0
Sunday 16 Jun 2013 22:24

مغرب زدہ میڈیا

مغرب زدہ میڈیا
تحریر: جاوید عباس رضوی

آج کل کی تیز رفتار دنیا میں جہاں لوگوں کے پاس کہنے کو تو ایک لمحہ بھی خالی نہیں ہوا کرتا ہے، ٹائم نہیں ملتا، وقت کہاں ہے، فرصت نہیں ہے، یہ جملے اب لوگوں کے لئے تکیہ کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، اس ‘‘وقت’’ کی ماراماری میں بھی اگر ہمارے بچے، خواتین اور نوجوان کسی کو اپنا قیمتی، بیش بہا اور بہت زیادہ وقت دیتے ہیں تو وہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ یا سینماز ہیں، فرصت نہ بھی ہو لیکن ٹی وی کے لئے فرصت نکالنی پڑتی ہے اور ایک خاص وقت میں خاص داستاں خاص کہانی اور خاص اپیسوڈ کا حصہ بننا واجبات میں تصور ہوتا ہے، رات دیر تک ہمارے بچے اور نوجوان ٹی وی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور پھر صبح دیر تک بستر کے ساتھ۔۔۔۔۔

اپنی زندگی کے اہم اور گراں قدر اوقات ہم ٹیلی ویژن کو بخشتے ہیں اگرچہ ہمارے اقرباء، اہل و عیال، رشتہ دار اور دوستان کے لئے ہمارے پاس ایک لمحہ بھی میسر نہیں ہوتا ہے، اب اگر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز سے دکھائے جانے والے پروگرامز، فلمیں اور سیریلز کے بارے میں بات کی جائے تو ہم سب جانتے ہیں کہ ان تمام نشریات میں خرافات، فحشیات اور عریانیت کو پروان چڑھایا جاتا ہے، مغرب تو عریانیت و غیر تمدن دنیا کا شہنشاہ ہے لیکن مغرب کی پیروی کرتے ہوئے بھارت میں بھی ٹی وی وغیرہ پر فحشیات کے علاوہ کچھ دکھایا نہیں جاتا ہے۔

سچ ہی کہا جاتا ہے کہ بھارتی میڈیا مغرب زدہ ہو چکا ہے اور بھارتی میڈیا اور ٹی وی چینلز میں وہی سب دکھایا جاتا ہے جو یہود کی ڈرکشنز ہوتی ہیں، غرض کہ دنیا بھر میں ٹی وی کے ذریعے ایک منظم سازش کے تحت اسلام دشمنی، عریانیت اور مغربی خرافات کو عام کیا جا رہا ہے، بھارت میں اگر دیکھا جائے تو بہت ہی کم قیمت اور محدود رقم میں لاتعداد چینلز دکھائے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ بھارت میں صرف 150 روپیہ میں 500 چینلز دکھائی جاتی ہیں، ان 500 چینلز میں ایک بھی معیاری، تہذیبی، ثقافتی اور خالص مذہبی چینل میسر نہیں ہوتی ہے، بھارت کا ایک چھوٹا گاوں جو 140  گھر پر مشتمل ہے، جہاں ہر گھر میں ڈیش، کیبل، سیٹ اپ باکس وغیرہ ہیں صرف 10  گھر ایسے ہیں جہاں کیبل، ڈیش تو نہیں ہے لیکن ٹی وی ضرور ہے اور وہ دس گھر بھی تین حکومتی چینلز سے مفت لذت محسوس کرتے ہیں، ایک غریب گھر میں بھی کیبل یا ڈش دستیاب ہوتی ہے، دیکھنے کو ملتا ہے کہ کبھی کسی گھر میں بیت الخلاء موجود نہیں ہوتا ہے لیکن وہ ماہانہ  کیبل فیس ادا کرنے کے لئے ضرور خود کو آمادہ کرتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ٹی وی نشریات کا یہی حال ہے، پاکستان بھر میں بھارتی فلموں کی بلا روک ٹوک نمائش، سی ڈیز کی دستیابی اور کیبل پر بھارتی چینلز کی موجودگی نے پاکستانی معاشرت کے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، آپ شہروں اور دیہات میں دکانوں، بازاروں اور حتی کے گھروں کی دیواروں پر بھارتی اداکاروں کے پوسٹرز لگے دیکھ سکتے ہیں، کمپیوٹرز کے سکرین سیورز، وال پیپرز، موبائیل کے کلپس، طلبہ کے فائل کورز سمیت کہیں بھی آپ کو بالی وڈ سٹارز ملیں گے، نامحرم لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان رکھشا بندھن جگہ جگہ منایا جاتا ہے، پاکستان بھر میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں  بھارتی گانوں کی ”انتاکشری“ کھیلتے پائے جاتے ہیںِ، بے پردگی، عریانیت اور غیر سنجیدہ فلمیں اور ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، پاکستان میں نیوز چینلز اور اسپورٹس جینلز کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے، نیوز اینکر خواتین کا حلیہ بھی قابل شرم ہوتا ہے اگرچہ پاکستان کی نیوز اینکر خواتین اپنا حلیہ ٹھیک رکھ سکتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔بھارتی سیاست دان سونیا گاندھی نے 1996ء میں کہا تھا کہ پاکستان کا بچہ بچہ ہندوستانی تہذیب کا دلدادہ ہے، پاکستانی ٹی وی بھی ہمارے رقص بڑے فخر سے دکھاتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں گذشتہ چند سالوں کے دوران ایک سو پچیس فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی بڑی وجہ بھارتی ڈرامے و فلمیں بھی بتائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر بھارتی سینما کی بات کریں تو اس نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بناکر شیطنت اور عریانیت کے لئے اسکایا ہے، جہاں دیکھو بالی وڈ کے چرچے ہیں اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھیں اور سراہی جاتی ہیں، ان فلموں میں کن چیزوں کو فوکس کیا جاتا ہے یا ان فلموں کا ہدف و مقصد کیا ہوتا ہے کسی سے مخفی نہیں ہے، ان فلموں کا فلم اسٹارز کا بھارت کے عام لوگوں پر اتنا گہرا اثر ہے کہ ان کے معمولات زندگی کو اپنایا جاتا ہے، ان کے لائف اسٹائل کی تقلید کی جاتی ہے، خواتین فلمیں دیکھ کر اپنے لئے تنگ، کٹے، پھٹے اور نازیبا ملبوسات منتخب کرلیتی ہیں، ابھی ایک تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اب امیر طبقے کے لوگ اپنی شادیوں میں فلم اسٹارز کو بھی مدعو کرتے ہیں اور صرف دعوت ہی نہیں بلکہ ان فلم اسٹارز کہ جنہیں بھارت کی عام زبان میں ہیرو کہا جاتا ہے کو محدود وقت کے لئے لاتعداد رقم بھی دی جاتی ہے، جیسے کہ معروف بالی وڈ اداکار شاہ رخ خان کی فیس آدھے گھنٹے کے لئے 1  کروڑ روپیہ ہے، سلمان خان کی فیس بھی کچھ ایسی ہی بتائی جاتی ہے، جبکہ معمولی اور دوسرے درجے کے فلم اداکاروں کی بھی بطور مہمان خصوصی شادی میں آدھا گھنٹے وقت گذارنے کے لئے 50  سے 70 لاکھ روپیہ تک فیس ادا کی جاتی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اب بھارتی میڈیا (نیوز چینلز، اخبارات) بھی تنزلی کا شکار ہو گیا ہے، جمہوریت کی شان کے بطور پہچانے جانے والا یہ میڈیا بھی اب عجیب و غریب چیزوں کی تشہیر کرتا نظر آرہا ہے، عیب و عار سے پُر چیزوں کو فوکس کیا جا رہا ہے، اب تو بھارت میں شریف النفس افراد نیوز چینلز دیکھنے سے یا تو پرہیز کرتے ہیں یا پھر نیوز چینلز دیکھتے وقت محتاط رہتے ہیں کہ کب کس چیز کی تشہیر کی جائے۔ بھارتی میڈیا یہاں رہنے والے لاکھوں پسماندہ، عقب ماندہ، بے حال و مال، بھوکے اور بےگھر افراد کو فراموش کرتے ہوئے ان فلم اسٹارز کے پل پل کی خبر رکھتے ہیں، لاکھوں بےسہارا افراد، لاکھوں بیوائیں، لاکھوں یتیم بچے، لاتعداد غرباء و مساکین اور ہزاروں ایسی جوان لڑکیاں کہ جن کی شادی بہت ہی کم خرچے پر ہو سکتی ہے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

غرض کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی، سیاسی یا اقتصادی طاقت کی بجائے میڈیا کو استعمال کرتی ہیں، مغربی طاقتیں میڈیا کے زور پر اب ذہنوں کو غلام بناتی ہیں، مغربی طاقتوں کو اس میدان میں کافی کامیابی ملتی رہی ہے اور اسلام کے ساتھ تہذیبوں کی جنگ کے لیے میڈیا ہی اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی تمدن کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور فیس بک کو بھی اسلامی دنیا میں اچھی خاصی مقبولیت ملی، اور اس کے منفی اثرات دیکھنے کو بخوبی ملتے ہیں، بھارت کہ جہاں تقریبا 30  لاکھ سے زائد افراد فیس بک سے جڑے ہوئے ہیں، جو اوسطا روزانہ 45 منٹ فیس بک پر صرف کرتے ہیں، فیس بک کی وجہ سے ہی بھارت میں روزانہ 12  سے 15  طلاق ہوتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 273821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش