0
Saturday 2 Apr 2011 08:24

دیوبندی بمقابلہ تکفیری ( 1)

دیوبندی بمقابلہ تکفیری ( 1)
تحریر:سید علی شیرازی
مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے حالیہ خودکش حملے اور اس سے بھی پہلے مولانا حسن جان کی شہادت، رائج دیوبندی علماء اور تکفیری جہادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی چپقلش کا شاخسانہ ہے، بلکہ اگر اس کو ایک بڑے اُفق کی چھوٹی سی تصویر کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ تکفیری عناصر کون ہیں، دیوبندی علماء کلامی حوالے سے کس مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آپسی اختلاف کیا ہیں، یہ تمام ابحاث کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
اگر پاکستان میں موجودہ "جہادی مرکب" کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس وقت یہ "جہادی مرکب" دو اہم عناصر پر مشتمل ہے۔ پہلا عنصر "القاعدہ اور عرب مجاہدین" ہیں، جو جہاد کے لیے ایک وسیع میدان کی تلاش میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئے۔ جبکہ دوسرا عنصر "پاکستان کی جہادی تنظیمیں اور جوان" ہیں۔ اول الذکر تکفیری، جبکہ آخر الذکر دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
افغانستان پر روس کے حملے کے بعد ان دونوں عناصر کے درمیان تعلقات بڑھے، القاعدہ اور عرب مجاہدین پاکستانی دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جہادی تنظیموں کو نہ صرف مالی امداد فراہم کرتے بلکہ ٹریننگ کیمپس بھی یہی لوگ چلاتے، انہی ٹریننگ کیمپس میں جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ فکری تربیت کا بھی انتظام ہوتا۔ دیوبندی جہادی آرگنائزیشنز جیسے جہاد اسلامی، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد وغیرہ پورے پاکستان سے نوجوانوں کو ڈھونڈ کر ان معسکروں میں پہنچاتیں۔ جہاں پر پورا تربیتی پروگرام انہی تکفیری تفکر کے حامل عرب مجاہدین کے پاس ہوتا۔ تکفیری عناصر کے زیر اہتمام چلنے والے ٹریننگ کیمپس میں ان نوجوانوں کو دارالکفر اور دارالسلام کے تکفیری تفکر کے مطابق معنی بتائے جاتے۔ "تترس" جیسی جہادی فقہی اصطلاحات کے ذریعے، خودکش حملوں میں بے گناہ جانی و مالی نقصان کی توجیہہ کی جاتی، جب ایک نوجوان ان ٹریننگ کیمپس اور معسکروں میں آتا تو دیوبندی ہوتا لیکن جب وہ تین ماہ یا سال کی تربیت مکمل کر کے واپس پلٹتا تو فکری لحاظ سے تکفیری بن چکا ہوتا، اگرچہ فقہی حوالے سے وہ حنفی ہی رہتا۔
 پاکستان میں موجودہ تکفیری گروپس، عرب مجاہدین کی سرپرستی میں ایسے ہی افراد پر مشتمل ہیں، جو انہی دیوبند جہادی تحریکوں کی ریکروٹنگ کا نتیجہ ہیں۔ نائن الیون کے بعد اس متشدد مزاج تکفیری فکر نے پاکستان میں اپنا رنگ دیکھانا شروع کیا۔ علماء دیوبند کو یہ پوری گیم سمجھنے کے لیے ایک لمبا عرصہ لگا۔ لیکن جب یہ بات سمجھ میں آئی تو پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا کیونکہ یہ تکفیری گروپس اپنے جہادی نظریے میں علماء دیوبند سے شدید مخالفت رکھتے تھے۔
دیوبندی علماء نے پہلے مرحلے میں ان تکفیری جہادی گروپ سے الگ ہونا شروع کیا۔ ایک بڑی تعداد میں ایسے علماء کے نام لیے جا سکتے ہیں  جو انتہائی روشن جہادی بیک گراونڈ رکھتے تھے لیکن اب ان جہادی تکفیری گروپس سے الگ ہو چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان کی حمایت سے ہاتھ اُٹھا لیا، وفاق المدارس العربیہ سے لیکر سابقہ جہادی بیک گروانڈ رکھنے والا الرشید ٹرسٹ تک، جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر سے لیکر حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمن خلیل تک، علماء میں مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی سے لیکر مفتی نعیم تک سبھی خاموش ہیں یا اپنے کردار سے ایسی تکفیری جہادی تحریکوں کی نفی کر رہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ نے ہمیشہ ایسی تکفیری طالبانی تحریکوں کی نفی کی ہے۔ لال مسجد کے واقعہ میں وفاق المدارس العربیہ کا کردار انتہائی روشن رہا، اسی وجہ سے تکفیری عناصر وفاق المدارس العربیہ سے اپنے وفاق کو الگ کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ الرشید ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا اخبار "روزنامہ اسلام" پاک فوج کے مقابلے میں مرنے والے "تحریک طالبان" کے تکفیری افراد کو ہمیشہ "ہلاک شدگان" ہی لکھتا ہے۔ یہ صرف خبر نہیں، بلکہ اخبار کی جانب سے موقف کا اظہار بھی ہے۔
ابھی تیسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے یا شروع ہونے کو ہے جس میں ان تکفیری عناصر اور گروپس کے خلاف دیوبند کی خاموشی ٹوٹتی نظر آ رہی ہے کیونکہ خاموشی کا توڑنا خود دیوبندی مسلک کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ دیوبندیت کو تکفیریت کے خلاف اپنی حدبندی کرنی پڑے گی، تاکہ تاریخ طالبان اور تکفیریوں کے سفاک جرائم دیوبندیت کے زمرے میں نہ لکھے۔ اس تلخ حقیقت کا خود دیوبندی علماء کو پہلے سے بیشتر احساس ہے۔ 
تکفیریوں سے اظہار برائت کرتے ہوئے قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاون لاہور کے منتظم اعلی دیو بند عالم دین حافظ محمد زبیر "الشریعہ" میگزین نومبر دسمبر  2008ء کے شمارے میں یوں لکھتے ہیں۔ 
"ہماری رائے کے مطابق یہ تکفیری ٹولہ امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے۔ ٹینشن، فرسٹریشن اور ڈیپریشن میں مبتلا اس قتالی تحریک کو سوئی ہوئی امت کو جگانے کا بس ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ ان سب کو باہمی جنگ و جدال میں جھونک دو۔" تھوڑا سا آگے حافظ محمد زبیر صاحب، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ "آخری زمانے میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو کہ نوجوانوں اور جذباتی قسم کے احمقوں پر مشتمل ہو گی وہ قرآن سے بہت زیادہ استدلال کریں گے اور اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے پس یہ جہاں ملیں تم ان کو قتل کرو کیونکہ جس نے ان کو قتل کیا اس کے لیے قیامت کے دن اجر ہو گا"
                                                       صحیح بخاری، "کتاب فضائل القرآن، باب اثم من رای بقراء القران اوتا کل بہ"

ماہنامہ "الصیانہ" لاہور میں جامعہ الاسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد اپنے کالم "موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج" میں ان تکفیری عناصر کے خلاف خاموشی توڑنے کے متعلق لکھتے ہیں
" دیوبندی حلقے کی قیادت چاہے وہ سیاسی قیادت ہو، مدارس اور وفاق کی قیادت ہو، اساتذہ کرام ہوں، دینی صحافت سے وابستہ حضرات ہوں، اُن پر وقت نے بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے۔ وہ ذمہ داری امریکا، حکومت وقت اور موجودہ نظام کو گالیاں دینے کی نہیں۔ یہ کام کتنا ہی مستحسن سہی، اتنا مشکل نہیں ہے جتنا اپنوں سے اگر غلطیاں ہو رہی ہوں، ان کے بارے میں راہنمائی کرنا، یہ مشکل اور صبر و عزیمت کا متقاضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصلحت پسندی کے خول سے نکل کر یہ کام اب دیوبندی قیادت کو کرنا ہی پڑے گا۔ اب تک بھی بہت تاخیر ہو چکی ہے، مزید تاخیر مزید نقصان کا باعث ہو گی"۔ 

دیوبندیت کی جانب سے اس ٹوٹتی خاموشی نے دیوبندیت کو تکفیریت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف دیوبندی عالم دین مولانا حسن جان نے انتہائی دلیری کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں کے خلاف فتوی دیا، جس کے جواب میں مولانا حسن جان کو تکفیریوں نے شہید کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی تکفیری ازم کے خلاف بولنے  اور تکفیری ایجنڈے پر نہ چلنے کے جرم میں خودکش دھماکوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق لال مسجد کے واقعہ میں منافقانہ کردار کے الزام میں عثمانی برادران رفیع عثمانی و تقی عثمانی، کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر، حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمن خلیل سمیت کئی جہادی کمانڈروں کے خلاف بھی تکفیری عناصر نے موت کے پروانہ جاری کیے ہوئے ہیں۔
نام نہاد تکفیری جہادی گروپس اب شیعہ، بریلوی دشمنی کے بعد اگلے مرحلے دیوبندی دشمنی میں داخل ہو چکے ہیں۔ (جاری ہے) 
                                                                                                
خبر کا کوڈ : 62640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش