1
0
Wednesday 20 Nov 2013 19:21

عزاداری کے جلوس واجب، مستحب یا مباح؟

عزاداری کے جلوس واجب، مستحب یا مباح؟
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com


حدیث رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہے : « إنَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَۃً فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لَنْ تَبْرُدَ أَبَداً (مستدرك الوسائل، ج 10ص 318)، بیشک حسین (علیہ السلام) کا قتل مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت اور ایمان کی شمع کو جلا دے گا کہ جو کبھی بھی بجھنے والی نہیں ہے۔
آج کل پوری دنیا میں تمام مسلمان اہلبیت (ع) کا غم منانے میں مصروف ہیں لیکن سرزمین پاکستان آج بھی دشمن کی سازشوں کا شکار ہے اور آئے دن ہر روز کوئی نہ کوئی نت نئی سازش تیار کی جاتی ہے، تاکہ ملت اسلامیہ کو باھم دست و گریبان کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ عاشورا کے مقدس دن کے موقع پر جو کچھ راولپنڈی شھر میں ہوا اور اس کے بعد اس افراتفری کی فضا کو پورے ملک میں پھپلانے کی جو کوشش کی گئی وہ سب کے سامنے ہے اور روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسی منظم سازش تھی اور ہے کہ جس کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ پورے ملک میں انارکی پھیلائی جائے اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے یزیدی افکار کو رواج دیا جائے، تاکہ دشمن اپنے نجس اہداف کو حاصل کرسکے۔ جہاں تک اس حادثے کے علل و اسباب ہیں، اس پر کافی حد تک بات بھی ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی، لیکن ایک چیز جو دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود مخصوص تکفیری گروہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ اس حادثے کے نام پر اپنی دیرینہ مخصوص خواہشوں تک پہنچ سکے۔

شبہات کی ایجاد یا مغالطہ گری ایسی پرانی شیطانی سازش ہے کہ جو ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو کبھی آپ کو نظر آئے گا کہ نیزوں پر قرآن اٹھا کر مسلمانوں کو فتنہ میں ڈالا جا رہا ہے اور کبھی روز و شب کے نمازی خوارج اپنی کوتاہ اندیشی سے مسلمانوں کو بہکا رہے ہیں۔ آج بھی وہی شیطانی گروہ دوبارہ اپنی سازشوں میں مصروف ہے اور شبھات کی ایجاد کے ذریعے مغالطہ گری سے چاہتا ہے کہ امت اسلامی کو دوبارہ گمراہ کیا جائے۔
راولپنڈی میں ہونے والے واقعے کی آڑ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ "دینی جلسے جلوسوں، خصوصاً عزاداری اور عیدمیلاد النبی کے جلوسوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا واجب ہیں،  مباح ہیں یا مستحب؟ اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مباح شی کو اتنی اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے پورا شھر مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے اور  اتنا سرمایہ خرچ ہو کہ جو اگر کسی اور اچھی جگہ پر خرچ ہو تو پورا ملک ترقی کرسکتا ہے۔؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ آج تاریخی طور پر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ جو لوگ آج تک عزاداری اور عید میلادالنبی کو بدعت اور شرک کہتے تھے اور بدعت کے نام پر اعتراض کیا کرتے تھے، آج وہ خود ہی ان دینی اجتماعات کو مباح یعنی جائز  سمجھتے ہیں اور بالاخر حق کے مقابلے میں اپنی شکست کو قبول کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ عزاداری کے جلوس اور میلاد کی محفلیں جائز  کام ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے میڈیا کلیپس دیکھ لیں، آپ کو تکفیری گروہ کالعدم سپاہ صحابہ کے مولوی لدھیانوی سے لیکر کراچی کے مشہور مفتی نعیم تک سب یہ کہتے نظر آئیں گے کہ یہ جلوس مباح ہیں یعنی جائز ہیں۔ دوسری بات اس خاص واقعہ کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ ہے، یہ بات صحیح ہے کہ نماز جمعہ کا واجب ہونا سب کے نزدیک ثابت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں رائج ہے کہ ہر گلی محلہ میں چند ایک مقامات پر نماز جمعہ ہو رہی ہوتی ہے تو آیا ان تمام مساجد میں نماز جمعہ کا قائم کرنا واجب ہے۔؟ 

سب متفق ہیں کہ ہر ایک مسجد میں جمعہ کا قیام ضروری نہیں ہے یعنی اگر کسی ایک خاص دن مثلاً عاشورا کے دن اگر اس عزاداری کے مباح یعنی شرعی طور پر جائز جلوس کے روٹ میں کوئی مسجد آ رہی ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ نماز جمعہ کے بہانے شرپسندی کی جائے گی اور ممکنہ طور پر شہر میں حرج و مرج اور فساد کی فضا ایجاد ہوسکتی ہے تو ایسی صورت میں کیا اس مسجد میں ایک دن کیلئے نماز جمعہ کو انجام نہ دینے  سے کوئی  مشکل پیش آجاتی ہے اور کیا شرعی طور پر ایسا کام کرنے میں کوئی ممانعت ہے؟ نہیں تو پھر اس خاص واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بجائے یہ کہ یہ سوال کیا جائے کہ عزاداری اور میلاد جیسے مذھبی جلوسوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، سوال کیا جانا چاہیئے کہ ان مباح شرعی کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی شرعی حیثیت ہے؟ اور کیا دین اور نماز کے نام پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنا صحیح ہے؟
 
ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایسی تمام مساجد یا اجتماعات کہ جو ان جلوسوں کے راستے میں ہیں، وہ خود نواسہ رسول (ص) کے غم میں شرکت کرتے ہوئے جس طرح جلوس کے عزادار نماز کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں اور اس کے بعد عزادارای انجام دیتے ہیں، یہ بھی ان مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر نواسہ رسول کی عزاداری میں شریک ہوں اور اگر کسی بھی وجہ سے ان کے نزدیک ایسا ممکن نہیں ہے تو  بجائے ایسے غیر منطقی سوالوں کی ایجاد کے ایسا مناسب بندوبست ہونا چاہیے، تاکہ کسی شرپسند کو مسلمانوں کے درمیان تفریق ایجاد کرنے کا موقع نہ مل پائے۔

جہاں تک جلوسوں کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو جید علماء کرام بارھا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ عزاداری سید الشھدا امام حسین (علیہ السلام) اگر کسی زمانے میں مستحب بھی تھی تو آج واجب ہے اور اسکی وجہ بھی یہ متفقہ  قرآنی اصول ہے کہ جس کے مطابق امر بالمعروف اور نھی از منکر واجب ہے اور نواسہ رسول (ص) کی یاد کو زندہ رکھنا کہ جو درحقیقت اسلام کو زندہ رکھنا ہے، امر بالمعروف کا سب بڑا مصداق ہے۔ خداوند تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أمَّۃ يَدْعُونَ إِلی الْخَيْرِ وَيَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْہوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأولَئِكَ ھمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران/١٠٤)
ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔


پس امر بالمعروف خداوند تبارک و تعالٰی کی جانب سے واجب قرار دیا گیا ہے اور امربالمعروف ہی ہے کہ جس کی وجہ سے آج اسلام زندہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اپنے خروج کے ہدف کو بھی امربالمعروف اور اپنی جد کی امت کی اصلاح قرار دیتے ہیں، پس درحقیقت آج بھی ہم یاد حسین علیہ السلام کو ان مجالس اور عزاداری کے جلوسوں کی ذریعے زندہ رکھ کر گویا خدا کی طرف سے واجب قرار دیئے گئے امر بالمعروف اور نھی از منکر کے فریضے کو انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
ذَالِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللہ فَانَّہا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (حج/٣٢)
ترجمہ: بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

اسی طرح سورہ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّہا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّہ وَلا الشَّہرَ الْحَرَامَ (٢)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی۔


اسی طرح سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے :
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَائِرِ اللَّہ  (١٥٨)
ترجمہ: صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔

اور سورہ حج میں خدا فرماتا ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاھا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّہ لَكُمْ فِيہا خَيْر (٣٦)
ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ جسے ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے۔

ان آیات سے واضح انداز میں معلوم ہو رہا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم خداوند کی طرف سے ضروری قرار دی گئی ہے اور اس بات میں کس کو شک ہے کہ شھداء کی یاد کو زندہ رکھنا اور بالاخص امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں کی اسلام کی خاطر اعظم الشعائر ہے اور ان سے بڑھ کر کون شعائر اللہ میں سے ہوسکتا ہے۔ اگر قربانی کے اونٹ اور سامط صفا و مروہ شعائر اللہ ہوسکتے ہیں تو قرآن ناطق اور  انسان کامل بدرجہ اتم شعائر اللہ ہیں۔

یہاں ایک اور بات کو بیان کرنا بھی ضروری ہے، بعض لوگ عزاداری کے جلوسوں کو تبرا کے جلوس کا نام دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تبرا پر پابندی لگائی جائے، لیکن حقیقت یہ ہے تبرا دین کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ مسلمان، خدا کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے سے پہلے شرک اور اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کا انکار کرتے ہیں اور اس عمل سے تبرا کرکے شرک سے اپنی برائت کا اعلان کرتے ہیں اور اگر یہ کام انجام نہ دیا جائے تو مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا۔ خداوند تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں کفار اور مشرکین سے برائت کا اعلان فرمایا:
بَرَاءَۃ مِنَ اللَّہ وَرَسُولِہ الی الَّذِينَ عَاھدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (توبہ/١)
ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (اعلان) بیزاری ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔
وَأَذَان مِنَ اللَّہ وَرَسُولِہ الی النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الاكْبَرِ أنَّ اللَّہ بَرِيء مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُہ (توبہ/٣)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے۔


اور اسی طرح قرآن میں بہت سے مقامات پر انبیاء کا ذکر ملتا ہے کہ جنہیں تبرا کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ مشرکین سے برائت کا اعلان کریں۔ پس خدا کے دشمنوں اور خصوصاً قاتلین امام حسین علیہ السلام سے برائت کا اعلام کرنا نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے امر بھی ہے۔ البتہ ممکن ہے تسبیب کو برائت کے معنا میں لیا جائے یعنی سبّ کرنے کو تبرا کہا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سبّ یعنی گالی گلوچ کو متفقہ طور پر صحیح نہیں جانا جاتا اور مکتب اھلبیت میں تو حتی مراجع عظام کے صریح فتاویٰ موجود ہیں کہ سبّ یا گالی گلوچ ناجائز کام ہے۔ قرآن مجید واضح انداز میں ارشاد فرماتا ہے تم کافروں کے جھوٹے معبودوں کو بھی گالی نہ دو، کہیں وہ عداوت میں تمھارے حقیقی خدا کو گالی دینا شروع نہ کردیں۔
وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہ فَيَسُبُّوا اللَّہ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (انعام/١٠٨)
ترجمہ: گالی مت دو ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں۔

یہاں ضروری ہے کہ اس بات کا بھی ذکر  کر دیا جائے کہ شیعہ علماء دین اور مراجع عظام کے فتاویٰ کے مطابق اھلسنت و الجماعت کے تمام مقدسات کا احترام واجب ہے۔ لہذا عزاداری اور میلادوں کے جلوسوں میں رکاوٹ ڈالنے کی مذموم کوشش درحقیقت اس استکباری اور شیطانی سازش کا حصہ ہے کہ جو  مسلمان کو تقسیم کرکے ان پر قبضہ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور پاکستان میں موجود تکفیری گروہ بھی دانستہ یا نادانستہ انہی کافر طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 322918
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
برادر عزیر ہم یہ نہیں کہتے ہر گلی محلہ میں نماز جمعہ نہ ہو یہ ان کا عقیدہ ہے۔ مگر انتظامیہ کو چاہییے تھا کہ وہ جلوس پہنچنے سے پہلے نماز جمعہ ختم کروا دیتے اور لائوڈ اسپیکر بند کرواتے۔ اس سے پہلے بھی روز عاشور قیام پاکستان کے بعد سات دفعہ جمعہ کو آچکا ہے مگر ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ یہ سو فیصد انتظامیہ اور شرپسند عناصر کی منصوبہ بندی کے تحت سب کچھ ہوا ہے، اگر انتظامیہ جلوس سے پہلے نماز جمعہ ختم کروا کر لائوڈ اسپیکر بند کروا دیتی تو یہ شرپسند کبھِی کامیاب نہ ہوتے۔ اس سارے واقعہ کی ذمہ دار راولپنڈی کی انتظامیہ اور پنجاب حکومت ہے۔ ایک خبر کے مظابق روز عاشورہ کے لیے قائم کردہ راولپنڈی کا کنٹرول روم ڈپٹی کمشنر کے آفس میں قآئم تھا جو روز عاشورہ بند پڑا تھا اور ڈپٹی کمشنر خود بھی غائب تھا۔ سانحہ راولپنڈی کی ذمہ دار کرپٹ اور نااہل انتظامیہ ہے، جس سے مدینہ مارکیٹ کو بھی خود آگ لگوائی، جس مں ان مفاد پرست عناصر کے مفاد وابستہ ہیں، اس پہلو پر ضرور تحقیقات ہونی چاہیں۔ مارکیٹ کو آگ لگانے سے کس کے کاروبار کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ہماری پیشکش