0
Thursday 20 Mar 2014 11:30
سی آئی اے، موساد اور را پاکستان کے اندر دہشتگردی کے فروغ میں کردار ادا کر رہے ہیں

شیطان بزرگ کے سامنے جھکنے سے انکار پر ایرانی قیادت کو سلام پیش کرتے ہیں، لیاقت بلوچ

ایران کو پاکستان میں ہونیوالی فرقہ واریت اور قتل و غارت پر تشویش ہے
شیطان بزرگ کے سامنے جھکنے سے انکار پر ایرانی قیادت کو سلام پیش کرتے ہیں، لیاقت بلوچ
لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ سے ہے، جبکہ آپ دسمبر 1952ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کیمونی کیشن میں ماسٹر کیا لیکن ساتھ ہی قانون کی تعلیم بھی حاصل کر لی۔ اپنے تنظیمی کیرئیر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ جمعیت کے جنرل سیکرٹری بن گئے بعدازاں وہ دو مرتبہ جمعیت کے ناظم اعلٰی بھی منتخب ہوئے۔ لیاقت بلوچ نے ایم اے میں گولڈ میڈل لیا۔ تعلیمی حساب سے آپ صحافی بنے نہ قانون دان بلکہ سیاست دان بن گئے۔ لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر ایم این اے بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ آج بھی جمعیت کے موثر ترین سرپرستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دورہ ایران سے واپسی پر اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ ایک مختصر سی نشست کی، جس کا احوال اپنے قارئین کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)


اسلام ٹائمز: آپ کا دورہ ایران کیسا رہا اور آپ نے وہاں کے لوگوں کو کیسا پایا۔؟
لیاقت بلوچ: الحمدللہ ہمارا سفر بہت اچھا گزرا ہے، ہم نے اس سفر کو بہت انجوائے کیا۔ اس کے علاوہ وہاں انقلاب اسلامی کے آثار دیکھے اور ان لوگوں کی امام خمینی سے عقیدت اور اس کیساتھ ساتھ امریکہ سے نفرت لائق تحسین ہے۔ ایرانی ایک عظیم قوم ہیں اور بہادری ان کی سرشت میں ہے۔ وہ اپنے وطن کے دفاع کے لئے ہر حد تک جاسکتے ہیں اور اپنے وطن سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ وہاں نوجوانوں کی اکثریت ہے اور جو چیز ہم نے دیکھی وہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے انقلاب سے محبت کرتے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کچھ آزاد خیال ہیں اور ان کی سوچ میں کچھ مغربیت ہے، لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں، انہیں حکومت نے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کی فورسز بھی متحرک ہیں اور انقلاب اسلامی کی حفاظت کے لئے بنائی جانے والی بسیجی فورس بھی قابل ذکر ہے، جو انقلاب کے خلاف سازشوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود ایران مستحکم ہے اور اس کی قیادت کو سلام
پیش کرتے ہیں جنہوں نے شیطان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور اپنی محنت کے بل بوتے انہوں نے اپنے معیشت کو قائم رکھا ہے، اسے تباہ نہیں ہونے دیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کے حوالے سے ایرانی قوم کے کیا جذبات ہیں۔؟

لیاقت بلوچ: ایرانیوں کو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت پر تشویش ہے اور وہ بھی ہماری طرح اس پر پریشان ہیں، انہیں بھی دکھ ہے کہ بےگناہ لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ایران چاہتا ہے کہ پاکستان میں امن ہو اور پرامن پاکستان کے قیام کے لئے وہ ہر ممکن تعاون کرنے کے لئے بھی تیار ہیں، لیکن افسوس کہ ہماری حکومت کا جھکاؤ دوست ملکوں کے بجائے امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف ہے، ہمارے حکمران بھی بھولے ہیں، جس طرح ہمارے عوام ہر بار الیکشن میں حکمرانوں کے جھانسے میں آکر انہیں ووٹ دیتے ہیں، اسی طرح یہ حکمران بھی امریکہ کے جھانسے میں آ جاتے ہیں، یہ مکافات عمل ہے، جو سلوک ہمارے حکمران عوام کے ساتھ کرتے ہیں، امریکہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتا ہے۔ اس لئے ایران کی خواہش ہے کہ ہم امریکہ کی غلامی سے نکل کر آزادی کی زندگی جیئیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہم امریکی بلاک سے نکل آئیں کیوں کہ ہمارے تمام مسائل امریکی بلاک میں شمولیت کی وجہ سے ہیں۔ طالبان بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کا دامن چھوڑ دیں امن ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ حکومت کے جو مذاکرات چل رہے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں یہ کامیاب ہو جائیں گے۔؟

لیاقت بلوچ: طالبان تو مذاکرات کے حق میں ہیں، ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں بلکہ آپریشن جیسے تلخ تجربات کو بار بار دہرانے کی بجائے امن کو ایک بار نہیں سو بار موقع دیا جائے۔ اس لئے کہ آپریشنز سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں کے ردعمل میں دہشت گردی بڑھی، اس لئے ہمیں یہ پالیسی بھی ترک کرنا ہوگی۔ امریکی لابی شائد مذاکرات کو پسند نہیں کرتی، جو لوگ بھی آپریشن کی بات
کرتے ہیں، وہ امریکی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ قوم دہشت گردی سے تنگ آچکی ہے، مگر دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ جب بھی مذاکرات کے سلسلہ میں بات آگے بڑھائی جاتی ہے، تیسری قوت مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ استعمال کر دیتی ہے، جس سے سلسلہ رک جاتا ہے۔ اب ہمیں ان غیبی ہاتھوں کو پہچان لینا چاہیئے جو ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں، عوام اس قتل و غارت گری اور بم دھماکوں سے تنگ آ چکے ہیں، پھر یہ ملک خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت کے بے دریغ استعمال سے مسائل کبھی حل نہیں ہوئے، اس کے لئے فریقین کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ طاقت کے استعمال سے دہشت گردی بڑھتی ہے۔ حکومت طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذاکرات کا آغاز کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے تو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔؟
لیاقت بلوچ: وزیراعظم کی طرف سے یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس سے ان عناصر کو ناکامی ہوئی جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے اندر حالات خراب کرنے کا ذمہ دار بھارت ہے، جس نے افغانستان میں 21 قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔ جہاں سے تربیت یافتہ ایجنٹ پاکستان آکر دھماکے کرتے ہیں۔ سی آئی اے، موساد اور را جیسے خفیہ ادارے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں جاسوس پاکستان میں دہشت گردی پھیلا کر اس کو کمزور کر رہے ہیں، حکومت کو اس پر نظر رکھنی چاہیئے، محض ہر واقعہ کو طالبان سے منسوب کرنے سے اصل مجرم چھپ جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتی ہے، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل، بھارت اور امریکہ کی سازشوں پر کڑی نظر رکھی جائے، جو ایمٹی پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا قائم کی جائے، اس
سلسلہ میں حکومت کا طالبان کیساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ خوش آئند ہے۔

اسلام ٹائمز: اکثر سیاسی جماعتیں مذاکرات کی حامی ہیں، اسکے باوجود بار بار تعطل کیوں آ رہا ہے، کیا اس سے ایسا نہیں لگ رہا کہ طالبان مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہی نہیں۔؟

لیاقت بلوچ: آج ملک میں اسلامی حکومت ہوتی تو کوئی کسی کا حق نہ مار رہا ہوتا، حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا۔ اسی لئے یہ لوگ ملک میں اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ انہیں پھر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا۔ یہاں پر غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ قانون ہے جبکہ اسلام میں تمام مسلمان برابر ہیں، کوئی کسی کا حق غصب نہیں کرسکتا۔ ہمارے ہاں غریب غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے جبکہ اشرافیہ کے محلات تعمیر ہو رہے ہیں، ملک میں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت ہے، ہمارے ہاں غیر ملکی دباؤ پر اب نصاب تعلیم میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جو ہم کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے میں قوم کو امریکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے اقدام کئے جائیں گے۔ ان سب کے لئے قوم کو ایک ہونا پڑے گا، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی تسلط سے باہر نکلے بغیر ہم اپنا کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔

ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر عناصر مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں، اس لئے کہ وہ اسلامی نظام سے خائف ہیں، ہمیں وطن عزیز کو لبرل یا سیکولر بنانا تھا تو پھر اسے حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ بھارت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پاکستان کو سیکولر بنانے کی باتیں کرنے والے دراصل بانی پاکستان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس لئے کہ قائد اعظم تو اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے، انہوں نے ہی دو قومی نظریہ پیش کیا تھا، جس کے مطابق مسلمانوں کے لئے ایک ملک کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس میں مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ ان کے نظریات سے انکار کرنے والے دراصل ملک کی نظریاتی اساس کے دشمن ہیں، جو یہاں پر اسلام کا فروغ نہیں چاہتے،
یہ لوگ قادیانیوں اور ہنود و یہود کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ملک دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا اور ہم اسی نظریہ کے تحت یہاں پر اسلام کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہاں پر سودی نظام ختم کرکے مکمل اسلامی معاشرہ تشکیل دے دیا جائے تو کسی کو بھی یہاں لادینیت اور سکیولر ازم پھیلانے کی اجازت نہ ہوگی۔ جب اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی تو پھر ہر ایک کو اس کا حق مل جائے گا، اسلام ہی تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور ہم اسی نظام کی جدوجہد کرتے آ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز:ملک دہشتگردی کی آگ میں سلگ رہا ہے، اس شورش کا ذمہ دار کون ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت امن قائم نہیں ہونے دیتے۔؟

لیاقت بلوچ: ہم شروع دن سے کہتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور افراتفری پیدا کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے، اب تو بھارت کے سابق آرمی چیف نے بھی برملا اس کا اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لئے سیل قائم کر رکھا تھا، تاکہ پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے۔ اس لئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھارت اب بھی سرگرم عمل ہے۔ پھر بھارت مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے، اس کی چھ سات لاکھ فوج کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے، جہاں وہ بے گناہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ پاکستان داخلی مسائل میں الجھا رہے اور وہ کشمیر کی طرف نہ آئے۔ اس نے افغانستان کے راستے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی مداخلت شروع کر رکھی ہے۔

وجہ وہی ہے کہ پاکستان مشرقی محاذ سے نظر ہٹا کر مغربی سرحدوں پر ہی الجھا رہے۔ اسی لئے تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں یورش پیدا کی جا رہی ہے۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت میں بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ ہمیں اس کو ایکسپوز کرنا چاہیئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ کے اشارے پر ہو رہا ہے، وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کمزور کرنا چاہتا
ہے، اس لئے خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کے لئے وہ پاکستانی قیادت پر دباؤ بڑھاتا رہتا ہے، مگر ملک کو بچانے کیلئے ہمیں ایک بار پھر نظریہ پاکستان کی جانب رجوع کرنا پڑے گا، نوجوانوں کو بتانا پڑے گا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کس طرح اس نظریئے کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں۔ آج تک بھارت نے ہمارے وجود کو تسلم نہیں کیا، وہ ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ انہوں نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، جہاں غیور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہمارے پانیوں پر قبضہ اور ثقافتی یلغار کیساتھ نئی نسل کو بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کی بھی تو سازشیں ہو رہی ہیں، اس کے پیچھے کون ہے۔؟

لیاقت بلوچ: جی بالکل آپ نے درست کہا، بھارت نے ایک تو ہمارے پانیوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ہمارے دریاؤں پر قبضہ جما کر ہمارے ملک کو بنجر بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، اب تک بھارت 55 سے زائد ڈیم تعمیر کرچکا ہے، جس کے لئے اسے سرمایہ امریکہ نے فراہم کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے ثقافتی یلغار کا ذکر کیا تو اس میں بھی بھارت پیش پیش ہے۔ ایک تو وہ اپنے ٹی وی چینلز اور فلموں کے ذریعے ہماری نسل کو گمراہ کر رہا ہے، دوسرا یہ بھی شنید ہے کہ ہمارے ملک میں چلنے والے ترکی ڈراموں کے پیچھے بھی بھارت اور امریکہ کا ہاتھ ہے، کیونکہ ترک صدر عبداللہ گل اور دیگر ترک حکام ان ڈراموں سے اعلان لاتعلقی کرچکے ہیں اور واضح کہہ چکے ہیں کہ ان ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ ہماری ثقافت نہیں، بلکہ یہ ڈرامے ترکی سے کہیں باہر تیار ہو رہے ہیں اور یہ فحش کلچر ترکی میں ہے ہی نہیں۔ اس حوالے سے بھارت اور امریکہ مل کر ہماری نسل کو بے راہ روی کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے وہ محاذ جنگ میں تو ہمارا مقابلہ کر نہیں سکتے، اس طرح پھر انہوں نے ہماری نسل کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، اس حوالے سے ہماری حکومت کو چاہیئے کہ اس ثقافتی یلغار کا سدباب کرے۔
خبر کا کوڈ : 363762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش