0
Thursday 12 Sep 2013 17:51

طالبان سے مذاکرات ۔۔۔۔۔ طالبانی این آر او

طالبان سے مذاکرات ۔۔۔۔۔ طالبانی این آر او
تحریر: ضیاء رضا

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سمجھوتوں مشترکہ مفادات کے تحفظ کے ساتھ ایک دوسرے کو رعایت دینے کے لیے سیاسی معاہدوں کو ہمیشہ پروان چڑھایا گیا ہے اور باہمی سیاسی مفادات کو قومی مفاد کا نام دے کر قوم کو ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا ہے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت ان کے حواری بیوروکریٹس کو این آر او کے نام پر عام معافی دی گئی سیاسی قیادت اور افسر شاہی کے خلاف درج مقدمات اور ملنے والی سزائیں قومی مفاہمتی آرڈرینس کے تحت معاف کردی گئیں اس کے بعد مفاہمت کے نام پر حکومتیں بھی حاصل کی گئیں اور اقتدار کے مزے بھی لوٹے گئے اب کل جماعتی کانفرنس کے غیر واضح اعلامیے کے ذریعے ریاست کے باغیوں، آئین و قانون، جمہوری نظام حکومت نہ ماننے والوں کے ساتھ ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے متنازعہ اتفاق رائے سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں مذاکرات کرنے پر تو اتفاق طے پاگیا ہے حکومتی سطح پر وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس سے قبل اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیے جائیں گے۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، کیا عسکریت پسندوں کے جتنے بھی گروہ ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے جو بھی شدت پسند گروہ ہیں وہ مذاکرات کیلئے آمادہ بھی ہیں کہ نہیں؟ کیا دہشتگردی کے شکار ہونیوالے افراد کے ورثاء کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ اگر مذاکرات کے نتیجے میں معافی دی جاتی ہے تو دہشتگردوں کے خلاف درج مقدمات کو عدالتوں سے کس طرح ختم کیا جائیگا؟ طالبان اور مختلف دہشتگردوں کے حوالے سے میڈیا میں یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ دہشتگردوں کو پاکستان مخالف ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کا مالی و دیگر ہمہ قسمی تعاون حاصل ہے جس میں موساد، را اور سی آئی اے کا ذکر آچکا ہے، کیا مذاکرات کرنیوالے ان تعلقات کو نظر انداز کرینگے؟ کیا طالبان و دوسرے گروہ ان انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ وابستگی ظاہر کرنے پر آمادہ ہونگے؟ کیا طالبان و دیگر شدت پسند گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے ریاستی اداروں کے داخلی استحکام پر سوال تو نہیں اُٹھائے جائیں گے؟ کیا ایسی نوعیت کے مذاکرات سے حکومتی رٹ مضبوط ہوگی؟ قارئین اس ساری بحث سے قطع نظر ہم آپ کو پاکستانی صحافت کے فخر جناب نذیر ناجی صاحب کے ’’ روزنامہ جناح‘‘ کو 3 مارچ 2013ء کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو کے چند اقتباس پیش کررہے ہیں خود ہی فیصلہ کر لیجیے گا۔

اس انٹرویو میں جناب نذیر ناجی صاحب نے پاکستان کے سیاسی مستقبل اور ملک کی مجموعی داخلی و خارجی صورتحال پر گفتگو کی ہے، جناب نذیر ناجی سے سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں مذہبی حلقے مضبوط ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس خطے میں پیدا ہونیوالے نئے رجحانات کے مطابق اسلام کے نام پر روٹی مانگنے والا مولوی اب اسلام کے نام پر بندوق کے ذریعے حکومت مانگ رہا ہے، سوال کیا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تین ضمانت دہندگان کے نام پیش کیے ہیں جن میں میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن شامل ہیں؟ اس کے جواب میں جناب نذیر ناجی صاحب نے کہا کہ طالبان کے ترجمان کی جانب سے جو تین نام سامنے آئے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ تینوں ہستیاں پاکستان میں طالبان کی سیاسی اتحادی ہیں، یعنی میدان جنگ میں سیاست کیلئے لڑے گا طالبان اور سیاسی جنگ لڑینگے یہ تین اتحادی اور چوتھے ہوں گے عمران خان۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان و دیگر شدت پسند گروہ موجودہ حکومت سے مذاکرات کیوں نہیں کر رہے ہیں کیا ان کے پاس پارلیمنٹ کا مینڈیٹ نہیں ہے؟ نئی آنیوالی حکومت سے مذاکرات کیوں ضروری ہیں؟ یہ قابل غور بات ہے۔ میاں نواز شریف کو اقتدار ملے گا؟ کے جواب میں محترم نذیر ناجی صاحب نے فرمایا کہ جب میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد واپس آئے تھے تو چند جید صحافیوں کی موجودگی میں میاں صاحب کو کہا تھا کہ میاں صاحب ابھی انتظار کریں، ابھی آپ کے اقتدار کا وقت شروع نہیں ہوا ہے آپ کے اقتدار کا وقت تب شروع ہوگا جب امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت محسوس ہوگی اور وہ وقت آنیوالا ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں نذیر ناجی نے کہا کہ ہمیشہ مذاکرات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کبھی غیر مشروط نہیں ہونگے، قارئین جناب نذیر ناجی صاحب کا انتخابات سے دو ماہ قبل ’’ جناح ‘‘ کو دیا جانیوالا انٹرویو مذاکرات کے حوالے سے اہم ہے، اب مسلم لیگ نواز کی حکومت طالبان کے ساتھ طاقت کی زبان استعمال کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز سجا کر بیٹھ گئی ہے اور طالبان کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ کا بھی خیر مقدم کیا جاچکا ہے مگر کل جماعتی کانفرنس کے حوالے سے کئی آراء اور فیصلوں کو زیر بحث لایا جارہا ہے مگر اس میں قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ کل جماعتی کانفرنس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو مدعو کیا گیا۔

مگر دہشتگردی سے متاثر ہونیوالے سب سے بڑے فریق کی نمائندہ جماعت مجلس وحدت مسلمین کو کانفرنس کی دعوت نہیں دی گئی، جو دہشتگردی کے واقعات کے نتیجے میں سب سے زیادہ لاشیں اُٹھانے والی مذہبی جماعت ہے جو لاتعداد جنازوں کو شاہراہوں پر رکھ کر غیر معمولی نوعیت کا احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکی ہے، مجلس وحدت مسلمین کو اس عذر کے ساتھ مدعو نہیں کیا گیا کہ اس سے کل جماعتی کانفرنس بین المسالک کشیدگی کا مظہر ثابت ہوگی جبکہ یہ اے پی سی ایک قومی مسئلے کے حل کے لیے بلائی گئی تھی، سابقہ حکومت این آر او کے نتیجے میں ووٹرز کے ذریعے اقتدار تک تو پہنچ گئی، اب حکومت طالبان کے ساتھ ایک طالبانی این آر او کرنے جارہی ہے جو تمام سفاکیوں، قتل و غارت دہشتگردی کو بھول کر مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرچکی ہے، کیا یہ عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا؟ کیا ان مذاکرات سے ملکی استحکام کو تقویت ملے گی یا نہیں، امن و امان قائم ہوگا یا نہیں، ان سوالات کے جوابات آنیوالا وقت دے گا۔
خبر کا کوڈ : 301153
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش