0
Monday 9 Apr 2012 10:58

سانحے پہ سانحہ آخر کب تک؟؟؟

سانحے پہ سانحہ آخر کب تک؟؟؟
تحریر: زاہد حسین بلتی 
 
سانحہ کوہستان کے حوالے سے حکومت نے غیر سنجیدگی اور سرد مہری کو مظاہرہ کیا، جس کا منہ بولتا ثبوت سانحہ چلاس کی صورت میں سامنے آیا۔ علاقے میں لاشیں گر رہی ہیں اور علاقے کے سرکردگان منظر سے غائب رہے۔ چلاس میں بے گناہ افراد کا قتل اور تاحال دہشتگردوں کی عدم گرفتاری انتظامیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ گلگت بلتستان کو ایک دفعہ پھر دہشتگردوں کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور دہشتگرد یہاں کے باسیوں کی نسل کشی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔ دوسری جانب اعلٰی ترین ذمہ داران شہر سے پرے تشریف رکھتے ہیں، ایسے میں خطے کے نشیب و فراز اور حکمرانوں کی کارکردگی نہ صرف استفہامیہ ہے بلکہ لوگوں کا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عوام کے ووٹوں سے کرسی اقتدار پر براجمان ہونے والے سیاستدان بے گناہ افراد کے قتل پر لواحقین کو دلاسہ نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا باعث نہ بنیں۔ ایسے سیاستدانوں کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہئے۔ 

عوامی حلقے خطہ گلگت بلتستان کے اعلٰی حکام سے سخت نالاں ہیں، انکا کہنا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی گولیوں سے چھلنی لاشوں پر افسوس کرنے اور ان کے لواحقین کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بجائے یہ کہیں اور اپنی  وفاداریاں نبھا رہے ہیں۔ فخر ایشیاء، پاکستانیوں کے نجات دہندہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا تھا اور ملکی مفاد میں کئے جانے والے تمام تر فیصلے عوام کی مشاورت اور تجاویز کے بغیر نہیں کرتے تھے، مگر آج صورتحال اس کے بلکل بر عکس نظر آتی ہے، ایک طرف خطے میں وحشت و خوف اور حشر کا محشر بپا ہے تو دوسری جانب نام نہاد سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کے لئے محوِ کاروبار ہیں۔ 

آخر میرے شہر کو یہ آگ کیوں لگی، جس کا خدشہ بھی نہ تھا، یوں تو یہاں کے باسیوں کے ساتھ آئینی خود مختاری اور انسانی حقوق سے محرومی کے مظالم کی طویل داستان وابستہ رہی ہے، تاہم یہاں کے مسلمانوں کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کر کے ظلم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہ کسی صورت برداشت کے قابل نہیں، اس سے قبل اٹھائیس فروری کو اہل تشیع کے 18 افراد کو بس سے اتارا گیا اور پھر قومی شناختی کارڈز کے ذریعے شناخت کر کے انکے ہاتھوں کو باندھ کر اور لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کبھی کوئٹہ میں معصوم جانوں کے ساتھ کھیل کھیلا جاتا ہے تو کبھی گلگت بلتستان کے اہل تشیع کو بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
 
اس تمام صورتحال کے باوجود قاضی وقت کے کانوں پر جوؤں تک نہیں رینگتی، سینکڑوں معصوم جانوں سے زیادہ ترجیح وحیدہ شاہ کے تھپڑ کو دی جاتی ہے، ایسے میں انسانی جانوں کی قدر و منزلت کا تعین کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، کیا یہ انصاف کا تقاضہ نہیں کہ مسافروں کے قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور لواحقین کی داد رسی کی جائے، اس سے نہ صرف ملک میں دہشتگردوں کا قلع قمع ہو جاتا بلکہ متاثرین کی کسی حد تک تسلی بھی ہو جاتی۔ صد افسوس کہ معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث ملزمان پر کڑی نظر رکھیں اور جرائم میں ملوث ہاتھوں کو بے نقاب کریں۔ 

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جس کا دہشتگردی سے دور کا کوئی ناطہ نہیں، یہاں کے لوگوں نے امن و آشی کے لئے تن من دھن کی قربانیاں دی ہیں۔ سانحہ کوہستان کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں نے ایک عظیم مثال قائم کر دی۔ سانحہ کوہستان میں 18 افراد کو منظم منصوبے کے تحت قتل کئے جانے کے باوجود یہاں کے علمائے کرام نے صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے کسی بھی پر تشدد واقعہ سے عوام کو روکے رکھا اور جمہوری انداز میں اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کو پیش کیا۔ اتنی لاشیں گرنے کے بعد بھی ملت جعفریہ نے نہ کسی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور نہ ان میں انتقامی کارروائی کا کوئی رجحان نظر آیا بلکہ انہوں نے پرامن احتجاج کیا اور اپنے مطالبات پیش کئے۔
 
اس تاریخ ساز مثال کو پیش کر کے گلگت بلتستانیوں نے درسِ کربلا اور اپنے بلند حوصلے کا مظاہرہ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ حکومت کی غیر منظم پالیسیوں اور ملت جعفریہ کے صبر کا دہشتگردوں نے ایک بار پھر فائدہ اٹھایا اور چلاس میں سانحہ کوہستان سے ملتی جلتی گھناؤنی سازش کی۔ ادھر گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن لوگ جس قدر صبر اور استقامت کے ساتھ پرامن رہے وہ قابل ستائش اور محب وطن ہونے کی دلیل ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ارض گلگت بلتستان کے لوگوں کو تحفظ فراہم نہ کیا گیا اور سانحہ کوہستان اور سانحہ چلاس جیسے واقعات رونما ہوتے رہے تو ممکن ہے کہ یہاں بھی بلوچستان جیسی صورتحال پیدا ہو جائے اور لوگ الگ ریاست کا مطالبہ کرنا شروع ہو جائیں۔ 

آج حکومت بلوچستان میں اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام کیوں ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا، جس کی وجہ سے بلوچ قوم وطن سے بغاوت کرنے پر مجبور ہے، گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن لوگوں نے پاکستان کی بقاء کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ کارگل سیکٹر پر ناردرن لائٹ انفنٹری کے جوانوں کے عزم اور ولولے کے باعث بھارتی لشکر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، گلگت بلتستان کے فوجی جوانوں نے اپنی قبروں پر پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ملک کو دوام بخشا، آج بھی گلگت بلتستان کا ہر شہری وطن کے لئے لہو کا آخری قطرہ بہانے کیلئے بھی تیار ہے بشرطیکہ خطے کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 151593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش