0
Thursday 16 Jan 2020 20:48

آصف غفور کا تین سالہ ہنگامہ خیز دور، یادیں اور واقعات

آصف غفور کا تین سالہ ہنگامہ خیز دور، یادیں اور واقعات
اسلام ٹائمز۔ ساڑھے تین سال کے ہنگامہ خیز دورانیے کے بعد آئی ایس پی آر کی تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت پانے والے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کا بالاآخر تبادلہ ہو گیا۔ وہ اب اوکاڑہ میں ڈویژن کی کمانڈ کرینگے۔ ان کی جگہ اب بابر افتخار پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی سربراہی کرینگے۔ میجر جنرل آصف غفور پاک فوج کے میجر جنرل اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے بیسویں ڈائریکٹر جنرل رہے۔ وہ اِس عہدے پر 15 دسمبر 2016ء سے فائز تھے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کوئٹہ کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے گریجویٹ کیا اور بعد ازاں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج بنڈونگ انڈونیشیا اور اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں۔ میجر جنرل آصف غفور 9 ستمبر 1988ء کو پاک فوج کی شاخ 87 میڈیم رجمنٹ میں بھرتی ہوئے۔ 2008ء میں وہ باجوڑ میں طالبان کے خلاف محاذ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ 15 دسمبر 2016ء کو اُنہیں لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی عہدے پر مدت مکمل ہو جانے پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر مقرر کیا گیا، وہ اس عہدے پر ساڑھے تین سال تک تعینات رہے۔ وہ اس سے پہلے بطور جی او سی سوات کام کر رہے تھے۔

دھیمے مزاج کے حامل اور ہر سخت سوال کا پرسکون جواب دینے والے آصف غفور کا ساڑھے تین سال کا دورانیہ ہنگامہ خیز رہا، ان کے دور میں ہی پاک فوج کی جانب سے ففتھ جنریشن وار فیئر کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔ اسی وار فیئر میں آصف غفور نے کم از کم ہندوستان کو تو چاروں شانے چت کر کے رکھ دیا خصوصاً بھارتی فوج کی نیندیں حرام کر رکھیں۔ جس کا اعتراف بھارت کے ٹاپ جرنیلوں اور سائبر سکیورٹی کے سربراہ نے کھل کر کیا۔ بھارت کے سابق لیفٹیننٹ جنرل عطا حسنین نے 28 مارچ 2019ء کو برطانوی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے خطاب میں اعتراف کیا کہ بھارت کو اطلاعات کے شعبے میں آئی ایس پی آر نے پچھاڑ دیا اور پاکستان اطلاعات کی جنگ پورے طریقے سے جیت چکا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ہمیں سکھایا معلومات کی فراہمی کیا ہوتی ہے۔ بھارتی سابق کور کمانڈر شمالی کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عطا حسنین کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے سکھایا کہ اطلاعات کے ساتھ کیسے کھیلنا ہے تو وہ آئی ایس پی آر ہے، آئی ایس پی آر نے کمال حکمت عملی سے نہ صرف کشمیریوں کو بھارتی فوج سے متنفر کیا بلکہ بھارتی قوم کو بھی بھارتی فوج سے دور کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اٹھتے جنازے، عسکریت پسندی کے عروج کی وجہ ہیں اور آزادی پورے کشمیر میں گونج رہی ہے، طاقت کا استعمال اس کا حل نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عطاء حسنین کا کہنا تھا کہ اگر شام، عراق، افغانستان اور پاکستان میں دھماکے ہو سکتے ہیں تو کشمیر میں پلوامہ واقعہ کا بھی قوی امکان تھا۔ انہوں نے کہا کہ روایتی جنگ کا تصور ختم ہو چکا، یہ ہائبرڈ وار کا دور ہے اور ہائبرڈجنگ میں میڈیا بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ سابق جنرل کے مطابق روایتی جنگ سے فتح نہیں ملتی اور امریکا نے سیکھنے میں 18 سال لگائے، دنیا میں دہشت گردی کی لہر ہے لیکن لوگ ہائبرڈ وار سے واقف نہیں، پاکستان نے معلومات میں انتہائی پیشہ وارانہ مہارت دکھائی اور بھارت کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا۔ دسمبر 2019ء کو بھارتی ادارے نیشنل سائبر کوآرڈینیشن سینٹر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) راجیش پنٹ نے بھارتی فوج کو پاکستان آرمی کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے طرز پر بیانیہ دینے کا مشورہ دیا۔

بھارتی سائبر سیکیورٹی چیف کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج میں الگ الگ پبلسٹی ونگز ہیں جو اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہوتے ہیں لیکن آئی ایس پی آر مؤثر انداز میں بیانیہ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اطلاعات کی جنگ میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی بات کا وزن ہے، وہ خطے کی بات کریں تو دنیا محسوس کرتی ہے اور ان کی کشمیر پر بات کو یورپ توجہ دیتا ہے۔ بھارتی سائبر سیکیورٹی چیف کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی اس سمت میں دیکھنا ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر ہم سے بہت آگے ہیں اور پاک فوج کا ترجمان ہر فورس کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس سے پہلے فروری 2019ء میں بھارتی طیاروں کی بالاکوٹ پر بمباری کی ناکام کوششوں کے بعد اگلے روز پاک فوج کی جانب سے منہ توڑ جوابی کارروائی میں دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا اور پائلٹ ابھی نندن کو بھی پکڑ لیا گیا۔ فضائی تصادم کے بعد سائبر تصادم کا میدان سج گیا، اس میدان میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے احسن طریقے سے نہ صرف پاک فوج کی موثر کارروائی کی تشہیر کی بلکہ بھارتی فوج کی جانب سے ایف سولہ مار گرانے کے جھوٹے دعوے کو بھی بے نقاب کر دیا۔ آصف غفور آئی ایس پی آر کے آفیشل اکائونٹ کے ساتھ اپنے ذاتی اکائونٹ سے بھی ٹویٹ کرتے ہیں۔ ذاتی اکائونٹ سے وہ کئی بار ملکی و غیر ملکی صحافیوں اور شخصیات سے الجھتے بھی رہے۔

یاد رہے کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشن ( آئی ایس پی آر) کا قیام 1949ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ پاک فوج کے کرنل شہباز خان اس ادارے کے پہلے ڈی جی تھے۔ 1966ء تک آئی ایس پی آر کا ڈی جی کرنل رینک کا آفیسر ہوتا تھا۔ 1967ء میں بریگیڈئر رینک کے آفیسر کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ بریگیڈیر اے آر صدیقی اس رینک کے پہلے ڈی جی تعینات ہوئے۔ بدلتے حالات اور صورتحال کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 1988ء میں میجر جنرل رینک کے آفیسر کو ڈی جی کی ذمہ داری دی گئی۔ جس کے تحت میجر جنرل ریاض اللہ اس رینک کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوئے۔ آئی ایس پی آر کی تاریخ میں عاصم سلیم باجوہ پہلے لیفٹیننٹ جنرل تھے جو ڈی جی رہے۔ ان کے بعد پھر سے میجر جنرل رینک آفیسرز کو ذمہ داری دی گئی۔ نوے کی دہائی کے بعد آئی ایس پی آر کے بینر تلے تین دہائیوں سے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور گانوں کے ساتھ ساتھ موبائل گیم بھی بن چکی ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والا مشہور ڈرامہ عہد وفا آئی ایس پی آر کے بینر تلے بنا تھا۔ پاکستان میں اگرچہ نیوی اور ایئر فورس کے اپنے ترجمان بھی موجود ہیں مگر آئی ایس پی آر تینوں افواج کی ترجمانی کے لیے مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 838860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش