0
Wednesday 20 Apr 2011 13:51

ق لیگ شراکت اقتدار پر رضامند،متحدہ کی مشروط آمادگی،جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کو منانے کی حکومتی کوششیں جاری

ق لیگ شراکت اقتدار پر رضامند،متحدہ کی مشروط  آمادگی،جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کو منانے کی حکومتی کوششیں جاری
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ ملک میں قومی مفاہمتی حکومت کے قیام کیلئے کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں، مسلم لیگ ق نے سینئر وزیر سمیت 12 وزارتوں کی پیشکش پر شراکت اقتدار پر رضامندی ظاہرکی ہے، متحدہ قومی موومنٹ نے شمولیت پر مشروط آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کو منانے کی حکومتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایک ذمہ دار حکومتی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ مسلم لیگ ق کو حکومت میں شامل کرنے کیلئے صدر اور وزیر اعظم نے مسلم لیگ ق کی قیادت سے بات چیت مکمل کر لی ہے اور اب حکومت کو ق لیگ کے جواب کا انتظار ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین پارٹی کے دیگر سینئر رہنماﺅں سے مشاورت کے بعد حکومت کو اپنے حتمی جواب سے آگاہ کریں گے اس ضمن میں ق لیگ کا مشاورتی اجلاس 25 اپریل کو طلب کر لیا گیا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ ق لیگ کو وفاق میں سینئر وزیر سمیت 4 وفاقی وزراء اور 8 ورزاء مملکت کے عہدوں کی پیشکش کی گئی ہے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے کی نشست بھی دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ میں شمولیت کے لیے مسلم لیگ ق نے حکومت کو مشاہد حسین سید، ریاض پیرزادہ، شیخ وقاص اکرم، غوث بخش مہر، چوہدری وجاہت حسین اور انجینئر امیر مقام کے نام تجویزکر دیے ہیں۔ 
ادھر نجی ٹی وی آن لائن کے مطابق ایم کیو ایم نے کابینہ میں دوبارہ شمولیت پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے، ایم کیو ایم کے رہنماء حیدر عباس رضوی کے مطابق اگر متحدہ کے مطالبات پر عمل کیا جائے تو کابینہ میں واپسی ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹر بابر غوری اور ڈاکٹر فاروق ستار کابینہ کا دوبارہ حصہ بنیں گے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما مخدوم فیصل صالح حیات کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کافی تعداد میں وزارتو ں کی پیشکش کی گئی ہے لیکن وزارتوں کے حوالے سے فیصلہ پارٹی کے اجلاس میں مشاورت کے ساتھ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ (ق) لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ  طویل المدتّی اتحاد کرنا چاہتی ہے اور پنجاب میں آئندہ انتخابات میں وزیراعلیٰ (ق) لیگ سے ہونا چاہیے جبکہ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں (ق) لیگ کی حمایت کرنا ہو گی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت میں شمولیت کے بارے میں مسلم لیگ ق زبردست اختلافات کا شکار ہو گئی ہے اور پارٹی قیادت کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکی۔ اگلے 48 گھنٹوں میں اس حوالے سے فیصلہ متوقع ہے۔ پارٹی کے متعدد رہنماﺅں نے چودھری برادران پر تنقید کرتے ہوئے کابینہ میں شمولیت کو چودھری مونس الہی کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان ر ہنماﺅں نے پارٹی اجلاس فوری طلب کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی چودھری مونس الہی کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما فیصل صالح حیات نے نے کہا کہ ابھی تک ہماری جماعت نے حکومت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا پہلے حکومت میں شمولیت کی آفر دی جاتی تھی تاہم اس بار اس سے مختلف آفر ہے اور اس بار ایک پیکج سامنے آیا ہے۔ ابھی محض بات چیت چل رہی ہے بعض ہمارے ساتھیوں کے بھی کچھ تحفظات ہیں۔
دوسری طرف خصوصی ذرائع کے مطابق ق لیگ نے وفاقی حکومت میں شامل ہونے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اشتراک عمل کو عصر کے وقت روزہ توڑنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے حکومت سے اتحاد کو مسترد کر دیا ہے، حکومت میں شمولیت کے حوالے سے فیصلہ اگلے 48 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔ لیگی ذرائع نے تصدیق کی کہ پیپلزپارٹی سے متواتر رابطے موجود ہیں، صدر زرداری اور وزیراعظم نے بارہا اتحاد کی خواہش ظاہر کی، مسلم لیگی قیادت اور صدر کے درمیان ہونے والی آخری ملاقات میں بھی ق لیگ کو حکومتی اتحاد میں شمولیت کے بدلے مختلف مراعات کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود موجودہ حالات میں حکومت سے اتحاد کا ابھی کوئی امکان نہیں، ق لیگ کے ترجمان کامل علی آغا نے بتایا کسی پارٹی کے ادھر ادھر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ملکی مسائل کے حل کے لیے ہم نے حکومت کو 4 نکاتی ایجنڈے سے آگاہ کر رکھا ہے، ہمارا یقین ہے جب تک تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر مسائل کے حل کی سنجیدہ کوششیں نہیں کرتیں مسائل میں اضافہ ہی ہو گا۔
پیپلز پارٹی ملکی مسائل کے حل کیلئے قومی مفاہمت پر مبنی نئی حکومت تشکیل دینے کی تیاریاں کر رہی ہے اور اس ضمن میں مسلم لیگ ق، جے یو آئی ف اور متحدہ قومی موومنٹ سے بات چیت جاری ہے جبکہ حکومت میں شمولیت کے حوالے سے ق لیگ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔  تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے حکومت کے اپوزیشن اور سابقہ اتحادیوں سے رابطے درحقیقت بجٹ منظور کرانے کے مشکل مرحلے کو عبور کرنے کیلئے ہے۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) نے بھی حکومت میں شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔ ریڈیو مانیٹرنگ کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کابینہ میں توسیع کے لئے ترجیحات طے کی جا رہی ہیں۔ کابینہ میں شمولیت اور توسیع کے لئے اتحادیوں سے بھی صلاح مشورہ جاری ہے۔ کابینہ کی توسیع انتظامی معاملہ ہے اور بجٹ سے قبل ضروری ہے۔
مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت نے کہا ہے پیپلز پارٹی نے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا ہے قومی معاملات پر مل بیٹھنے میں کوئی برائی نہیں۔ وزارتوں سے متعلق خبریں درست نہیں، حکومت میں شامل ہونا اور تعاون کرنا مختلف بات ہے۔ قومی سطح پر باقی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی مفاہمت ہونی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کی طرف سے ق لیگ کو پچھلے 6 ماہ سے وفاقی حکومت میں شمولیت کیلئے پرکشش پیشکشیں کی جا رہی ہیں جبکہ ق لیگ کو پارٹی میں ہارڈ لائنرز کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ قومی اسمبلی میں ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر فیصل صالح حیات، ق لیگ خیبر پی کے کے صدر امیر مقام، ق لیگ سندھ کے صدر غوث بخش مہر اور مسلم لیگ بلوچستان کے صدر جام یوسف، اویس لغاری، سمیرا ملک، طارق عظیم اور دیگر رہنما پیپلز پارٹی کی حکومت میں شمولیت کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین بھی پیپلز پارٹی سے تعاون کیلئے ہاتھ بڑھانے کے حق میں نہیں۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن جو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے غیر ملکی دورے پر ہیں وہ مسلسل حکومت میں دوبارہ شمولیت سے انکار کر رہے ہیں وہ ایک ماہ تک بیرون ملک قیام کریں گے۔ ذرائع کے مطابق ق لیگ نے شراکت اقتدار کے لئے قومی حکومت کو تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے اس کیلئے اسی صورت میں حکومت میں شامل ہونا ممکن ہوگا جب دیگر جماعتیں بھی حکومت میں شامل ہونے پر رضامند ہوں۔ ے۔ کثیر الجماعتی اتحاد کا حصہ بننے کی صورت میں اتحاد میں شامل جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی جائے گی۔


خبر کا کوڈ : 66631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش