1
0
Sunday 3 Aug 2014 16:45

ملی اتحاد کی عملی شکل، ایک تجویز

ملی اتحاد کی عملی شکل، ایک تجویز
تحریر: سید اسد عباس تقوی

 کہتے ہیں سخت سردی میں کچھ خارپشت بیٹھے تھے۔ سردی سے انکا برا حال تھا، تھوڑی سی حرارت پا لینے کے طمع میں ایک دوسرے کے قریب آئے تو انکے جسموں پہ لگے کانٹے ایک دوسرے کو زخمی کرنے لگے۔ ایک دوسرے سے ہٹ کر بیٹھے تو سردی مارنے لگی۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کریں تو کیا کریں؟ چپک کر بیٹھیں تو اپنے کانٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی کر دیں، دور جاکر بیٹھیں تو سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں۔ بالآخر انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ قربت ہو مگر ایک حد کے اندر۔ پس وہ ایک دوسرے کے اتنا قریب ہوئے کہ انہیں ایک دوسرے کی حرارت تو پہنچتی رہی، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ کانٹے نہ چبھیں۔ ہم انسان بھی انہی خار پشتوں کی مانند ہیں۔ ہمارے جسم میں موجود غیر مرئی کانٹے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے ارد گرد لوگوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ جب دور جاتے ہیں تو دوریوں کی اذیت اور فراق کے الم مارے ڈالتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک دوست نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، مجھے یہ بات اپنی قوم پر بھی صادق ہوتی نظر آئی۔ ہم قریب آتے ہیں تو ماضی کی یادیں اور حال کے نشتر ہمیں زخمی کئے دیتے ہیں اور جب دور ہوتے ہیں تو زمانے کی سختیاں ہمیں جینے نہیں دیتیں۔

اتفاق اور اتحاد پر زیادہ دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بچپن سے ہی اتحاد و اتفاق کے گن سنتے آئے ہیں۔ تبرکاً قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کا ایک جملہ پیش خدمت ہے آپ فرماتے ہیں۔
"آپس میں متحد ہو جاؤ دشمن طاقت کے ذریعے ہمیں نہیں مار سکتا وہ ہمیں صرف اختلاف کے ذریعے شکست دے سکتا ہے۔" (سخن عشق ص 157)
تاہم سوال وہی ہے کہ اتحاد کی کیا صورت ہو۔ ملت کے اتحاد کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں۔ بہت سے داعیان اتحاد منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی تھک کر بیٹھ گئے۔ کچھ نے راہ ہی بدل لی اور کچھ آج بھی اپنے تئیں کوششیں کر رہے ہیں۔ اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ اس بے نتیجہ کوشش کا کیا فائدہ۔؟ اس سوال کے پیچھے یقیناً بہت سے حقائق ہیں، جن سے فرار ممکن نہیں ہے۔ یہ وہی کانٹے ہیں جو خارپشتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکتے ہیں۔ امت مسلمہ، ملت تشیع اور عالمی حالات قارئین سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ شام، عراق، بحرین، لبنان اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں کوئی توضیح دینے کی ضرورت نہیں۔ ہم ان مسائل پر کڑھ تو سکتے ہیں، تاہم کچھ ایسا نہیں کرسکتے جس سے ان اقوام کے افراد کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہو۔ اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ ہماری نااتفاقی ہے۔ اگرچہ ہم اپنی اپنی سطح پر اس سلسلے میں اقدامات بھی کرتے ہیں، تاہم یہ اقدامات کوئی قابل ذکر تاثیر پیدا کرنے کے بجائے الٹا ہماری خفت کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے فلسطین کے مظلومین کے حق میں ملک بھر میں مظاہرے کئے، تاہم شومی قسمت کہ ہم اس قابل نہ تھے کہ مل کر ایک بڑا احتجاج کرتے، جس سے عالمی سطح پر کوئی پیغام جاتا، جو پیغام گیا اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ملت کو درپیش داخلی مسائل بھی اس صورتحال سے مختلف نہیں ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، ملی حقوق کا دفاع اور اسی قسم کے اجتماعی مسائل پر ہم سب الگ الگ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، میں نہیں کہتا کہ ہمارا یہ ردعمل غیر موثر ہوتا ہے، تاہم اگر ہم اس ردعمل کو موثر ترین بنانا چاہیں یا یہ چاہیں کہ ہمارے تحفظات کو کوئی بھی حکومت واقعی سنجیدگی سے لے تو اس کے لیے ملت کے تمام گروہوں کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے۔ ملت کے تمام گروہوں سے مراد حقیقت میں تمام گروہ ہیں۔ ہر طبقہ جو کسی بھی عقیدے، نظریئے اور فکر کا حامل ہے، لیکن ہم جیسا ہے کو ہمیں ایک مقام پر مجتمع کرنا ہوگا۔ عموماً اتحاد سے مراد بڑی جماعتوں یا گروہوں کا اتحاد لیا جاتا ہے۔ میری نظر میں ہمیں اس سے وسیع تر پیرائے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی قاری کو اس اتحاد سے مسلکی بو آرہی ہو تو اس کی خدمت میں دست بستہ عرض گزار ہوں کہ خاندان بھی ایک مسلکی تقسیم ہے، اگر خاندان اور کنبہ کی بنیاد پر تقسیم کو ہم برا نہیں سمجھتے تو عقیدے کی بنیاد پر تقسیم بھی بری نہیں ہے۔ دنیا میں کمیونٹیز اسی انداز سے ہوتی ہیں۔ برائی اس وقت جنم لیتی ہے جب کوئی اپنی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے پر اپنی رائے مسلط کرے۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام انسانیت کے علمبردار ہیں، ان کے خانوادے نے دنیا کو انسانیت کی تعلیم دی، ان کا بیٹا حسن (ع) عالم اسلام میں صلح کے علمبرادر کے طور پر جانا جاتا ہے، ان کا چھوٹا فرزند حسین ابن علی (ع) پوری دنیا کے حریت پسند انسانوں کے لیے رہبر و راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خانوادے کے پیروکاروں کو بھی اپنے راہبروں اور راہنماؤں کی راہ پر چلتے ہوئے انسانیت کے درجے پر سوچنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو بھلا کر ایک بڑے مقصد کے لیے متحد ہو کر کام کریں گے۔ باتوں باتوں میں، میں آپ حضرات کو بالاخر اتحاد و اتفاق پر اپنی گزارشات سنا ہی گیا، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مسئلہ تاہم یہی ہے کہ راہ حل کیا ہو؟ گذشتہ دنوں ایک سوشل فورم پر میری کچھ سابقہ تنظیمی و سماجی شخصیات سے اس معاملے پر گفت و شنید ہوئی۔ اس گفتگو کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس گفتگو میں ملت کو درپیش مسائل کا حل تجویز کرتے ہوئے یہی صورت سامنے آئی کہ ہمیں بہرحال اکٹھے ہونا چاہیے۔ گفتگو کے دوران یہ بھی طے پایا کہ قیادت کا مسئلہ ہماری قوم کی تقسیم میں بنیادی کردار کا حامل ہے، لہذا ہمیں اس باب کو بند کرتے ہوئے مختلف قیادتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم پر توجہ دینی چاہیے۔ گفتگو کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہر شخص کو اپنا قائد و رہبر چننے کا اختیار ہے، ہم میں سے کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے قائد پر تنقید کرے بلکہ ہمیں اپنے بھائی کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے مشترکہ مفادات کے لیے مل بیٹھنا چاہیے۔

گفتگو میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ ہمیں ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جس میں قوم کے تمام گروہوں منجملہ علماء، تنظیمیں، ذاکرین، مشائخ، طلبہ، مذہبی اداروں اور غیر تنظیمی افراد کو بھی نمائندگی دی جائے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس پلیٹ فارم کا کوئی قائد، سربراہ یا راہبر نہیں ہونا چاہیے بلکہ فقط ایک نمائندہ ہو جو اس سربراہی کونسل کی نمائندگی اور اس کے امور کو چلانے کا ذمہ دار ہو۔ گفتگو میں یہ بھی طے پایا کہ کہ ضروری نہیں کہ کسی بھی پارٹی کا لیڈر یا قائد بذات خود سربراہی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کرے، وہ اپنی نمائندگی کے لیے کسی بھی بااختیار شخص کو بھیج سکتا ہے، تاہم سربراہی کونسل میں کیے جانے والے فیصلے ہر گروہ پر نافذ عمل ہوں گے۔ گفتگو کے دوران اور بھی بہت سی تفصیلات پر بحث و تمحیص ہوئی، یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ ملت کے وہ موثر افراد جو کسی بھی جماعت، ادارے یا گروہ سے متمسک نہیں ہیں، ان پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل یا ایلڈرز اسمبلی بنائی جائے۔ یہ کونسل یا اسمبلی لامحدود اراکین پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ سربراہی کونسل میں جماعتوں کے اراکین یا ایلڈرز اسمبلی کے اراکین خود سے اس اسمبلی کے لیے افراد کے نام تجویز کرسکتے ہیں، جن کی منظوری بہرحال سربراہی کونسل ہی کرے گی۔

گفتگو کی تفصیلات بہت سی ہیں، تاہم یہ اتفاق رائے کیا گیا کہ کونسل آف لیڈرز یا سربراہی کونسل کے بنیادی خیال سے آغاز کیا جائے اور اسے ملک کے موثر حلقوں میں زیر بحث لایا جائے۔ گفتگو کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اس پلیٹ فارم کو معرض وجود میں لانے کے لیے کون ذمہ داری لے گا، اس حوالے سے متعدد نام سامنے آئے، کچھ افراد اب بھی ملت کی وحدت کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، تاہم یہ فیصلہ ہوا کہ اس خیال کو نشر کیا جائے، تاکہ ہر وہ فرد جو اس سلسلے میں کام کرسکتا ہے بذات خود اپنی کوششوں کا آغاز کرے۔ مزید برآں چند دیگر سابقہ تنظیمی و فعال افراد سے روابط کی ذمہ داری بھی لی گئی۔ اس تحریر کے ذریعے آپ برادران سے بھی گزارش ہے کہ اپنی مفید آرا سے آگاہ فرمائیں اور ملت کے اتحاد کی اس راہ میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس راہ میں ہماری سب سے بڑی دشمن ہماری ناامیدی اور مایوسی ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ:
"سب سے بڑی مصیبت ناامیدی ہے۔"
عیون الحکم والمواعظ، قم،ایران، طبع اول، دارالحدیث، ص117
خبر کا کوڈ : 402780
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
یہ سب امور آپ اور آپ کے خاص حلقہ احباب نے پہلے سے طے کئے ہیں اور طے شده امور کو فورم کے نام پر سامنے لایا گیا ہے، ورنہ اس فورم کے تمام افراد کی یہ رائے نہیں، جس کا آپ نے ذکر کیا کہ فورم پر مشاورت سے طے ہوتا چلا گیا بلکہ فورم پر سامنے آنے والی چیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آپ کی تنہاء رائے تهی جیسا کہ ((آپ نے محنت کی، اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔ اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے بڑے لفظ استعمال کرنے کے بجائے، کونسل جیسے لفظ استعمال کئے جائیں۔ سب سے پہلے تمام گروپس کے شرح صدر رکھنے والے افراد کی ایک کمیٹی بنے جو سفارشات مرتب کرے۔ پھر انہیں تمام گروپس کو بھیج دیا جائے، تاکہ وہ اس پر اپنی رائے دے دیں، اس پر وہ دستخط بھی کر دیں، اگر متفق ہوں تو۔ ایک کوشش برادر کمیل عباس نے کی تھی، ان سے بھی مشورہ کر لیا جائے۔
میری رائے میں ملی یکجہتی کونسل والہ آئیڈیا بہتر ہے۔ اس پر سب گروپس متفق ہیں۔ بس صرف دیگر مکاتب فکر کی تنظیموں کی جگہ شیعہ گروپس آجائیں گے۔ اس میں مسئلہ سربراہی کا ہوگا، اس کے بھی دو حل ہیں۔ ایک مخصوص عرصہ کے لیے سربراہ بدلتا رہے جیسا کہ مقبوضہ کشمیر کی جماعتوں نے اپنایا ہوا ہے۔ یا ایک بزرگ عالم دین جس پر سب متفق ہوں، کو سربراہی دی جاسکتی ہے، جیسے قاضی حیسن احمد تھے۔)) {{برادر سید نثار ترمزی}} نے بیان کیا یا پهر آپ کے خاص حلقہ احباب کی رائے تهی، جیسا کہ ((............... آپ دونوں كى آراء نظر انداز كرنے والى نہيں، مگر هم سب كو مل كر ایک بہتر ابتداء كا آغاز كرنا ہے، اسد بهـائی نے هم سب برادران كى آراء كى روشنى ميں يی ڈرافٹ تيار كيا ہے، اور يقيناً يه حتمى نہيں، اس لئے اپنى بہترين تجاويز ضرور ديں، يقيناً ماضى كے تلخ تجربات كا اعاده نہيں ہونا چاہيۓ، ذاتيات كو پس پشت ڈال كر ملت كى اور اپنى نوجوان نسل جو كہ 80 كى دہائی كا نوجوان نہيں بلكہ اس جديد زمانے كى نسل ہے، ان كى بہترى کیلئے كام كرنا ہے))
{{برادر انجم رضا نے فرمایا تو اسے فورم کا نام دینا مناسب نہیں، پهر بهی عرض کیا اچهی سوچ ہے لیکن ان تمام امور سے پہلے اپنے اپنے اندر موجود بغض و عناد کا وائرس ختم کرکے طوفان بدتمیزی اور بدتہذیبی کا بازار بند کرانا ہوگا۔
ہے کسی میں ہمت کہ ان غلیظ زبانوں کو لگام دے سکے۔ آپ نظر کر لیں اس پیج پر کس انداز کی زبان استعمال ہوتی ہے اور کس طرح شخصیات کی کردار کشی ہوتی ہے، پهر اطراف کی مختلف آئیڈیز پر نظر کر لیں یہ کون ہیں؟ کوئی جن یا فرشتے نہیں، جن کا علم نہ ہوسکے۔ کیا خوب محاوره ہے کہ
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
لہذا ان امور کی طرف جانے سے پہلے اس وائرس کا علاج کرنا ہوگا اور یہی وائرس اتحاد بین المومنین میں مین رکاوٹ کا سبب ہے، جب تک آپ اس کا سدباب نہیں کرتے، یہ حسین خواب شرمندہ نہیں ہوسکتے۔
ہماری پیشکش