2
2
Saturday 12 Jul 2014 20:19

اردگانی حکومت اور ترکی کا مستقبل (1)

اردگانی حکومت اور ترکی کا مستقبل (1)
تحریر: عرفان علی 
 
عالم اسلام اور خاص طور پر مشرق وسطٰی کی موجودہ صورتحال میں ترکی بھی ایک فعال کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کردار مثبت ہے یا منفی، اس کا اندازہ اس تحریر کو پڑھ کر ہوجائے گا۔ عراق اور شام کے حوالے سے ترکی امریکی و صہیونی اتحاد کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے ثبوت میں واشنگٹن پوسٹ کے معروف کالم نگار ڈیوڈ اگناشس کا وہ ایک انکشاف ہی کافی ہے جو انہوں نے 18فروری 2014ء کو اپنی تحریر میں کیا کہ واشنگٹن میں شام کی حکومت کے خلاف امریکہ، یورپی ممالک اور عرب اتحادی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اجلاس ہوا تو اس میں ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے بھی شرکت کی تھی۔ اس خبر نے مجھے بہت مایوس کیا، کیونکہ آج سے سات سال قبل ترکی کے بارے میں دنیا کے مسلمانوں کی طرح میں بھی خاصا پرامید تھا کہ جب طیب اردگان کی حکومت نہ صرف ترک مسلمانوں کے لئے بلکہ عالم اسلام کے لئے کوئی مثبت کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس حسن ظن کی معقول وجوہات بھی تھیں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP) کی حکومت ناجائز و غاصب صہیونی حکومت سے تعلقات منقطع کر دے گی۔ ترکی نے فلسطینیوں کی حمایت میں عالمی کانفرنس بھی منعقد کی تھی، جس میں فلسطین کی مقاومتی تحریکوں کے نمائندگان بھی شریک تھے۔ غزہ کے محاصرے کے بعد ترکی حکومت نے بھی اس کو ختم کروانے کے لئے فریڈم فلوٹیلا کا ساتھ بھی دیا تھا، اس مسئلے پر اسرائیل سے ناراضگی بھی اختیار کی۔

لیکن اس کے بعد نہیں معلوم کیا ہوا، عظیم تر اسرائیل کے سازشی نقشے میں اردگانی حکومت بھی رنگ بھرنے لگی۔ امریکہ، سعودی عرب، قطر، بحرین وغیرہ نے ناجائز و غاصب صہیونی ریاست کے دفاع میں شام کی فلسطین دوست بشار الاسد حکومت کے خلاف محاذ قائم کیا تو ترکی بھی اس کا حصہ بن گیا۔ عراق میں سابق نائب صدر طارق الہاشمی کے ساتھ مل کر اسی صہیونی سازش کے تحت دہشت گردی کروانے لگا۔ پی کے کے کے باغیوں کی آڑ میں عراقی کردوں پر بمباری کرنے لگا۔ شام میں جبہۃ النصرہ اور داعش جیسے دہشت گردوں کی مدد کرنے لگا اور عراق میں بھی داعش کو مکمل معاونت فراہم کرنے لگا۔ شام دشمنوں کے اتحاد نے بھی ترکی سے ہی سرگرمی دکھائی۔

ترکی کے کردار کو سمجھنے سے پہلے اس کی جغرافیائی حیثیت دیکھنا ہوگی۔ یہ ایک سرحدی پٹی پر ایران، عراق اور شام سے مل رہا ہے اور شام والی پٹی آگے جا کر بحر متوسط (یا پاکستانی اصطلاح میں بحیرہ روم) کے کنارے کنارے ایجیئن سمندر سے ملحق ہوتا ہوا یونان کی طرف سے گھومتا ہوا بلغاریہ اور پھر بلیک سی کو چھوتا ہے۔ اسی سمندر کے کنارے استنبول واقع ہے۔ سمندر کے دوسرے سرے پر جارجیا نامی ملک ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور یہی پٹی آگے چل کر آرمینیا سے ملتی ہے، آرمینیا اور ایران کے درمیان تھوڑا پچھلی طرف آذربائیجان ہے۔ ساڑھے سات کروڑ کے ملک ترکی میں شیعہ علوی مسلمان آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ لسانی اعتبار سے ترک زبان کی اکثریت ہے اور زیادہ تر علویوں کی زبان بھی ترک ہی ہے۔ لسانی اعتبار سے کرد 6 سے 7 فیصد بتائے جاتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ترکی کے تعلقات نہ صرف پڑوسی مسلمان ممالک سے خراب رہے ہیں بلکہ آرمینیائی نسل کے مسیحیوں کی نسل کشی بھی ترکوں نے کی، حالانکہ وہ تین ہزار برسوں سے اس خطے میں آباد تھے۔ شام کا علاقہ اسکندرون بھی ترکی کے قبضے میں ہے۔

عراق کے موضوع پر امریکی صحافی جون کولے نے اپنی کتاب این ان ہولی الائنس اگینسٹ بیبیلون میں انکشاف کیا کہ عراق کے یہودی، فارسی زبان شیعہ مملکت ایران سے شدید نالاں تھے اور جب ترک سلطنت عثمانیہ نے انہیں شکست دی تو عراقی یہودیوں نے یوم معجزہ کے عنوان کے تحت خوشیاں منائیں۔ عراق کی شیعہ آبادی جس کی اکثریت عرب تھی، ان کے خلاف ترک سلطنت نے عراق کے یہودیوں اور سنی عربوں کو فوقیت و ترجیح دی۔ جون کولے نے اس دستاویز کا حوالہ بھی دیا ہے جو راقم الحروف مشرق وسطٰی کے بارے میں اپنی بعض تحریروں میں دے چکا ہے۔ کلین بریک نامی یہ دستاویز صہیونی امریکیوں نے بنجامن نیتنیاہو کے پہلے دور حکومت کے لئے تیار کی تھی اور اس میں ایران، شام، لبنان میں اسرائیل دشمن حکومتوں کا خاتمہ اور ترکی اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے اتحاد کی تجویز دی گئی تھی۔

2004ء میں امریکی ہفت روزہ نیویارکر کے یہودی امریکی صحافی سیمور ہرش نے انکشاف کیا تھا کہ موساد کردوں کو ٹریننگ دے رہی ہے، لیکن ناجائز صہیونی ریاست نے اس کی تردید کی تھی تو رجب طیب اردگان نے وہ تردید قبول کرلی تھی۔ البتہ اس وقت امریکہ کے منظور نظر علاوی کی عراقی عبوری حکومت کو اردگان نے متنبہ کیا تھا کہ کرکوک اور یہاں کے تیل کے ذخائر کردوں کے کنٹرول میں نہیں آنے چاہئیں، لیکن 2014ء میں صورتحال یہ ہے کہ ترکی کے انگریزی روزنامہ حریت میں اتوار 29 جون کی اشاعت میں سرکن ڈیمٹ راس کے کالم کا عنوان ہی اردگانی حکومت کی پالیسی بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ موصل برائے ISIL (یعنی داعش) اور کرکوک برائے بارزانی۔ عراق کے کردستان ریجن کے وزیراعظم نیچروان ادریس بارزانی نے 26 جون کو ترک وزیراعظم اردگان کی دعوت پر انقرہ کا دورہ کیا۔ ان کے چچا مسعود بارزانی نے 27 جون کو برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کے ساتھ ملاقات کی۔ سرکن ڈیمٹ راس کے خیال میں اردگان و بارزانی عراق میں عدم استحکام کا ذمے دار نوری مالکی کو سمجھتے ہیں جبکہ مسعود بارزانی نے ولیم ہیگ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ عراق کی مرکزی حکومت صدام حکومت کے سقوط کے بعد فوجی خلاء پر کرنے میں ناکام رہی اور کرد پیش مرگا نے یہ خلا پر کیا۔ کرکوک کرد پیش مرگا کے غیر آئینی کنٹرول میں ہے اور وہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔

عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے کرد علاقوں کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔ عراقی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے جماعت اسلامی کردستان کے سربراہ اور سنی عالم دین شیخ علی باپیر نے بھی داعش کے دہشت گردوں کی مذمت کی ہے۔ کرکوک شام اور ترکی کی سرحد سے زیادہ دور نہیں۔ ترکی اور اس کے درمیان دہوک نامی صوبہ ہے اور شام اور اس کے مابین نینوا صوبہ ہے، جس میں موصل نامی علاقہ بھی ہے، جہاں صدام دور حکومت کے نائب صدر عزت ال دوری نے داعش کے ساتھ اتحاد کے طور پر قبضہ کیا تھا۔ کرکوک اور الانبار کے درمیان ایک طرف سے نینوا اور دوسری طرف سے صلاح الدین صوبہ ہے، جس میں سامرہ شہر میں عسکریہ کا علاقہ بھی ہے۔ ترکی اعلانیہ طور پر امریکی اتحادی تھا اور ہے اور آج کل عرب بادشاہوں کا بھی اتحادی ہے۔ یہ وہ ملک نہیں کہ جس کے خلاف امریکی و عرب ذرائع ابلاغ، شام، ایران، فلسطینیوں جیسا سلوک کریں، یعنی اس کا میڈیا ٹرائل کریں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کے سرکاری میڈیا میں سے ایک وائس آف امریکہ نے ڈوریان جونز کی رپورٹ 27 جون کو اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کی۔ ترک علاقے دیار بکر کی ڈیٹ لائن سے جاری اس رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ جو عراق و شام کی سرحد پر واقع ہے، یہاں کے کرد مذہبی ہیں۔ کردوں کی اقتصادی بدحالی اور پسماندگی کی وجہ سے کرد علاقے داعش کے لئے زرخیز زمین ثابت ہوئے ہیں۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مشیر، اردگان کی حکمران جماعت کے رہنما معمر عکر نے ڈوریان جونز کو بتایا کہ یہاں کے ایک درجن سے زائد کرد داعش کے لئے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ مزید کہا کہ داعش کے لئے یہاں سے بھی بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت یہاں وہابیت کے فروغ کے لئے خطیر رقم خرچ کر رہی ہے۔ نوجوان کرد وہابی بن کر تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ترک حکومت شام کی حکومت کی مخالف ہے، اس لئے شام مخالف داعش کی ترک حکومت نے مخالفت نہیں کی۔

معمر عکر نے کہا کہ داعش کے ترکی وہابی کرد شام کے ان سیکولر کردوں سے بھی لڑ رہے ہیں جنہوں نے ترکی کی سرحد کے ساتھ خود مختار سیکولر کرد ریاست کا اعلان کر رکھا ہے۔ ترکی کو خطرہ ہے کہ ترکی کے کرد بھی شام کے ان سیکولر کردوں کی طرح کا مطالبہ کرسکتے ہیں، لیکن یہ معمر عکر کی رائے ہے کہ ترک حکومت اس طرح سوچ رہی ہے، ورنہ حکمران جماعت کے ہی اعلٰی عہدیدار نے تو عراق کے کردوں کے اس حق خود ارادیت کی بھی حمایت کر دی ہے جس کا تاحال مطالبہ عراقی کردوں نے بھی نہیں کیا۔ معمر عکر کا کہنا ہے کہ ترک باغی کرد جماعت پی کے کے اور شام کے سیکولر کردوں میں رابطہ ہے۔ پی کے کے طویل عرصے سے ترکی کے کردوں کے حقوق کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 399070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Good Job Bother.
Pakistan
Hamesha ki tarah acha tajziya
ہماری پیشکش