع تھے کہ اکرم درانی کی کار کے پیچھے آنے والے موٹر سائیکل سوار کو رضاکاروں نے روکنے کی کوشش کی، تو اس نے خود کو اڑا لیا۔ اگلے روز ہی یعنی اکتیس مارچ کو چارسدہ میں پھر مولانا فضل الرحمان کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، جس میں مولانا فضل رحمن حسب روایت محفوظ رہے اور 12 افراد ہلاک ہو گئے ،ان میں چار پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بم دھماکے کے بعد ان کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے اور یہ امریکہ کی کارستانی ہے۔
خبر کا کوڈ : 62706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش