0
Saturday 10 May 2014 07:04

افغانستان میں صدارتی انتخابات اور پاکستان (1)

افغانستان میں صدارتی انتخابات اور پاکستان (1)
تحریر: عمران خان
 
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ افغانستان میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں پاکستان نے کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے نزدیک گرچہ یہ ایک مثبت اور بہتر پیشرفت تھی، تاہم افغانستان کے حوالے سے وہ جہادی جنگجو حلقے جنہوں نے روس کے خلاف امریکی وسائل سے ایک جنگ لڑی، وہ پاکستان کی اس پالیسی سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔ ان کے نزدیک افغانستان میں امریکہ کی آمد کے بعد بھارت نے جو گہرا اثر و نفوذ پیدا کیا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان افغانستان کا سیاسی مستقبل طے کرنے میں اپنا کردار اسی طرح ادا کرے، جس طرح ماضی میں کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں ہونیوالے حالیہ صدارتی انتخابات میں کسی امیدوار کو فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے انتخابات کا ایک اور دور ہوگا۔ جس میں فقط دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ افغان انتخابات کیسے ہوئے، امیدوار کون تھے، طالبان کا کیا کردار رہا، طالبان کے بائیکاٹ کی وجہ سے آنیوالی حکومت کے لیے افغانستان کتنا پرامن ہوگا اور افغانستان میں سیاسی استحکام سے خطے پر کیا اثرات ہونگے، کا مختصر جائزہ لینے سے قبل پاک افغان تعلقات میں آنیوالے پیچ و خم کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
 
مشرف دور حکومت میں پاکستان نے امریکہ سے نان نیٹو اتحادی ہونے کا اعزاز تو حاصل کرلیا، مگر اس کے جواب میں برسوں پرانی افغان پالیسی سے مکمل طور پر رول بیک کرنا پڑا۔ نتیجے میں پاکستانی اداروں کی تخلیق کردہ وہ قوتیں جنہیں اسٹرٹیجک اثاثے ہونے کا اعزاز حاصل تھا، مخالف سمت میں اکٹھی ہونا شروع ہوگئیں۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد حامد کرزئی کا دور شروع ہوا۔ ابتداء میں صدر حامد کرزئی کو امریکہ و پاکستان کی آشیرباد حاصل تھی۔ صدر مشرف کے دور اقتدار کے خاتمے پر افغانستان میں موجود دوستوں کے تحفظات و خدشات میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ حامد کرزئی کی صدارت کے تیرہ برسوں میں افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھتا چلا گیا۔ وہی طالبان جنگجو جن کے خلاف پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا، انہی کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی، لیکن ان جنگجوؤں کے ساتھ آنیوالے مذموم بیرونی ایجنڈے نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے وہ مراکز قائم کئے، جن کا شکار خود پاکستان ہونے لگا۔ 

افغانستان کی جانب سے متعدد بار ایسے الزامات عائد کئے گئے، جس میں کہا جاتا رہا کہ دہشت گرد پاکستان کے آزاد علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کئے ہوئے ہیں اور وہیں سے آکر افغانستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ سفارتی محاذ پر گرچہ پاکستان نے افغان کٹھ پتلی حکومت کے ان الزامات کو زیادہ مقبول نہیں ہونے دیا، لیکن کرزئی حکومت کو سخت حکمت عملی اپنانے پر مجبور کر دیا۔ کرزئی حکومت نے جنگجوؤں سے روابط مضبوط کئے اور افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے انہیں تعاون پر آمادہ کیا۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اپنی تحریروں میں یہ خیال ظاہر کیا کہ کرزئی کی جانب سے امریکہ کے ساتھ سخت لہجے اور برطانوی فوجیوں کے افغانستان میں کردار سے بیزاری کے اعلان کی بنیادی وجہ جنگجو گروپوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری ہے۔ امریکہ کی جانب سے افغان انتخابات سے قبل کرزئی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرے۔ جس کی رو سے افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں کئی ہزار امریکی فوجی موجود رہیں گے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر فوجی تعمیرات بھی کر رکھی ہیں۔
 
کرزئی حکومت نے امریکہ کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے بلکہ چین جو کہ افغانستان میں فقط سرمایہ کاری تک محدود تھا، اس کے ساتھ فوجی اور دفاعی تعلقات بنانے اور بڑھانے میں خوشی ظاہر کی۔ کرزئی حکومت جنگجوؤں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ بیرونی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے مستقبل اور دوستوں و دشمنوں کا فیصلہ یہاں بسنے والوں نے ہی کرنا ہے۔ اس پیشرفت کے بعد پاکستان کے لیے جس بڑی پریشانی نے جنم لیا وہ افغانستان سے پاکستان میں ہونیوالی دراندازی تھی۔ پہلے جنگجو پاکستان سے افغانستان جاکر مسلح کارروائیاں کرتے اور واپس آتے، لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ افغانستان سے جنگجو پاکستان میں آکر کارروائیاں کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنیوالی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں نے افغانستان میں مضبوط اور محفوظ ٹھکانوں کی تعمیر کے بارے افغان طالبان کو اعتماد میں لیا ہے۔ فاٹا کے علاقے میں موجود وہ جنگجو جو افغانستان سے آئے اور یہیں پر محفوظ ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہوئے، انہیں فاٹا کیصورت میں اپنی ایک الگ و خود مختار ریاست نظر آرہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں پاکستان سے اس علاقے کی علیحدگی کی صورت میں وہ یہاں آزادانہ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ 

افغان حکومت نے ان کی اس امید کو قوی کرنے کی خاطر ڈیورنڈ لائن کے مسئلہ کو تاحال حل نہیں ہونے دیا۔ افغان حکومت کی جنگجوؤں کے ساتھ فروغ پاتی مفاہمت میں پاکستانی اداروں کو اپنا کردار زوال پذیر ہوتا محسوس ہوا۔ چنانچہ پاکستان میں موجود وہ افراد جو کرزئی حکومت اور جنگجوؤں میں رابطے کا ذریعہ بنے ہوئے تھے، ان کو نہ صرف گرفتار کیا گیا، بلکہ انتہائی محفوظ مقامات پر خفیہ طریقے سے رکھا گیا، حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں نے ملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری اور پھر رہائی کو اسی عمل کا حصہ قرار دیا ہے۔ پاکستانی اداروں کے کردار سے اس امر کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ ملک میں موجود جنگجو، یا مسلح قوتیں ریاستی اداروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ اس کے باجود وطن عزیز میں جاری دہشت گردی کی لہر کا قابو میں نہ آنا یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس طرح پاکستانی طالبان کو افغانستان میں موجودہ قوتوں کی دوستانہ تھپکی ملتی رہی ہے، اس طرح افغانستان میں موجود طالبان کی پاکستانی ادارے گاہے بگاہے حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ 

افغانستان میں امریکی آمد کے بعد آزاد اور چھوٹے جنگجو و دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گرچہ مسلح افرادی قوت جو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو اور اپنے اندر نظم و ضبط رکھتی ہو، علاقے میں استحکام پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، جبکہ چھوٹے چھوٹے آزاد جنگجو گروپ جن کی مانگوں کی فہرست زیادہ طویل بھی نہیں ہوتی، بیرونی قوتوں کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ بڑے اور منظم جنگجو جتھے چونکہ ایک قیادت کے اندر رہ کر باقاعدہ احکامات کے تحت کام کرتے ہیں، لہذا ایک طرف ان کے مطالبات بھی لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں جب وہ کارآمد نہیں رہتے تو نہ ہی ان کے متبادل دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی ان پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں امریکی آمد کے بعد چھوٹے بڑے کئی آزاد جنگجو گروہ بنے، اور کچھ ہی عرصے بعد یہی صورتحال پاکستان میں پیدا کی گئی۔ گرچہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی ہر کارروائی کی ذمہ داری تحریک طالبان قبول کرتی رہی، جس کا بڑا مقصد اپنا وزن افغان طالبان کے برابر ظاہر کرنا بھی تھا۔
 
اس عرصے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے ساتھ ہی مربوط ہے اور انہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ دوسرا خیال یہ تھا کہ ٹی ٹی پی گرچہ ملا عمر کو امیر مانتی ہے، تاہم اس کے ایجنڈے میں افغان حکومت اور دیگر بیرونی ایجنسیز بھی اثر رکھتی ہیں۔ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں فکری تضاد بھی نمایاں نظر آتا رہا۔ کبھی فوج اور دفاعی اثاثے نشانہ بنے، تو کبھی مسلک، کبھی عام عوام اور کبھی اقلیتیں، حکومت بھی نشانے پر رہی اور اپوزیشن بھی، طالبان کو بھائی کہنے والے عمران خان کابینہ کا صوبائی وزیر بھی نشانہ بنا اور مرحوم قاضی حسین احمد پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں تک کہ طالبان کے فکری اور عسکری پیشوا سمجھے جانیوالے کرنل امام کو بھی قتل کیا گیا اور جنرل نیازی کو بھی۔ دہشت گردی کے واقعات میں یہ تضاد دلیل تھا کہ کسی نظریاتی گروہ نے ریاست کے خلاف مقاصد کے حصول کے لیے جنگ مسلط نہیں کی ہوئی بلکہ مختلف گروہ مختلف قوتوں کے ایجنڈے کی خاطر یہ کارروائیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ 

اس قوی خیال کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ جب ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باجود بھی کارروائیاں جاری رہیں، جس کے بعد ٹی ٹی پی کو نہ صرف ان سے اظہار لاتعلقی کرنا پڑا بلکہ ان گروہوں سے اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ کوئی ایک پلیٹ فارم پر موجود منظم طاقت نہیں بلکہ مختلف، آزاد دہشت گرد گروپوں کا ایک مجموعہ ہے۔ جو اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ اس حقیقت کے آشکارا ہونے تک گرچہ ریاست اور عوام کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ریاست کے دشمن دہشت گرد گروہ ریاستی اداروں کے سامنے نہایت کمزور ہیں، ضرورت فقط موثر حکمت عملی کی ہے۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 380281
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش