0
Monday 3 Feb 2014 23:15

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تحریر: سید اسد عباس تقوی

طالبان سے مذاکرات ہوں یا نہ ہوں، اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ ملک کی ایک بہت بڑی خاموش اکثریت ان مذاکرات کی مخالف ہے جبکہ اس کے برعکس ملک کی چند اہم جماعتیں ان مذاکرات کی حامی بھی ہیں، بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایوان ہائے اقتدار میں موجود اکثر جماعتیں ان مذاکرات کے حق میں ہیں۔ پہلے پہل ان جماعتوں نے اے پی سی کے اجلاس میں حکومت کو بھرپور مینڈیٹ دیا کہ وہ ملک میں امن کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کرے۔ یہ تقریباً چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ اس معاملے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ گذشتہ ماہ طالبان کی جانب سے کئے جانے چند ایک حملوں کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومت میں ہلچل پیدا ہوئی اور اس نے آپریشن یا مذاکرات میں سے کسی ایک فیصلہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ توقع یہ کی جارہی تھی کہ اب آپریشن ہی واحد راستہ بچا ہے، لیکن ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم نے امن کو موقع دینے کی بات کرتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی بات کی۔

میاں صاحب نے مذاکرات کے لیے اس دفعہ ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی، اسی طرح طالبان کی جانب سے بھی ایک چھ رکنی کمیٹی کا اعلان سامنے آیا۔ یعنی طالبان، حکومت کو اپنے حملوں کے ذریعے مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کمیٹیاں کن امور پر بات چیت کریں گی؟ کون سے معاملات زیر بحث آئیں گے؟ طالبان کیا مطالبات پیش کریں گے، اپنے پیش کردہ مطالبات سے وہ کس قدر پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟ حکومت کس حد تک طالبان کو رعایت دیتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ یہ اور اس قبیل کے کئی ایک سوالات ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ اکثریت، اپنے اکثریتی وجود کے باوجود مذاکرات کے اس عمل، پالیسی سازی اور امور مملکت سے باہر ہے۔

دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کی حامی قوتیں اس مذاکراتی عمل کو شہ دینے اور خاطر خواہ نتائج تک پہنچنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل کا یہ بیان یقیناً بہت سے احباب کی نظر سے گزرا ہوگا کہ حکومت کو طالبان کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اسی طرح سید منور حسن بھی اپنے تئیں بھرپور انداز سے طالبان اور القاعدہ کی حمایت کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں۔ سیاسی رقابتیں بھلا کر آج بہت سے سیاسی و مذہبی گروہ طالبان سے مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ طالبان کی حمایت کے لیے ان گروہوں کا یہ اتحاد اگرچہ کوئی نام نہیں رکھتا، تاہم رخ اور منزل ایک ہی ہے۔ طالبان نے اگرچہ ان معتبر شخصیات کے کہنے پر کبھی بھی اپنا طریق نہیں بدلا، اس کے باوجود ہماری دعا ہے کہ ان حضرات کی کوششیں بار آور ہوں اور طالبان ہتھیار پھینک کر بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے باز آجائیں۔

گذشتہ دنوں اسی سلسلے کی ایک کوشش میں شرکت کا موقع ملا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے بنائے ہوئے ادارے، ’’ادارہ فکر و عمل‘‘ جسے آج کل ان کے بیٹے لقمان قاضی چلا رہے ہیں، کے زیراہتمام ایک کانفرنس میں کچھ وقت گزارا۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر’’افغانستان میں امن اور مفاہمت‘‘ کے عنوان سے بلوائی گئی۔ شرکت کے اعتبار یہ کانفرنس ایک اہم اور اثر انگیز کانفرنس تھی۔ ملک کی نہایت اہم شخصیات جن میں کئی ایک سابق جرنیل، ملک کے اہم نشریاتی اور اخباری نیٹ ورکس کے سربرآوردہ صحافی، تجزیہ نگار، کالم نویس، امریکہ سے چین تک کے سفارت کار، ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان اس کانفرنس میں سامع کی حیثیت سے موجود تھے۔ اس کانفرنس میں ملک کی اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ افغانستان سے آئے ہوئے چند مہمانوں نے بھی خطاب کیا۔

یہ اہم کانفرنس عین اس وقت منعقد ہو رہی تھی، جب میاں صاحب اپنی کابینہ کے اراکین کے ہمراہ طالبان کے خلاف حتمی لائحہ عمل کے بارے میں سوچ وچار میں مصروف تھے۔ یہ وہی کانفرنس ہے جس میں سید منور حسن نے کہا کہ اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرا نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ افغانستان کے موضوع پر بلوائی جانے والی اس کانفرنس میں ملک کی مذہبی قیادت کا موضوع سخن، پاکستان میں طالبان کے خلاف ہونے والا متوقع آپریشن رہا۔ تقریباً سبھی قائدین نے حکومت کو کسی بھی آپریشن کے آغاز سے باز رہنے کی ترغیب دی۔ سید منور حسن کی گفتگو سے تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ افواج پاکستان کو یہ باور کروا رہے ہوں کہ کل ہم نے روس کو توڑا، آج ہم امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں یہ نہ ہو کہ کل تمھاری باری آجائے۔ اگرچہ انھوں نے اپنی گفتگو میں افواج پاکستان کا نام نہ لیا لیکن افغانوں بالخصوص طالبان کا قصیدہ انھوں نے جس انداز سے پڑھا، اس سے یہی مطلب نکلتا تھا۔

ادارہ فکر و عمل کے روح رواں قاضی حسین احمد مرحوم کے بیٹے آصف لقمان قاضی ملک میں قائم مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کے نائب صدر بھی ہیں۔ آپ کے ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ مذہبی قیادت سے بھی بہت قریبی روابط ہیں، لیکن مجھے یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی کہ لقمان قاضی نے اس اہم ترین کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے دو اہم مکاتب فکر جن کا طالبان کے ساتھ ہونے والی کسی بھی پیشرفت سے براہ راست تعلق ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس پیش رفت کے اثرات ان پر مرتب ہوتے ہیں، کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کیا۔

اس حیرت نے میرے ذہن میں بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ اگر لقمان قاضی جو اتحاد امت کے داعی ہیں، ان طبقات کو اس معاملے پر مشاورت کے قابل نہیں سمجھتے تو کسی اور سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ ذہن اس طرف بھی گیا کہ ملک کے مذہبی قائدین منجملہ سید منور حسن، فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق نے اس کمی کو محسوس کرکے اس جانب متوجہ کیوں نہ کیا؟ کیا وہ بھی لقمان قاضی کی مانند اس معاملے میں ان طبقات کی رائے کو اہمیت نہیں دیتے۔ پھر ذہن ماضی میں چلا گیا جب سوویت یونین کے خلاف ایک جہادی اتحاد وجود میں آیا تھا۔ اس وقت بھی ان طبقات کے مفادات اور تحفظات کو نظر انداز کیا گیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔؟

ایک وجہ تو بدیہی ہے کہ اس اتحاد میں عقیدتی اختلاف کی گنجائش نہ تھی۔ اسی سبب فقط ایک خاص مسلک کے لوگ اس اتحاد کا حصہ بنے، جب کہ اس مسلک سے باہر کے افراد کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔ دوسری اہم وجہ جو میرے ذہن میں آتی ہے یہ ہوسکتی ہے کہ ان مکاتب فکر کی کوئی خاطر خواہ نمائندگی ایوان ہائے اقتدار میں موجود نہیں ہے، لیکن کیا اس نمائندگی کا موجود نہ ہونا ان مکاتب فکر کی عددی اقلیت کا بھی غماز ہے اور کیا ایوان ہائے اقتدار میں عدم نمائندگی اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ ان طبقات کے تحفظات اور مفادات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جائے۔

کون نہیں جانتا کہ طالبان اور ان کی ذیلی تنظیمیں شیعہ مکتب فکر کو رافضی کے عنوان سے جانتی ہیں اور ان کے قتل کو یہود و نصاریٰ کے قتل سے زیادہ ثواب کا کام سمجھتی ہیں۔ اسی طرح کون نہیں جانتا کہ یہ گروہ بریلوی مکتب فکر کو بھی قابل گردن زدنی سمجھتا ہے، گذشتہ طالبان دور میں مزار شریف پر چڑھائی اور وہاں ہونے والا قتل عام، متعدد مقامات پر اولیاء کے مزارات پر حملے، شیعہ آبادیوں پر لشکر کشیاں، امام بارگاہوں اور سنی و شیعہ مساجد میں بمب دھماکے، میلاد و عاشورہ کے جلوسوں میں خودکش حملے، مسافروں کو شناخت کرکے قتل کرنا، اسی عقیدے کے چند مظاہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں بسنے والے عیسائی، ہندو، سکھ، سنی اور شیعہ اس قابل بھی نہیں کہ ان سے بھی ملک میں ہونے والی اہم پیش رفتوں کے بارے میں رائے لی جائے۔ انھیں بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔

قصور وار کون ہے؟
ضرب المثل معروف ہے کہ ’’تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔‘‘ مذکورہ بالا عدم توجہی کے پیچھے جہاں ایک جانب حکومتوں اور ان کے حواریوں کا ہاتھ ہے، وہیں یہ طبقات خود بھی اپنی محرومیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خامیوں اور کمیوں کو دریافت کیا جائے اور ان کی اصلاح کی تدبیر سوچی جائے۔ کسی اتحاد کا حصہ بننا یا نہ بننا اہم نہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ ملک کے پالیسی ساز ادارے فیصلہ سازی کے وقت آپ کی رائے کو اہم سمجھیں نہ یہ کہ سرے سے ہی آپ کے تحفظات کو نظر انداز کرکے اقدام کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 348086
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش