0
Wednesday 1 Jun 2011 08:42

امریکا نے پاکستان کو ایک ماہ میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ٹارگٹ دیدیا، 5 کمانڈروں کی گرفتاری کا بھی کہا گیا ہے

امریکا نے پاکستان کو ایک ماہ میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا ٹارگٹ دیدیا، 5 کمانڈروں کی گرفتاری کا بھی کہا گیا ہے
لاہور:اسلام ٹائمز۔ موجودہ مالی سال کے دوران 113 بلین ڈالر اور اگلے سال 107 بلین ڈالر کے جنگی اخراجات افغانستان کے فوجی انخلا کے امریکی فیصلہ کا اہم ترین سبب ہیں، لیکن پاکستان کو اگلے ایک ماہ کے دوران یعنی صدر بارک اوباما کے اعلان کے مطابق (یکم جولائی 2011ء) فوجی انخلا کے آغاز تک شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا ٹارگٹ دیا گیا ہے اور یکطرفہ یا مشترکہ کاروائی کے ذریعے پانچ اہم القاعدہ و طالبان کمانڈروں ڈاکٹر ایمن الظاہری، ملاعمر، سراج الدین حقانی، الیاس کشمیری اور عصٰیہ عبدالرحمان کی گرفتاری کا بھی کہا گیا ہے جس نے پاکستانی قوم کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ تشویش اور حیرانی کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک پاک فوج کی قیادت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے گریز کی پالیسی پر کاربند تھی کیونکہ حقانی نیٹ ورک ایک طرف تو پاکستان کے قومی مفاد کے لئے خطرہ نہیں، دوسری طرف افغانستان میں نیٹو افواج سے برسرپیکار طالبان کے ساتھ پاکستان رابطے کا اہم ذریعہ ہے اور تیسری طرف شمالی وزیرستان میں موجود ملا نذیر اور حافظ گل بہادر گروپ نے بعض موثر قبائل بالخصوص وزیریوں کو اس جنگ سے دور رکھا ہے، جو بیت اللہ محسود اور اس کے جانشین حکیم اللہ محسود نے لشکر جھنگوی اور دیگر فرقہ وارانہ گروپوں کے علاوہ محسود قبیلے کو ساتھ ملا کر پاکستان کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے فوجی انخلا میں اہم ترین فیکٹر نہ تو برسرپیکار طالبان کی اموات میں اضافہ ہے نہ بہت سے علاقوں کو طالبان سے واگزار کرانے میں کامیابی، بلکہ صرف اور صرف بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات نے صدر اوباما کی سیاسی ٹیم کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور ڈیوڈ پیٹریاس کے علاوہ دیگر فوجی مشیروں کی رائے کو رد کر دیا گیا ہے، 113 بلین ڈالر کی خطیر رقم جنگی اخراجات کے لئے مختص کرنے کے بعد سوشل سیکٹر متاثر ہو رہا ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد انخلا کے فیصلے کو مزید تقویت ملی ہے اور جوبائیڈن جیسے سیاسی رفقاکار نے صدر کو باور کرایا ہے کہ وہ 2009ء میں اعلان کردہ روڈ میپ سے سرمو انحراف نہ کریں، تاکہ امریکی معیشت تباہی سے بچ سکے۔ انخلا سے قبل پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو ایک ”موسٹ وانٹڈ“ افراد کی گرفتاری یا موت سے امریکی قوم اور افغانستان سے نکلنے والے فوجیوں کے حوصلے بلند ہوں اور اسے تھکی ہاری قوم اور فوج کا مجبوری سے کیا گیا فیصلہ قرار نہ دیا جا سکے۔ دوسرے حقانی نیٹ ورک اور امریکیوں کے نقطہ نظر سے پاکستان کی محفوظ پناہ گاہوں، القاعدہ اور طالبان کی رہنمائی کرنے والے یہ لیڈر امریکی فوج کے انخلا کا سہرا اپنے سر نہ باندھ سکیں۔
 امریکیوں کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ انخلا سے افغان طالبان کے حوصلے بلند ہوں گے اور حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے ملحقہ علاقوں میں اپنی کاروائیوں کے ذریعے افغانستان کے امن و امان کو درہم برہم کر دے گا، تاہم پاکستان کا مخمصہ یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن اور لال مسجد میں فوجی کاروائی سے دہشت گردی کا جو جن بوتل سے نکلا تھا اسے سنگین اور شدید فوجی کاروائیوں، امریکی ڈرون حملوں اور پاکستان کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کے باوجود دوبارہ بوتل میں بند نہیں کیا جا سکا، اب اگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کیا تو افغانستان کے طالبان سے جو کمزور یا مضبوط رابطے موجود ہیں وہ ختم ہو جائیں گے اور طاقت کے اس خلا کو بھارت پر کرے گا، جو امریکہ کی سرپرستی میں جلال آباد، کابل، ہرات اور دیگر مقامات پر موجود ہے۔ یہ آپریشن حافظ گل بہادر اور ملا قدیر کے گروپوں کو بھی تحریک طالبان پاکستان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دے سکتا ہے جس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ آٹھ نو سالہ جنگ نے پاکستانی معاشرے، ریاستی اداروں اور دفاع و سلامتی کے نظام کے انجرپنجر ہلا دیئے ہیں، طویل عرصہ تک دہشت گردی کی ان کاروائیوں کا مقابلہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ کئی عالمی کھلاڑی اس جنگ میں پاکستان سے اپنا حساب برابر کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور امریکہ ان کی دامے، درمے، سخنے حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
یہ خدشہ بھی بے جا نہیں کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشت گردی کی ممکنہ لہر سے نمٹنے میں مصروف پاکستان پر امریکہ کی طرف سے لشکر طیبہ کے خلاف کاروائی کے لئے دباؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ امریکہ بار بار لشکر طیبہ کا رشتہ طالبان اور القاعدہ سے جوڑ رہا ہے اور وہ القاعدہ، طالبان، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے درمیان کسی قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔ امریکہ خود تو ملا عمر اور طالبان سے بامقصد اور فیصلہ کن مذاکرات کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کو ان گروپوں کے ساتھ جنگ کا راستہ دکھا رہا ہے، جو تاحال پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے چلے آ رہے ہیں اور کسی نہ کسی مرحلے پر امریکہ، طالبان پاکستان کے مابین مذاکرات میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ یہ گروپ فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں گڑ بڑ کر سکتے ہیں اور ان کا مقابلہ افغانستان کی نیشنل آرمی نہیں کر سکتی، جسے پینٹاگان نے 28 بلین ڈالر کی خطیر رقم سے تشکیل دیا اور عالمی معیار کے مطابق تربیت کے مراحل سے گزارا۔ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوا، دس سالہ جنگ کے دوران پہلی بار امریکی فوجی بھی پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ ہوئے، جس کا مطالبہ ہیلری کلنٹن اور مائیک مولن کر رہے ہیں اور امریکہ کو مطلوب افراد کی تلاش کے لئے جنوبی پنجاب میں سرچ آپریشن کی داغ بیل ڈالی گئی تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ نتائج کیا نکلیں گے، لیکن پاکستان اس وقت ایک طرف شیطان اور دوسری طرف گہرے سمندر کے درمیان کھڑا ہے، کوئی بھی غلط قدم اس کی سلامتی، دفاع اور امن و امان کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 75984
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش