11
0
Monday 18 Nov 2013 00:11
عجیب فوج کے عجیب کمانڈر امام سجاد (ع)

عجیب کمانڈر

عجیب کمانڈر

تحریر: شجاعت علی سروش

ایک دوست کے نام، کریم ابن کریم کی داستان:
زیارت عاشورا پڑھتے ہوئے جب اس جملے پر آیا، السلام علٰی علی ابن الحسین! تو زبان رک گئی اور فرس تخیل نہ جانے کہاں کہاں اور کن کن راستوں سے ہوتا ہوا میدان کربلا پہنچ گیا۔ 
علی ابن الحسین (ع)! 
علی (ع) ایک تو نہیں تھے میدان کربلا میں، خدا جانے زیارت عاشورا میں کونسے علی مراد ہیں لیکن بندہ حقیر پر تقصیر کا ذہن اس علی (ع) کی طرف چلا گیا، عصر عاشور کے بعد جنکے ہاتھوں میں کمان آ گئی، اور کمانڈر بن گئے۔ عجیب و غریب کمانڈر تھے! تیر و شمشیر نہ نیزہ و ڈھال، نہ خود و سپر، تم تو تاریخ کے طالبعلم رہ چکے ہو، کیا تمہاری نظروں سے ایسا کوئی کمانڈر گزرا ہے؟ اور کمانڈر بھی کیسی  فوج کا ۔۔۔۔۔؟ نہایت عجیب و غریب قسم کے لشکر کا، بچوں اور خواتین کے لشکر کا۔ اور پھر وہ بچے اور خواتین کیسی؟ زخموں سے چور چور، لہو و لہان، بےسر و ساماں! تھکاوٹ سے نڈھال اور پریشان حال اور ۔۔۔۔ کمانڈر عجیب تھا تو فوج عجیب و غریب، دنیا میں جتنے کمانڈر گزرے ہیں۔ خواہ اچھے تھے یا برے لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے حکم چلانا، کمانڈر ہوتا ہی تو حکم چلانے کے لئے ہے نا۔ تاریخ چھان ماریں، کوئی کمانڈر ایسا نہیں ملے گا جس کا لب و لہجہ اپنی فوج کیساتھ حاکمانہ نہ ہو، لیکن اس
عجیب کمانڈر کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں انکی تاریخ چھان ماریں، کہیں بھی نظر نہیں آئیگا کہ آپ نے کبھی تحکمانہ لہجہ استعمال کیا ہو، حکم چلایا ہو، یا اپنے سپاہیوں سے حاکمانہ لب و لہجے میں کوئی بات کی ہو، بات کرتے وقت آپ کا لہجہ نہایت ہی عاجزانہ ہوتا، ایک جھلک ملاحظہ کیجئے!
پھوپھی اماں! اگر آپ اجازت دیں تو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
پھوپھی اماں! ذرا ان بچوں کا خیال رکھیں میں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
پھوپھی اماں! ذرا دیکھ لیں وہ فلاں بچی کہاں رہ گئی؟
پھوپھی اماں! ذرا ان بچوں کی گنتی کریں، کوئی بچہ یا بچی ادھر اُدھر رہ تو نہیں گیا؟
گرمی ہے، صحرا ہے درندوں کی بہتات ہے، خیمے بھی جل گئے ہیں۔
میرے بچے! میرے پیارے بچے! آجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس آجا۔


کیا کمانڈر ایسے ہوتے ہیں؟ بلاد اسلامیہ میں اس کا استقبال جس طریقے سے ہوا وہ تم جانتے ہو نا؟ شام میں باب ساعات (گھنٹوں والے دروازے) پر، کہا جاتا ہے کہ آپ (ع) کو سات گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ کیوں؟۔۔۔۔۔ پس پردہ وجوہات کا کھوج لگانا تمہارا کام ہے، میں تاریخ کا طالب علم نہیں، لیکن میرے ذہن میں ایک اور بات آرہی ہے۔۔۔۔ جو تاریخوں میں نہیں، تصورات کے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے، سات گھنٹے انتظار کرانے کے پیچھے کہیں یہ سیاسی فلسفہ کار فرما تو نہیں کہ یزید لعین اور اسکے درباری و حواری اس دوران اپنی گھبراہٹ اور خوف پر قابو پانے، اپنے آپ کو سنبھالنے بلکہ اپنے اوسان کو بحال کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مہلت حاصل کر رہے ہوں۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آنے والے بظاہر شکست خوردہ کمانڈر کی شان و شوکت، رتبہ و عظمت ہماری فہم و ادراک سے بالاتر تو ہے ہی، آپ کے سامنے ہماری کوئی چال چلنے والی تو ہے نہیں، تو انکا سامنا کس طرح کیا جائے؟
کیا خیال ہے؟ کچھ دربار، صاحب دربار اور اہل دربار کے متعلق بھی سنئے نا! 

ہاں! انبیاء اور اولیاء کا درباروں میں جانا کوئی نئی بات نہیں تھی، اس سے پہلے بھی بڑے بڑے اولو العزم انبیاء درباروں میں گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (ع) کو دیکھیں، حضرت موسیٰ (ع) کو دیکھیں!۔۔۔۔  اور پھر دربار فرعون، دربار نمرود کو دیکھیں، ان درباروں کے صاحبان اپنے اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہ تھے۔ انکی ظلم و بربریت، خوف و دہشت سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ ان میں فرعون کو بہت زیادہ سفاک اور خونخوار کہا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں وہ بھی صرف بچوں کی حد تک سفاک تھا اور یہ کہ  کم از کم وہ حضرت موسیٰ (ع) یا انکے آباء و اجداد کا کلمہ تو نہیں پڑھتا تھا نا، نمرود نے حضرت ابراہیم کو نذر آتش کرنے کے بعد انکے خاندان سے کوئی تعرض تو نہیں کیا نا؟ نہ ہی ایف سی آر (جیسے کالے قانون) کے تحت اہل قوم و قبیلہ کو گرفتار کیا۔

گستاخی معاف! سچی بات تو یہ ہے کہ ان کا طریقہ واردات یزید کے مقابلہ میں کافی مہذب ہوتا تھا۔ وہ آفاقی اقدار، معاشرتی رسم و رواج، تہذیب و ثقافت اور روایات کا خیال رکھتے تھے۔ ظلم و بربریت میں بھی وہ حدود و قیود کا خیال رکھتے تھے جبکہ یزید کی تو بات ہی کچھ اور ہے، اسکے دربار کا رنگ ہی نرالا ہے، بڑا فرق ہے یزید اور فرعون میں، ابراہیم (ع) ہو، موسیٰ (ع) ہو، یا دعوت الہی دینے والا کوئی بھی نبی ہو، تن تنہا ہی درباروں میں حاضر کیے جاتے تھے، انکے ہاتھ اور پاوں میں بیڑیاں اور ہتھکڑیاں نہیں ہوا کرتی تھیں، انکے اہل خاندان کو محفوظ مقام پر رکھا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم (ع) کا بڑا نام ہے۔ ہیں بھی بڑے مرتبے والے! لیکن آپ غور کریں ذرا! وہ بھی فرزند ارجمند کو قربان گاہ پہ لے جاتے ہوئے بی بی حاجرہ کو پوری بات بتاکر نہیں گئے۔ شاید سیر کے بہانے لے گئے ہوں۔ یہاں کربلا کے سارے رنگ اور کردار نرالے ہیں یہاں فضا ہی کچھ اور ہے۔

آئیے! دربار کی بات کرتے ہیں۔ دربار میں کم و بیش سات سو کرسیاں لگی ہوئی ہیں، شان و شوکت اور رعب و دہشت کا عالم ہے، عجیب کمانڈر تشریف لاتے ہیں۔ آپ کے ہمراہ شہنشاہ (ع) کربلا اور آنحضور (ص) کے انصار (رض) کی بیبیاں بھی ہیں، انکی تعداد 64 ہے ۔۔۔۔۔ 
64 میں سے 40 بیبیاں وہ ہیں، جنکی گودوں میں دودھ پیتے بچے تھے۔ لیکن یہ میں کربلا سے روانگی کے وقت کی بات کررہا ہوں۔ خدا جانے۔۔۔ شام تک پہنچتے پہنچتے کتنے بچے بقید حیات رہ گئے تھے، نہیں جانتا! اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ بقول خدائے نظر (رہ)
ع، یو اللہ خبر دے پہ اسرار دہ کربلا
بہرحال بیڑیوں اور ہتھکڑیوں سے مسلح کمانڈر اپنے سپاہیوں کیساتھ دربار میں لائے جاتے ہیں، باایں ہمہ درباری سب کے سب دہشت زدہ نظر آتے ہیں، انکے چہروں پر ہوائیاں اڑتی ہیں حالانکہ معاملہ اسکے برعکس ہونا چاہیئے تھا۔ درباری کچھ حیران کچھ پریشان۔ حیران نظر آنے والوں میں سلطنت روم کا سفیر عبدالوہاب بھی ہے، وہ کمانڈر اور ان کے سپاہیوں پر ایک نظر دوڑاتا ہے اور پھر طشت میں سجے ایک سر اقدس کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا ہے، یزید! یہ سر کس کا ہے؟ یزید جواب دیتا ہے، حسین کا!

عبد الوہاب بھی ایک منجھا ہوا ڈپلومیٹ ہے۔ کہتا ہے، عرب میں قاعدہ نہیں الگ نام لینے کا، یہ کس کا بیٹا ہے؟ یزید نے کہا، فاطمہ (س) کا بیٹا ہے۔ عبد الوہاب نے پھر کہا، امیر! تو نے باپ کا نام نہیں لیا، فاطمہ؟ کیا محمد (ص) کی بیٹی؟ یزید نے کہا، ہاں! کہا، میں بس یہی معلوم کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس سر اقدس کو دیکھ کر میں محبت محسوس کر رہا تھا، برسوں پہلے میں نے اس بچے کو آنحضرت (ص) کی آغوش مبارک میں دیکھا تھا، آنحضرت فرما رہے تھے۔ خداوندا! تو اس کو دوست رکھ، جو اس (حسین (ع) کو دوست رکھے اور تو اس سے بیزار ہو جا جو اس (حسین (ع) سے بیزار ہو۔  یزید نے کہا، اگر سفیروں کا قتل قانونا روا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔عبدالوھاب نے بڑی بیباکی سے کہا۔ مجھے ڈراتا ہے تو؟ تیرے ہاں سفیروں کا قتل تو جائز نہیں، مگر محمد کے نواسے کا قتل جائز ہے؟ مجھ میں اور حضرت داود (ع) میں 70 پشتوں کا فاصلہ ہے، میں حضرت داود کے 70ویں پشت سے ہوں، لیکن اب بھی جس راستے سے گزرتا ہوں تو (یہودی) لوگ میرے پاؤں کی مٹی اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگاتے ہیں، جبکہ یہ تو تیرے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہے! یہ کہتے ہوئے دربار سے واک آوٹ کیا۔ پریشان نظر آنے والے مزید پریشان ہو گئے، یزید اور اسکے حواریوں کے اوسان پھر خطا ہو گئے، سکوت چھا گیا۔ درباری کبھی ایک دوسرے کو، کبھی صاحب دربار کو اور کبھی عجیب لشکر اور اسکے کمانڈر کو حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں۔

بابا تاجدار! وہ دربار تم نے دیکھا نہیں۔ یقین کرو، 1400 سال بعد بھی جب میں اس دربار میں داخل ہوا، تو مجھ پر ایک ھیبت کی کیفیت طاری ہو گئی، حالانکہ اب اس میں دربار نہیں لگتا، اب ہر کوئی وہاں جا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں، تلاشی نہیں، کسی قسم کی پوچھ گچھ بھی نہیں، جاؤ، دیکھو، بصیرت اور بصارت والوں کیلئے وہاں بہت کچھ ہیں۔ خدا جانے 14 سو سال پہلے اسکی شان و شوکت کا کیا عالم ہو گا؟ بہرحال یزید اپنی خفت و شرمندگی کو چھپانے کیلئے قیدیوں کے متعلق پوچھنا شروع کردیتا ہے۔
یہ کون ہے؟ 
وہ کون ہے؟ 
اور یہ بچہ کون ہے؟ 
وہ لمبے قد ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اور وہ سب سے چھوٹی بچی؟
قیدیوں کے کوائف بتائے جاتے ہیں، ساتھ ساتھ درباری امور بھی نمٹا دیئے جاتے ہیں۔ ایک سال پر محیط یہ ایک طویل کہانی ہے۔ 

اسی دربار کا ایک قصہ اور ملاحظہ کریں، یزید پلید کے کفریہ جملوں سے تاریخ کے اوراق شرمندہ پیں۔ وہ بڑی جسارت سے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا تھا کہ نہ آسمان سے کوئی فرشتہ اترا ہے نہ ہی کوئی کتاب نازل ہوئی ہے بلکہ بنی ہاشم نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو قائم رکھنے کے لئے گھڑ لیا ہے۔ (نعوذباللہ) کبھی قرآن سے انکار کرتے تو کبھی اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے کہتا، کہ خدا جسے چاہے عزت بخشتا ہے جسے چاہے ذلیل کرتا ہے، تم لوگوں کو خدا نے ذلیل کیا، اور ہمیں خدا نے تخت و تاج سے نوازا۔ عجیب کمانڈر مسکراتے ہوئے پرجلال لہجے میں کچھ فرماتے ہیں، جانتے ہو نا تم ان کو؟ دیکھا ہے نا تم نے تاریخ میں؟ ہے نا بہت عجیب کمانڈر؟ کمانڈر منبر کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں، اجازت ہے مجھے؟ کہ میں بھی ان لکڑیوں پر بیٹھ جاؤں؟ منبر نہیں کہا، بلکہ کہا ان لکڑیوں پر بیٹھوں۔ کیونکہ جس پر یزید جیسے پلید لوگ بیٹھا کرتے ہیں وہ منبر نہیں ہوتا، منبر تو رسول اللہ کا تخت رسالت ہے!

یزید پلید شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ زندگی میں کبھی اس طرح کے امتحان سے نہیں گزرا تھا، درباری بھی حیران، بھلا ایک قیدی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ زیادہ سے زیادہ اپنی صفائی پیش کرے گا نا؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہے گا کہ غلطی ہو گئی، آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ چڑھ جائے لکڑیوں پر؟ دربار میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے، یزید لعین کی بدحواسی میں اضافہ ہو جاتا ہے، وہ سرگرداں سا ہو جاتا ہے، ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، درباری حوصلہ دلاتے ہیں، چھوڑ دیں، چڑھنے دیں، کہنے دیں کچھ بھی نہیں ہو گا، ہم جو ہیں، لیکن خلیفہ صاحب بضد ہے کہ نہیں! 

یار! قصہ بہت طویل ہے، تاہم غمناک بھی ہے، افسوسناک بھی ہے، شرمناک اور عبرت آموز بھی۔ مختصراً سنئیے۔ کمانڈر لکڑیوں کے اس ڈھانچے پر تشریف لے جاتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمدللہ رب العالمین۔۔۔۔۔ رب ذوالجلال کی حمد و ثنا کے بعد فرماتے ہیں۔ ایھاالناس، جو مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہیں، جو نہیں جانتے وہ ذرا جان لیں، میں اپنا حسب و نسب بتا دیتا ہوں، خداوند کریم نے ہمیں چھ چیزیں ایسی عطا کی ہیں جو عالمین میں کسی کو نہیں دی ہیں۔ علم، حلم، سخاوت، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور مومنوں کے دلوں میں محبت۔ اے اہل دربار سنو! رسول اللہ ہم میں سے ہیں، میں اسد اللہ کا فرزند ہوں، میں فرزند مکہ ہوں، میں فرزند منیٰ ہوں۔ تاجدار بابا! یہ اس کمانڈر کے الفاظ ہیں۔ جو بظاہر شکست کھا چکا ہے، خطبہ کا ایک ایک لفظ کتنا عجیب اور کتنا معنی خیز ہے۔ علم، حلم، سخاوت، شجاعت، فصاحت و بلاغت۔
یاد آ گیا!
مولا علی (ع) سے کسی نے سخاوت کے بارے میں پوچھا؟ مولا نے فرمایا کہ سخاوت وہ ہے جو بن مانگے ہو۔ جبکہ مانگنے پر جو دیتے ہیں وہ یا تو شرم کی وجہ سے دیا جاتا ہے یا بدگوئی سے بچنے کیوجہ سے۔ (نہج البلاغہ)
بابا غالب بھی کیا خوب فرماتے ہیں۔
بےطلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

اس کریم اور سخی خاندان میں بےطلب دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ "خدا نے ہمیں شجاعت سے نوازا ہے۔" بہت عجیب بات ہے، یہ اُس لمحے کی بات ہے جب کمانڈر شکست کھا چکا ہے، بیڑیاں اور ہتھکڑیاں پہنی ہوئی ہیں۔ تیر و سنان، اسپ و لجام، لشکر و سپاہ ندارد! لیکن پھر بھی فاتح بادشاہ سے الجھ پڑنے سے باز نہیں آتا، تم تو تاریخ کے طالبعلم رہ چکے ہونا! کیا تاریخ میں کسی ایسے خاندان یا فرد کا تذکرہ ملتا ہے جو بیک وقت عالم بھی ہو، حلیم بھی، شجاع بھی ہو، سخی بھی، کریم بھی ہو اور فصاحت و بلاغت پر کامل قدرت بھی رکھتا ہو، شجاعت و کرامت اور ان دوسری خوبیوں کا کسی ایک ہستی میں اکھٹا ہونا تو محال ہے، تاہم اس مقدس گھرانے میں اسکی مثالیں پہلے بھی گزری ہیں۔

جنگ خندق میں اسی کمانڈر کے جد امجد مولا علی (ع) نے عمر بن عبدود کو قتل کیا، تو جب مقتول کے گھرانے کے لوگ آ گئے، ان کا پیارا، لاڈلا اور سورما مارا جا چکا ہے، آگئے تاکہ لاش اٹھا لیں، آ کر لاش کو دیکھا، بہترین لباس ابھی تک جسم پر موجود ہے، زرہ ہے اور زرہ کے نیچے ریشم کا کپڑا ہے۔ گھر والے دیکھتے ہیں، کسی نے اس کو چھوا تک نہیں۔ نہایت تعجب کے عالم میں یہ کہہ کر چلے گئے کہ جا، کریم نے مارا ہے تجھے! کریم نے قتل کیا ہے، کوئی مضائقہ نہیں۔ کوئی اور ہوتا تو لباس تن سے اتار دیتا۔
پتہ ہے، بابا غالب، کرم کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔
چھوڑی اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
تو سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
 

عجیب کمانڈر کا ایک واقعہ سنئے!
حضرت امیر مختار کا زمانہ ہے، واقعہ کربلا میں ملوث افراد کا احتساب ہو رہا ہے، کچھ انجام کو پہنچ چکے ہیں، کچھ انڈر گراونڈ چلے گئے ہیں، مفروروں میں کریم کمانڈر کے بھائی شہزادہ علی اکبر (ع) کا قاتل بھی شامل ہے، جو دربدر خاک چھان رہا ہے، ایک دن وہ کریم مولا کے خیمہ اقدس میں آ نکلتا ہے، مولا (ع) کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے، ایک پاؤں خیمہ اقدس کے چوکھٹ پر اور ایک باہر، نہ جائے ماندن دارد نہ پائے رفتن۔ مولا (ع) فرماتے ہیں، آجاؤ، تھک گئے ہو، بھوک اور پیاس سے برا حال ہے، آ جاؤ۔ پھر مولا نے خادم سے فرمایا، اسکو پانی پلاؤ، کھانا کھلاؤ۔ اسکے آرام کا بندوبست کرو۔ قصہ مختصر، رخصت ہوتے وقت وہ ملعون زیرلب مسکراتے ہوئے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ علی ابن الحسین (ع) نے ہمیں نہیں پہنچانا، مولا (ع) نے پیچھے سے فرمایا، ظالم! اچھی طرح پہچانتا ہوں، میرے بھائی اکبر (ع) کا قاتل ہے تو، لیکن یہ کریم ابن کریم کا گھر ہے۔
 
ابو نصر جان! بڑے کریم ہیں میرے مولا۔
یہ سارا مقدس گھرانہ بڑا کریم ہے، سب کچھ قربان کرکے بھی خوش رہتے ہیں اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ ایک راوی حکایت کرتا ہے کہ ایک رات کو چاہا کہ تنہائی میں جاکر خانہ کعبہ کے غلاف کو اوڑھ کر مناجات کر لوں۔ اسی نیت سے خانہ کعبہ پہنچا، کعبہ خالی تھا۔ چاہا کہ غلاف کعبہ کو اوڑھ کر اندر جاؤں، کہ اسی دوران میرے کان میں آواز آئی۔ میرے معبود! آنکھیں سو گئی ہیں، ستارے چھپ گئے ہیں تو حی ہے تو قیوم ہے۔ تو بادشاہ ہے، رات کا اتنا وقت گزر گیا ہے کہ بادشاہوں نے نہ فقط دروازے بند کرلئے بلکہ نگہبان بھی کھڑے کر دیئے۔ مالک! میں فقط اسلئے یہاں آیا ہوں کہ تیرا دروازہ سوال کرنے والوں کیلئے کھلا ہوا ہے تاکہ تیری رحمت کی بھیک مانگ سکوں۔ راوی کہتا ہے کہ دعا سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور میں نے اپنے آپ کو دعا کرنے والے کے قدموں میں ڈال دیا اور لپٹ کر عرض کیا، فقط نام بتا دیجئے، کون ہیں آپ۔ 
میرے اصرار پر اتنا فرمایا۔
علی ابن الحسین (ع)! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
السلام علی الحسین (ع) و علٰی علی ابن الحسین (ع)
میں فرزند مکہ ہوں، میں فرزند منیٰ ہوں، جانتے ہو منیٰ میں کیا ہوتا ہے؟ منی؟ یعنی معبد عشق۔
مکتب اہلبیت (ع) یعنی معبد عشق کے آداب و اطوار سے آگاہی، منٰی معبد عشق ہے جہاں سب کچھ قربان کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
معبد عشق؟ عشق کی قربان گاہ میں بےعیب ہی کو قربان کیا جاتا ہے اور روباہ صفت اور بدطینت لوگ لائق قربانی نہیں ہیں۔
ابونصیر! تم بڑے خوش نصیب ہو سمجھ رہے ہونا؟
جبکہ ہم بھی بدنصیب نہیں ہیں۔
آئیے! اپنے اپ کو اس کریم گھرانے کی کریمانہ چوکھٹ پر ڈال دیں، ہم بہت گنہگار سہی لیکن ان کے کرم کی بھی کوئی حد نہیں۔ یاد ہے وہ رباعی،
از بس کہ کرم دارد و آقا است حسین 
اور راز کی ایک اور بات بتادوں۔ جب حضرت سلمان محمدی کی زندگی کی کشتی ابدی موجوں سے ٹھکرانے لگی تو رخصتی کے وقت مولائے کریم نے آپ کے کفن پر مندرجہ ذیل اشعار رقم کیے۔ "کریم کی بارگاہ میں نیکیوں اور قلب سلیم کا سامان سفر لیے بغیر، میں آ گیا ہوں" کیونکہ جب کسی کریم کے پاس جانا ہو تو سامان سفر کیساتھ جانا نہایت برا ہوتا ہے۔
بابا اقبال فرماتے ہیں۔
بڑا کریم ہے اقبال بےنوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں
بابا اقبال بھی بہت عجیب ہیں۔ 
بےنوا بھی ہو اور کریم بھی؟ عجیب بات ہے۔
پھر کبھی سہی!
خداوند کریم سے امید ہے کہ جب ہماری زندگی کی کشتی ابدی موجوں سے ٹھکرانے والی ہو، تو اس کریم خاندان کے لطف و کرم کے ہلکے پھلکے جھونکے رواں دواں ہوں اور علی (ع) کا نام ورد زبان ہو۔

قارئین کے نام:
(اس مضمون میں ایک دوست نے دوسرے کو مخاطب کیا ہے اور امام سجاد علیہ السلام کی داستان غم کو ایک نئے پیرائے میں پیش کیا ہے اور امام علیہ السلام کے مقام کو شگفت آمیز  انداز میں بیان کیا ہے، وہ امام جو اپنی ذات میں اپنی مثال آپ تھے، عصمت و طہارت سے معمور، کریم ابن کریم کی داستان کربلا کا عجب انداز)

خبر کا کوڈ : 321536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Mashallah brother
Pakistan
saroush bhai, ap ko pahli dafa islam times par dikh raha hoon. mubarak ho.
allah ki zat ki qasam pasand tho bahot aya ap ka mazmoon. ta ham mujay awr miry sath aik awr sathi ko itha rolaya, k khod c b khod ho gaye.
allah ap ko jaza e khair dy. momkin ho tho is ko jari rakain.
be shak ajeeb andaz mai dastan karbla bayan ki gaye hai
mashallah Khuda app ko Jannat main jaga ata farmaye ye eik naya approuch hai
Mazmon ki tarah wo Musanif b Ajeeb Malom hota hai
Pakistan
sab sy dardnak jomly wo han, jab yazeed paleed k sath bachoon awr khawateen ka taarof kia jata hai.. her her jomly jalaany k leye kafi hai.
allah ap ki pori teem ko khososan liknay waly ko ajar dy
Very nice, please share ur feelings on the evening of 10th Muharram. Zulfi
Pakistan
سروش بھائی سے ہماری گزارش ہے کہ دربار یزید مین فاتحہ شام بی بی زینب س ع کے کردار پر کچھ تحریر کریں۔
ghar mai chopy ho. qalam otawo, ap k qalam mai bari mitas hai. agar khoda ki di hoi niamat sy faida na otaya tho kal qiamat ko sharmindgi otani hogi.
jalal hussain.
Pakistan
Boht ajeeb andaz ha bayan krne ka
Pakistan
Bayan krne ka kiya andaz hai
ہماری پیشکش